ثواب یا گناہ
فارسی ادب سے انتخاب
ترجمہ ۔۔۔ڈاکٹر غلام مصطفی بغلانی
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ثواب یا گناہ۔۔۔ ثواب یا گناہ)میراجی چاہتا تھا کہ میں بھی شامل ہو جاؤں لیکن میرے پاؤں آگے نہ بڑھے ۔ میں ڈرتا تھا کہ کئی لوگ مجھے سہراب کا طرفدار سمجھتے ہیں۔ اس لیے شرکت کرنا بہتر نہ ہوگا۔
دو تین مرتبہ میں حبیبہ سلطان کے گھر میں اتفاقیہ طور پر گیا۔ ایسا معلوم ہو تا تھا گویا حیرت و سرائینگی اور حواس باختگی کا عالم اس پر طاری تھا، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں اتنی باتیں نہیں کرتی تھی اور نسبتا کم آور زاری کرتی تھی اور زیادہ تر اپنے ساتھ باتیں کرتی تھی، یوں معلوم ہو تا تھا کہ وہ مد ہوشی کے عالم میں بڑ بڑا رہی ہے۔ وہ بد حواسی کی باتیں زیادہ تر انہی جوانی کے زمانے کے بارے میں اور اپنے شوہر اور اپنی ماں کے متعلق کرتی تھی۔ اس کے ہمسایوں میں سے ایک بے نوا عورت کو اس کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کر دیا، اور میں نے خود سہراب کی نجات کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ مجھے شدید احساس یہ تھا کہ میری ساری کوششیں اکارت جائیں گی، تاہم میں اپنے آپ کو نہ روک سکال عدالت کے وکیل بہت سے وعدے وعید دیتے اور کہتے تھے اپنی ورافعت میں یہ قتل وقوع پذیر ہوا ہے اور اس وجہ سے سزا میں کمی ہو جائے گی، میں اسی طرح اپنے دل کو بہلا تار با اور پھر میں نے اجازت حاصل کی، تھوڑا سا کھانا اور تین سگریٹ کی ڈبیا لے کر میں سہراب کو ملنے گیا۔ افسوس، میں نے اسے کس حالت میں دیکھا، سیراب کی ساری دلکشی اور خوبصورتی رخصت ہو چکی تھی، بل کے مریض کی طرح جس کا ایک پاؤں قبر میں ہوتا ہے، اس کی زندگی آخری سانسوں پر معلوم ہوتی تھی، اس نے مجھے دیکھا تو رونے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ چند ہے کہ وہ معدے کے زخم اور سرطان کے مرض میں مبتلا نہ ہو تا، قسمت کا یہی فیصلہ تھا۔ اس قسم کی گفتگو اور بے تابیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔”
وہ کہنے لگا میں خود بھی ان تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور سینکڑوں مرتبہ اسی قید خانے کے گوشے میں اور رات کی تاریکیوں میں منطق کی دو اصطلاحوں صغری اور کبری کے ثبوت ولا ئل کو اپنے وجدان اور ضمیر کو دھوکا دینے کے لیے ترتیب دیا ہے اور سامنے لایا ہوں لیکن کوئی بھی فائدہ نہ ہوا۔ میرے جسم کا ایک ایک ڈرو مجھے کہتا ہے کہ تو نے انسان کو قتل کیا ہے۔“
میں نے کہا سبھی مذاہب توبہ و زاری پر یقین رکھتے ہیں اور اگر تو بھی خدا کے سامنے انتہائی نیک نیتی اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ تو بہ کرے تو مجھے یقین ہے کہ تیری توبہ قبول ہو جائے گی۔
وہ کہنے لگا میں نہیں چاہتا کہ میری توبہ قبول ہو، میں نے گناہ کبیرہ کیا ہے اور میں ایک رسی چاہتا ہوں کہ اپنے اس حلق میں ڈال لوں اور اپنے آپ کو نجات دلاؤں۔
دو تین دن کے بعد خبر آئی کہ حبیبہ سلطان سوتے ہوئے ہی دوسری دنیا میں رخصت ہو گئی۔
