Daily Roshni News

جب اللہ دل میں رہتا ہے تو پھر جبرائیل آسمان پہ کیا لینے جاتا ہے

جب اللہ دل میں رہتا ہے تو پھر جبرائیل آسمان پہ کیا لینے جاتا ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایسا نہیں ہے کہ اس پوسٹ میں یا اس بات میں کوئی بے ادبی کی گئی اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں آپ پڑھے لکھے با شعور لوگ ہیں اگر اس بات کو یوں بیان کر دیا جائے کہ

جب اللہ و سبحان تعالٰی دل میں رہتے ہیں

تو پھر حضرت جبرائیل امین آسمان پر کیونکر جاتے ہیں ،

سوال تو پھر بھی وہی رہے گا یا اس بات کو کرنے کا مقصد صرف یہ ہوں کہ لوگوں کا دھیان اس طرف کیا جائے کیونکہ تقریبا تمام مسلمان تمام مذاہب کے لوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ انسان ہی میں پوشیدہ ہے مذہبی کتابوں سے ثابت شدہ بات ہے ، مگر اگلے ہی لمحے جب ہم یہ کہتے ہیں حضرت جبرائیل آسمان سے پیغام لاتے تھے ، تو ہم پہلے والی اس بات کو رد کر دیتے ہیں کہ اللہ ہمارے دلوں میں ہے یا ہم میں پوشیدہ ہے ، اب ایک ہی بات سچ ہو سکتی ہے یا تو وہ دلوں میں ہے یا پھر آسمانوں میں ، اگر اوپر آسمانوں میں ہے تو سائیندان تو بہت اوپر تک گئے ہیں مگر انہوں نے یہی جواب دیاہے کہ ہم جہاں بھی گئے ہم نے قدرت کو اتنا ہی وسیع پایا اتنا ہی پیچیدہ پایا ہماری حیرت کا جہان بڑھتا ہی گیا ،

کہا جاتا ہے جسے تو زمین سمجھتا ہے وہ آسمان ہے کسی اور جہان کے لئے ،

بے ادبی یہ نہیں ہوتی ہے بے ادبی یہ ہوتی ہے کہ آپ نے اللہ کے جہان میں آنکھ کھولی اور اس کو جان نہیں پائے ، اس تک پہنچ نہیں پائے ، جبرائیل کی آپ نے عزت تو کی مگر اس کا پیغام آپ لے نہیں پائے ، جبرائیل کے بارے میں کیا صرف اس وقت بات ہوئی ہے اقبال کہتا ہے

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے

جو عقل کا غلام ہوں وہ دل نا قبول کر

بلھا کہتا ہے

ہابیل کابیل آدم دے جائے تے آدم کس دا جایا

بلھا ایناں تو اگے ہویاں جنھے داد گود کھڈایا

جب کہہ دیا گیا کہ انسان مجموعہ کائنات ہے سب اس کے پاس ہے اس کے ساتھ ہے یہ جیسے جیسے اپنی خودی کھوجنا شروع کرتا ہے خزانے برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں خزانوں کی مثالیں آپ اس دنیا میں دیکھ سکتے ہیں اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائیل سے لے کر اپنے کمرے میں چلتے پنکھے ، بلب اور کمپیوٹر تک سب کچھ انسان میں سے ہی برآمد ہوا ہے یہ اس پوری گلیکسی کو اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائیل پر دیکھ سکتا ہے ، سو جہاں اتنا کچھ پایا جاتا ہے وہاں جبرائیل کا موجود ہونا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ، آپ بے خبر ہیں بس یہی بڑی بات ہے ، آپ اپنی خبر لیجے جب آپ کو اپنی پہچان ہونا شروع ہو جاتی ہے جب آپ اپنے وجود کے گھڑے کو کھودنا شروع کرتے ہیں تب آپ کو پتا لگنا شروع ہوتا ہے کہ کون کہا کہا پایا جاتا کس بات کی کتنی حقانیت ہے ، ایسے ہی نہیں کہا جاتا

تو کُجا من کُجا ، ان باتوں کا کوئی مقصد ہے کوئی حاصل ہے

ہمارے دلوں میں ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ سوال نہ کرو یہ معاملہ نا اُٹھا تم کافر ہو جاو گے ، جبکہ گندگی جس مرضی پییمانے پر پھیلائی جائے عورتوں کے ننگے جسموں سے لے کر زبان کی غلیظ ترین حالتوں تک سب چلتا ہے میڈیا سب دکھاتا ہے سوشل میڈیا سب دکھاتا ہے ، گندے غلیظ کردار ہماری فلموں میں دکھائے جاتے ہیں مگر اصلاحی بات انسانیت کے بھلائی کی دین پر بات ایک گناہ سمجھا جاتا ہے، آپ کوئی ایسا کردار فلمی یہ ڈرامائی صورت میں دکھا نہیں سکتے جس سے معاشرے کی اصلاح ہوں دین کی سمجھنے میں آسانی ہو مثال کے طور آپ بلھے شاہ کا کردار اس کی زندگی ڈرامائی انداز میں سکرین پر نہیں دکھا سکتے اس کے مقابلے میں ننگا ڈانس اپنی ثقافت اور تہذیب سے الگ واھیات چیز دکھا سکتے ہیں ، عورتوں کے سائز کے معاملے میں بھرپور اور لاحاصل بحث ہو سکتی ہے مگر دین کے معاملے میں ایک جتسجو کی خاطر سچ کی تلاش میں بحث کرنا گناہ ہے

اس پر غورو فکر کرنا گناہ ہے یہ کیسا معاملہ ہے کہ جو اللہ انسان کو بھرپور زندگی دے بھرپور معاشرہ اور شعور دے اور خود یہ چلینچ کرے کہ جاو ڈھونڈو مجھے غورو فکر کرو ، اور بہتر سے بہتر تلاش کرو پھر بھی ہم جواب تلاش نا کریں اور گھٹ کے مر جائے اور ہماری زندگی کا کوئی نعم و البدل بھی نا ہو ،

دنیاکے ہر معاملے میں آپ نتائج سے آگاہ ہوئے بغیر نہیں رہتے جب تک کوئی نتیجہ اخذ نا ہو آپ لگے رہتے ہیں آپ سچ تک پہنچنے کے لئے لازوال بحث کرتے ہیں اپنی خرافاتی معاملات کو بحث مباحثوں سے حل کرتےہیں یہاں تک کہ ہمارے جھگڑے ہو جاتے ہیں اور دین میں تو جھگڑا ہے ہی نہیں صرف سچ تک پہنچا مقصد ہے ایک سیر حاصل بحث ہو یہاں تک کہ آپ کے پسینے نکل آئے کیونکہ نہ آپ کی بات نا میری بات ہے مالک کی بات ہے ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے کڑی سے کڑی جوڑنی ہے ، ہم نے مل کر اپنے اپنے سچ کو پانا ہے ،شائد اس سفر میں ہمیں کوئی بلھے جیسا ، معین الدین چشتی جیسا، نظام و الدین اولیا جیسا سقراط جیسا کوئی اللہ کا بخشا ہوا بندہ مل جائے جو ہماری اس تلاش میں ہماری رہںمائی کر سکے

Loading