جسم کے راز (29) ۔ کھانے کے مسئلے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایلیناو اور سیگل کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کس قسم کی خوراک کسی شخص کو ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، جس کی خصوصیت بڑھی ہوئی بلڈ شوگر کی سطح ہے۔ کرنے والا کام یہ تھا کہ اس چیز کا ایک بڑے پیمانے پر اور تفصیل سے مطالعہ کیا جائے کہ لوگوں کے بلڈ گلوکوز کی سطح پر کس شے کے کھانے سے کیا اثر پڑتا ہے؟
انہوں نے 800 سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کیا۔ ہر شخص کی بلڈ شوگر کی سطح کو سات دنوں میں ہر پانچ منٹ بعد ماپا گیا۔
ذیابیطس کے شکار لوگوں میں گلوکوز کی سطح کی نگرانی کرنے کے لیے تیار کیا گیا ایک چھوٹا سا سینسر ہر رضاکار کے پیت پر ساتھ جوڑا گیا۔ اس قسم کا سینسر ایک بہت پتلی سوئی کا استعمال کرتا ہے تاکہ جلد کی اوپری تہہ کے نیچے موجود مائع میں پہنچ سکے، جہاں گلوکوز کی سطح خون میں گلوکوز کو ظاہر کرتی ہے۔
شرکاء اپنی روزمرہ کی زندگی جاری رکھے ہوئے تھے لیکن انہیں ایک فون ایپ کے ذریعے اپنی تمام سرگرمیاں ریکارڈ کرنے کو کہا گیا۔ انہوں نے کیا کیا، جب وہ سوئے یا ورزش کی، ساتھ ہی یہ کہ انہوں نے کیا اور کب کھایا۔ ان کے معمول سے صرف ایک استثناء یہ تھا کہ ہر صبح انہیں ایک تجویز کردہ ناشتہ کرنا تھا۔ اس نے ٹیم کو لوگوں کے 46,898 باقاعدہ کھانوں اور 5,107 مقررہ ناشتوں سے ہونے والے ردعمل پر ڈیٹا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہر شریک نے ایک تفصیلی طبی سوالنامہ کا جواب دیا، ان پر مختلف قسم کے جسمانی تشخیص کیے گئے جیسے کہ ان کے قد اور کمر کی پیمائش۔ اور ان سب کے فضلے کا ان کے مائکروبایوم کی ساخت کے لیے تجزیہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سٹڈی سے یہ پتہ چلا کہ گلوکوز کی سطح بالکل ہر کھانے کے گلیسیمک انڈیکس کے مطابق بڑھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ، یہ صرف اوسطاً ایسا تھا۔ ایک شخص سے دوسرے شخص میں تغیر بہت زیادہ تھا۔ کسی بھی دی گئی خوراک کے لیے، کچھ لوگوں کے گلوکوز کی سطح ڈرامائی طور پر بڑھ جاتی جبکہ دوسروں نے شاید ہی کوئی رد عمل ظاہر کیا۔ اور ایک شخص کے لئے ایک خوراک سے ہونے والا ردعمل ہر بار ایک ہی طرح کا تھا۔ مثال کے طور پر، ایک ادھیڑ عمر خاتون نے ٹماٹر کھائے تو اس کی بلڈ گلوکوز کی سطح بڑھ گئی۔ یہ کم ہی ہوتا ہے۔ اور اس وجہ سے ٹماٹر ہر غذائی پلان کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ ایک اور شخص کے لئے کیلے کھانے کے بعد خاص طور پر یہ بڑھ جاتا تھا۔۔ ایلیناو اور سیگل نے بعد میں لکھا: ‘ہمیں ایک حیران کن ادراک ہوا تھا۔ سب کچھ فرد سے خاص تھا’۔
سیگل کی بیوی، کیرن، خاص طور پر حیران ہوئیں۔ ایک ماہر غذائیت کے طور پر، انہیں لوگوں کو اس بارے میں رہنمائی فراہم کرنے کی تربیت دی گئی تھی کہ انہیں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اب، ان کے شوہر کے پاس اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کا غذائی مشورہ ہمیشہ مددگار نہیں رہا ہوگا۔ یہ بات ان کے لیے خاص طور پر حیران کن تھی کہ کچھ لوگوں کے کھانے کے بعد شکر کی سطح آئس کریم کے مقابلے میں چاول کھانے سے زیادہ بڑھی۔ یعنی کہ ان کی دی گئی ہدایات اگرچہ اوسطاً فائدہ مند تھیں، لیکن بہت سے افراد کے لیے ذاتی طور پر غلط تھیں۔