چند دن تک میں سوچتا رہا کہ میں اس کی وفات کی خبر سہراب کو دوں یانہ ؟ پھر میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اس کے پاس پہنچوں اور اسے مطلع کروں۔ میں جانتا تھا کہ پھر جب وہ میری طرف دیکھے گا، تو اس پر ویتی اذیت اور روحانی کوفت کی حالت طاری ہو جائے گی لیکن جس وقت پولیس والے نے دروازہ کھولا اور میں کمرے میں داخل ہوا تو میں بہت حیران ہوا، میں نے دیکھا کہ اس کی جیت سلجھی ہوئی ہے، صاف ستھرے ہے کہ وہ معدے کے زخم اور سرطان کے مرض میں مبتلا نہ ہو تا، قسمت کا یہی فیصلہ تھا۔ اس قسم کی گفتگو اور بے تابیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔”
وہ کہنے لگا میں خود بھی ان تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور سینکڑوں مرتبہ اسی قید خانے کے گوشے میں اور رات کی تاریکیوں میں منطق کی دو اصطلاحوں صغری اور کبری کے ثبوت ولا ئل کو اپنے وجدان اور ضمیر کو دھوکا دینے کے لیے ترتیب دیا ہے اور سامنے لایا ہوں لیکن کوئی بھی فائدہ نہ ہوا۔ میرے جسم کا ایک ایک ڈرو مجھے کہتا ہے کہ تو نے انسان کو قتل کیا ہے۔“
میں نے کہا سبھی مذاہب توبہ و زاری پر یقین رکھتے ہیں اور اگر تو بھی خدا کے سامنے انتہائی نیک نیتی اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ تو بہ کرے تو مجھے یقین ہے کہ تیری توبہ قبول ہو جائے گی۔
وہ کہنے لگا میں نہیں چاہتا کہ میری توبہ قبول ہو، میں نے گناہ کبیرہ کیا ہے اور میں ایک رسی چاہتا ہوں کہ اپنے اس حلق میں ڈال لوں اور اپنے آپ کو نجات دلاؤں۔
دو تین دن کے بعد خبر آئی کہ حبیبہ سلطان سوتے ہوئے ہی دوسری دنیا میں رخصت ہو گئی۔
چند دن تک میں سوچتا رہا کہ میں اس کی وفات کی خبر سہراب کو دوں یانہ ؟ پھر میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اس کے پاس پہنچوں اور اسے مطلع کروں۔ میں جانتا تھا کہ پھر جب وہ میری طرف دیکھے گا، تو اس پر ویتی اذیت اور روحانی کوفت کی حالت طاری ہو جائے گی لیکن جس وقت پولیس والے نے دروازہ کھولا اور میں کمرے میں داخل ہوا تو میں بہت حیران ہوا، میں نے دیکھا کہ اس کی جیت سلجھی ہوئی ہے، صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے اور بالوں میں کنگھی کیے ہوئے، اپنے بستر پر بیٹھا ہوا انتہائی سکون اور خندہ پیشانی کے ساتھ سگریٹ پینے میں مشغول ہے۔
میں نے سوچا کہ شاید اس لیے کہ اس کے اضطراب میں کمی ہو جائے گی کسی نے اسے دھوکا دیا ہے اور کہا ہے
تو بری ہو گیا ہے۔ لیکن میں جلد ہی سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے اور اس تبدیلی کی وجہ کچھ اور ہے۔“
میں نے کہا ماشاء اللہ! آج تیری حالت اچھی ہے اور تیرے حواس بھی ٹھیک ہیں۔ اگر خدا نے چاہا تو آج کل میں تیری رہائی کی خوشخبری پہنچے گی۔
وہ کہنے لگا میں چاہے جس قدر بھی احمق کیوں نہ ہوں۔ میں ان باتوں سے اپنے دل کو خوش نہیں کروں گا۔ میر اول پیزار ہو گیا ہے اور میں تھک چکا ہوں۔ اب
میں آرام کا طلب گار ہوں۔
میں نے کہا “میری سمجھ میں تو کچھ آنہیں رہا۔“ اس نے کہا ” پرسوں رات سارے جسم کی بد حالی اور پریشانی اور دو تین راتوں کی بے خوابی کی وجہ سے میرا سر چکرا رہا تھا اور میں شدید نقاہت محسوس کرتا تھا۔ اسی بستر پر گر پڑا اور مجھے کوئی خبر نہ رہی اچانک میں نے دیکھا کہ حاجی فتح اللہ انتہائی خوش و خرم اور ہنستا ہوا میرے کمرے میں داخل ہوا اور اگر میرے پاس کھڑا ہو گیا اور شفقت اور محبت سے بھر پور آواز میں کہنے لگا۔ سہر اب پیارے! خدا تیرے باپ کو بخشے کہ تو نے مجھے نجات دی ہے۔ تجھے کیا معلوم کہ میں تیرا کس قدر شکر گزار ہوں … ؟ میری عمر انسٹھ برس کی ہو چکی تھی اور میں نے آرام کا منہ بھی نہ دیکھا تھا۔ یقین کر ، مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ آرام کے کہتے ہیں ؟ اور زندگی میں کیا لطف ہے…..؟ میری ساری سوچ بچار اور میری گفتگو دولت جمع کرنے کے لیے تھی اور بس۔ میں انتہائی محسیس و بخیل تھا۔ وہ رقم ہے کہ انتہائی محنت سے دمڑی دمڑی اور کئی
