جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )١٨٧٧ کا دور تھا، جب قانون کمزور تھا اور غربت نے کئی گھروں کو توڑ رکھا تھا۔ اسی زمانے میں ایک باپ تھامس گیریٹ، نشے کی حالت میں اپنی آٹھ سالہ بیٹی ایما کو تاش کے ایک کھیل میں ایک ظالم اور عیاش آدمی کے ہاتھ ہار بیٹھا۔ یہ بات جب ایما کی پندرہ سالہ بہن سارہ کو پتہ چلی تو وہ گھبرا کر بیٹھ نہیں گئی بلکہ اپنی بہن کی زندگی بچانے کی خاطر آہنی چٹان کی مانند کھڑی ہو گئی۔ اس نے اپنے باپ سے صرف ایک سوال کیا: وہ اسے کب لینے آئے گا ؟ جواب ملا: کل دوپہر کو۔ اور اسی لمحے سارہ نے فیصلہ کر لیا کہ اس کی بہن کسی قیمت پر نہیں جائے گی۔
اگلی صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی سارہ عدالت پہنچ گئی۔ کلرک نے روکنے کی کوشش کی، مگر سارہ کی جرات دیکھنے کے قابل تھی۔ اس نے کہا: نشے میں شخص کا دستخط معاہدہ نہیں ہوتا، اور بچے قرض نہیں بنتے۔ قانون مجھے نہیں روک سکتا۔ جج نے اس کی دلیل سنی اور اسی وقت معاہدہ کالعدم قرار دے کر سارہ کو ایما کی قانونی سرپرستی دے دی۔ اس دن ایک پندرہ سالہ لڑکی اپنی بہن کی محبت میں پوری دنیا کے سامنے کھڑی ہوئی، اپنے خوف، غربت اور سسٹم کے خلاف۔
لیکن اصل امتحان ابھی باقی تھا۔ سرپرستی مل جانے کے بعد سارہ کے پاس نہ گھر تھا، نہ پیسہ، نہ کوئی سہارا۔ اس نے شہر کی عورتوں سے پناہ مانگی، کئی نے انکار کیا، مگر آخرکار مارٹھا نامی عورت نے اسے جگہ دی۔ سارہ نے صرف یہ درخواست کی: میری بہن پڑھتی رہے، میں کم اجرت پر بھی ہر مشکل کام کر لوں گی۔ پھر وہ تین سال تک روز سولہ سولہ گھنٹے کام کرتی رہی، پیسہ جمع کیا، اور آخرکار ١٨٧٧ میں ایک چھوٹی سی لانڈری کھولی، جو دو سال میں پورے علاقے کی معروف دکان بن گئی۔
سارہ کی محنت نے نا صرف اسے اٹھایا بلکہ دوسرے درجنوں عورتوں کے لیے بھی راستے کھولے۔ وہ منصفانہ اجرت دیتی، رہائش دیتی، اور ہمیشہ کہتی: ہم سب ایک دوسرے کو اٹھا کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا، اور جو لڑکی ایک رات عدالت کے دروازے پر کھڑی تھی، وہ آگے چل کر اپنی برادری کی سب سے کامیاب کاروباری خواتین میں شمار ہونے لگی۔
ایما تعلیم حاصل کر کے ٹیچر بنی، پھر پرنسپل اور آخرکار علاقے کی پہلی خاتون سپرنٹنڈنٹ۔ جب لوگ سارہ سے پوچھتے کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتی، تو وہ مسکرا کر کہتی: میں نے ایک بچی پہلے ہی پال لی ہے اور اسی پر مجھے فخر ہے۔
سارہ کی پوری زندگی ہمیں تین اہم نفسیاتی قوتوں کا عملی سبق دیتی ہے۔
Attachment
یعنی تعلق کی طاقت جس نے اسے اپنی بہن کے لیے حالات سے لڑایا۔
Resilience
یعنی مشکل میں دوبارہ کھڑے ہونے کی ہمت جس نے اسے ہر رکاوٹ کے باوجود آگے بڑھایا۔
Empowerment
یعنی خودمختاری اور دوسروں کو طاقت دینا جس نے اسے درجنوں عورتوں کا سہارا بنا دیا۔
آخرکار سارہ یہ ثابت کر گئی کہ جب محبت مقصد بن جائے، حوصلہ راستہ بنا دے، اور اختیار دوسروں تک پہنچ جائے۔ تو ایک کمزور سی لڑکی بھی تاریخ بدل سکتی ہے۔
#Moral_of_the_Story
اور اگر آپ کبھی خود کو اس لیے کمزور محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے پاس وسائل نہیں، سہارا نہیں یا حالات آپ کے خلاف ہیں تو سارہ کی کہانی یاد رکھیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیشہ طاقتور ہونا ضروری نہیں ہوتا بس ٹوٹ کر بھی اٹھنے کا فیصلہ ضروری ہوتا ہے۔
کبھی کبھار سب سے مشکل وقت ہی وہ دروازہ بن جاتا ہے جہاں سے آپ کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اور زندگی میں جب کوئی راستہ دکھائی نہ دے تو یاد رکھیں سب سے روشن راستے اکثر وہی ہوتے ہیں جو ہم خود اپنے قدموں سے بناتے ہیں۔ آپ کے حالات چاہے کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں، آپ کا ارادہ اگر مضبوط ہو تو مستقبل کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
بس یہ یقین رکھیں کہ آپ کمزور نہیں ہیں آپ صرف تھکے ہوئے ہیں۔ ذرا سا رک کر پھر چلیں دنیا آپ کے قدموں کے نیچے بدلنا شروع ہو جائے گی۔
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے
Rozina Karamat
![]()