جمع کی گئی تمام معلومات کے ساتھ، ٹیم نے یہ دیکھنا تھا کہ آیا لوگوں کے کھانے کے بعد کے گلوکوز کی سطح کسی اور چیز سے باہم مربوط ہیں یا نہیں، جیسے کہ ان کا وزن، سائز، عمر یا وہ کتنی نیند یا ورزش کرتے ہیں۔ ایک مشین لرننگ الگورتھم کا استعمال کیا گیا تاکہ ان عوامل کے مجموعہ کا پتہ لگایا جا سکے۔ کمپیوٹر نے جو کچھ تیار کیا اس سے یہ معلوم ہوا یہ پتہ چلا کہ عوامل کا ایک پیچیدہ مجموعہ تھا لیکن ایک عنصر جو زیادہ نمایاں تھا۔ وہ ہر شخص کے اندر موجود جراثیم (مائیکروبایوم) تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دہائیوں سے، غذائی پلان کے ساتھ موٹاپے اور موٹاپے سے وابستہ بیماریوں جیسا کہ ٹائپ 2 ذیابیطس سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ایلیناو اور سیگل کی تحقیق ایک بہت بڑا مسئلہ دریافت کرتی ہے۔ ایک ‘صحت مند’ خوراک کیا ہے اس کا انحصار نہ صرف اس بات پر ہے کہ کون سا کھانا کھایا جا رہا ہے بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ کون کھا رہا ہے: ان کی جینیات، ان کا طرز زندگی اور ان کا مائکروبایوم اس میں شامل ہیں۔
جو چیز واضح طور پر ابھرتی ہے وہ ایک ایسی تصویر ہے جس میں مائکروبایوم، خوراک اور آنتوں کی فزیولوجی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اپنی پیچیدگی لئے ہوئے ہے اور وہ کس طرح تعامل کرتے ہیں؟ یہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہر کسی کے مائکروبایوم میں ان گنت مختلف قسم کے بیکٹیریا شامل ہیں، بشمول کچھ جن کی ہم نے ابھی تک شناخت نہیں کی ہے۔ ان کی خوراک میں دن کے مختلف اوقات میں مختلف مقداروں میں کھائے جانے والے ہزاروں کیمیکل شامل ہیں۔ اور ہر شخص کی بنیادی اناٹومی، ان کی جینیات، ان کے دفاعی نظام کی حالت، ان کی انفیکشن کی تاریخ اور مزید چیزوں سے تشکیل پاتی ہے۔ سائنس کے لیے، اور صحت مند کھانے کو کیا تشکیل دیتا ہے اس کی ہماری سمجھ کے لیے، یہ وہ پیچیدگی ہے، جسے صرف بڑے ڈیٹا اور کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے سمجھا اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ایلیناو اور سیگل کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ خوراک، غذائیت اور مائکروبایوم کی سائنس ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوراک کے حوالے سے ہمیں سیاسی، سماجی اور اخلاقی سوالات کا سامنا بھی ہے۔ عالمی کارپوریشنیں چربی، نمک اور شکر کے بہت لذیذ مجموعوں کے ساتھ کھانے اور مشروبات تیار کرنے اور بیچنے پر منافع کماتی ہیں۔ تجارتی مفادات اور حکومتی اقدامات ٹکرا سکتے ہیں۔ حال ہی میں، کئی حکومتوں نے زیادہ شکر والے مشروبات پر ایک ٹیکس عائد کرکے لوگوں کی شکر کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہنگری 2011 میں سب سے پہلے تھا، اور فرانس نے 2012 میں پیروی کی۔ برطانیہ نے اپریل 2018 میں اسے متعارف کرایا، اور جلد ہی کئی کمپنیوں نے اپنے مشروبات کو دوبارہ تیار کیا تاکہ وہ شکر کو ٹیکس لگانے کی حد سے نیچے کی سطح پر رکھیں۔ برطانیہ میں، جہاں زیادہ تر صحت کی دیکھ بھال ٹیکس کے ذریعے ادا کی جاتی ہے، ایسا کرنے کے لیے ایک سادہ مالی دلیل موجود ہے: برطانیہ میں، ٹائپ 2 ذیابیطس کے شکار لوگوں کی براہ راست دیکھ بھال کی سالانہ لاگت کا تخمینہ 8.8 ارب پاونڈ ہے۔ جیسے جیسے کوئی سائنس پختہ ہوتی ہے، نئی پالیسیاں تیار کی جانی چاہئیں۔ یہ خاص طور پر اہم ہو گا جب یہ ہماری روزمرہ کی زندگی کے اتنے اہم حصے سے متعلق ہو: جو کہ ہمارا کھانا پینا ہے۔
(جاری ہے)
تحریر: وہارا امباکر
![]()