سالوں کے بعد پیسہ پیسہ اور اس کے بعد ایک ایک تومان اور پھر سو سو اور ہزار ہزار تومان کے حساب سے جمع کیا تھا۔ کیا میر اول چاہتا کہ حکیم اور دوا کے لیے دوں۔ فشار خون (بلڈ پریشر) کی مجھے بہت زیادہ تکلیف تھی، دوسرے اعصاب بھی ناکارہ ہو گئے تھے، محققان کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا، میرے منہ میں چھالے ہو گئے تھے۔ میرے دانت خراب ہو چکے تھے لیکن پھر بھی میں نے کوشش نہ کی کہ علاج کرواؤں۔ مجھے یہ بھی اچھی طرح احساس تھا کہ میرے رشتہ دار یہاں تک کہ نوکر اور نوکرانی بھی طنراً اشارے کرتے تھے لیکن میں ان سنی کر دیتا اور صرف ان کو تنخواہ دینے کے موقع میں اس کا بدلہ لے لیتا، میں ایک خارش زدہ کتے کی سی زندگی بسر کرتا۔ مجھے اس کا احساس بھی تھا لیکن لالچ اور حرص و ہوس اجازت نہیں دیتی کہ میں اپنی زندگی کی روش اور رنج میں کوئی تبدیلی لاؤں۔
افسوس ہے ان لوگوں پر کہ اپنے قیمتی وقت کو اس طرح سے بیکار کاموں میں ضائع کرتے ہیں۔ اپنے اور اپنے ہموطنوں کے حالات کی بہتری کے بارے میں سوچ بچار نہیں کرتے، حیوانوں کی طرح چرتے ہیں اور غراتے ہیں، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے۔”
دراصل میں پیسہ جمع کرنے میں مشین بن گیا تھا حرص اور لانچ کی چابی میرے اندر بھر دی گئی تھی اور میری سوئیاں دن رات کام کرتیں اور میرے جسم کے
کانوں میں تک تک کر تیں مجھے یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ میں خوش قسمت ہوں یا کہ بد قسمت، کامران ہوں یا نا کام۔
انہی دھوکا بازیوں، انتھک کو ششوں اور بہت زیادہ بھاگ دوڑ کی گبھا نہی میں جو کہ زحمتوں سے بھر پور تھی اور جسے میں نے تجارت، کاروبار اور زندگی کا نام دے رکھاتھا، تیرے مشکل کشا ہاتھ سے میری زندگی ختم ہو گئی۔ تیرا انجر میری نجات کی کشائش کا ذریعہ بنا۔ اب في امان اللہ تجھے میں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اپنا خواب سنانے کے بعد سہراب نے مجھے بتایا کہ جس وقت میں جاگا، میں اکیلا تھا۔ یقین کرو کہ یہ واقعہ خواب و خیال کے علاوہ کچھ اور بھی تھا لیکن میری روح کے کان میں اور میرے خمیر کی اتھاہ گہرائیوں میں بار بار یہ آواز گونجتی تھی کہ جو کچھ تو نے دیکھا اور سنا صریحاً حقیقت ہے۔
میں نے کہا ” سہراب تو ایک عجیب و غریب بندہ بن گیا ہے۔ مجھے انتہا درجہ افسوس ہے کہ میں تمہیں ایک بری خبر سنانے والا ہوں۔ آج پورا ایک ہفتہ گزر گیا ہے کہ تیری ماں اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔
ایسا معلوم ہو تا تھا کہ اس نے کوئی خوشی و مسرت کی خبر سن لی ہے۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھا اور خرمی و خوشی کی علامتیں اس کے چہرے پر ظاہر ہوئیں اور کہنے لگا جہانوں کے پالنہار کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہی ماں کا فکر مجھے افسردہ اور مغموم بنائے ہوئے تھا۔
وقت ختم ہو چکا تھا۔ میں قید خانے سے باہر چلا گیا۔ دودن بعد یہ خبر پہنچی کہ اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2015