جب کوئی رو رہا ہو تو ہم کتنی جلدی سے کہہ دیتے ہیں نا کہ یار صبر کرو حوصلہ رکھو ہمت سے کام لو
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب کوئی رو رہا ہو تو ہم کتنی جلدی سے کہہ دیتے ہیں نا کہ یار صبر کرو حوصلہ رکھو ہمت سے کام لو بہادر بنو کچھ لوگ یہ چار لفظ محبت و ہمدردی کہ ناطے سے کہتے ہیں یہ لفظ کہنے کتنے آسان ہے نا کتنی جلدی سے ہم یہ سب کہہ دیتے ہیں اور پھر کچھ لوگ تو مطلب حد ہی کر دیتے ہیں کہتے ہیں کہ تم نے یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے جب دیکھو تب اداس اور کوئی کام نہیں کیا تمہارے پاس رونے دھونے کہ علاوہ کبھی ہنس بھی لیا کرو جب دیکھو منہ بنائے رکھتے ہو چھوڑ دو اداسی کی جان خوش رہا کرو یہ وہ اور اسی ہی کئی باتیں سننے کو ملتی ہے بات یہ نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بات تو انکے الفاظ انکے لہجے کی ہے
ارے یار کوئی پاگل بھی ہو نا تو وہ بھی کبھی بھی اپنے لئے اداسی نہیں چنے گا
میں کیا کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ اداس رہے سب خوش ہی رہنا چاہتے ہیں مگر وقت حالات اور قسمت انسان کو ایسا بنا دیتے ہیں
یہ صبر حوصلہ و ہمت جیسے لفظ کسی بڑی سے دکان میں پڑی کسی خوبصورت سی کتاب میں لکھے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں جب حقیقی زندگی میں یہ سب سہنا پڑے پتا تو تب چلتا ہے
کہنے والے کتنے آرام سے کہہ کر چلتے بنتے ہیں
جو اس دور سے گزر رہے ہوتے ہیں پتا تو انہیں ہوتا ہے
جانتے ہو جب تکلیف ہوتی ہے تو کیسا لگتا ہے ؟
زخم نظر نہیں آتا پر درد انتہا کا ہوتا ہے
ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے جسم پر چھریاں چلائی جا رہی ہو
جیسے سوئیاں چبھوئی جا رہی ہو
جیسے ہمیں جلتی آگ میں پھینک دیا گیا ہو
جیسے ہمیں پتھر مارے جا رہے ہو
تب اتنا درد ہوتا ہے کہ بیان سے باہر ہے
اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ برداشت نہیں ہوتی
کھلی فضا میں بھی دم گھٹتا ہے
سانس نہیں لی جاتی
بھوک نہیں لگتی
پیاس ہونے کہ باوجود بھی پانی نہیں پیا جاتا
اتنی اذیت ہوتی ہے کہ پھر اپنا ہونا بھی اچھا نہیں لگتا
تب بس ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے
یا تو غم ختم ہو جائے یا ہم
یا صبر آ جائے یا موت
لوگ کہتے ہیں کہ
موت مانگنا گناہ ہے
لیکن کیا کسی کو جیتے جی مار دینا گناہ نہیں ہے ؟
کسی کی روح کو گھائل کرنا گناہ نہیں ہے ؟
کسی کو درد دینا گناہ نہیں ہے ؟
کسی کی ہنسی چھیننا گناہ نہیں ہے ؟
کسی کو عمر بھر کہ لئے آنسو دینا گناہ نہیں ہے؟
کسی کو اذیت دینا گناہ نہیں ہے؟
جب یہ سب گناہ نہیں ہے ان سب کی معافی ہے
تو پھر موت مانگنے کی بھی معافی ہونی چاہیے مر کر ان سب اذیتوں سے نجات کی بھی معافی ہونی چاہیے نا
جب کوئی موت مانگتا ہے نا تو وہ پاگل نہیں ہوتا
بس ہر طرف سے تھک چکا ہوتا ہے
اپنوں سے اپنے آپ سے
اذیت
کنتا چھوٹا لفظ ہے نا
پر جب یہ خود پہ گزرے تب پتا چلتا ہے
یہ چھوٹا سا لفظ جینا مشکل کر دیتا ہے
سانسیں حلق میں اٹک جاتی ہیں
پھر نا دعائیں اثر کرتی ہے نا دوائیں
صبر حوصلہ و ہمت
یہ سب کتابی باتیں ہیں اور کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہے
حقیقت میں جب یہ سب سہنا پڑے تو انسان جیتے جی مر جاتا ہے اور افسوس کہ اسے موت بھی نہیں آتی
ہم جیسوں کہ دوہرے مسائل ہوتے ہیں
ایک ہمیں غم سہنے پڑتے ہیں
اور دوسرا پھر بھی سب سے مسکرا کہ ملنا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ کچھ نہیں ہم ٹھیک ہے خوش ہیں
جب کہ ہمارا دل رو رہا ہوتا ہے مگر پھر بھی ضبط کا دامن تھام کہ رکھتے ہیں اور ایسے دیکھاتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
اور کتنا صبر و تحمل کیا جائے
اور کتنے حوصلے و ہمت سے کام لے ؟؟