جون ایلیا کی زندگی پہ ایک فلم بننی چاہئے ۔۔ !!!!
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اور یہ بات میں فقط اس وجہ سے نہیں کہہ رہا کہ میں جون ایلیا کا بہت بڑا مداح ہوں ۔۔ یہ بات میں سینما کا مداح ہونے کی وجہ سے کہہ رہا ہوں ۔۔
کیوں کہ جون ایلیا کی زندگی ایک مکمل فلمی کہانی ہے۔ فلمی کہانیوں میں تو ہیرو ہیروئن کی فقط محبت دکھائی جاتی ہے اور آخر میں ملن اور ہیپی اینڈنگ ۔۔
مگر جون کی کہانی میں ملن کے بعد جو زندگی ہوتی ہیرو ہیروئن کی وہ بھی فلم میں دکھائی جا سکتی ہے۔
اگر کوئی سرمد کھوسٹ تک یہ بات پہنچا سکے تو ضرور پہنچنی چاہیے کہ جون ایلیا کی کہانی پہ ایک بہتریں فلم بن سکتی ہے۔ ۔۔۔!!!!!
اس کہانی میں محبت ہو گئ محبت کی جدائی کے بعد جو ہیرو پہ گزرتی وہ سب پردہ پہ نظر آ سکتا۔
اور یقین کریں جون ایلیا کی زندگی پہ بنی فلم ایک پہاڑ ہو گا اور اسکے سامنے یہ کبیر سنگھ جیسی مووی فقط ایک کنکر ہو گا۔
…
جون کی شاعری بہت سے لوگوں نے سنی ہو گی۔ !! مگر جون کی زاتی زندگی کی معلومات بہت کم لوگوں کو ہو گی۔
جون ایلیا سید فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے ڈرامائی انداز کی وجہ سے مشاعروں میں کافی شہرت رکھتے تھے۔
انکے اشعار اور انکے اشعار کا اسلوب ایک الگ ڈھب پہ تھا۔ !!
پھر انکی زندگی میں ایک اور رائٹر آئی زاہدہ حنا نام کی۔
اور جون انکے بارے میں لکھتے تھے کہ ہم دونوں اس قدر شدید محبت میں تھے کہ اگر میں پاکستان میں ہوتا اور حنا انگلینڈ میں ہوتی تو اگر تہران میں کوئی واقعہ ہوتا
تو ہم دونوں الگ ملکوں میں بیٹھ کر بھی تہران کے واقعے کے متعلق ایک ہی قسم کا سوچ رہے ہوتے تھے۔ !!!
یعنی اس قدر زہنی ہم آہنگی تھی محبت میں۔ !!
پھر محبت شادی میں بدل گئی ۔۔۔ اور کچھ عرصے بعد ہی میاں بیوی والے اختلافات پیدا ہونے شروع ہو گئے ۔۔!!!!
یہ باتیں ساتھ چلتی گئی اور تین بچوں کے بعد زاہدہ حنا نے جون ایلیا سے طلاق لے لی ۔۔۔۔!!!
جون ایلیا شاید تھوڑے نرگسیت پسند تھے۔ بہت نازک مزاج تھے۔ !!! تو اس وجہ سے ہر چیز ہر جذبے پہ اپنا حق سمجھتے تھے۔ !!!
طلاق کے بعد جون نے مے نوشی بلا کی اختیار کی۔ یعنی خوب شراب پینے لگے۔
جیسے اپنے ایک شعر میں زکر بھی کرتے۔
۔۔۔
تیرا فراق جانِ جاں کیا عیش تھا میرے لیے..؟؟؟
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی ۔۔۔؟
۔۔۔۔
پھر کئی سالوں تک کمروں میں خود کو بند کئے رکھا اور شراب پہ شراب پیتے رہے۔ پھر انکے ایک دوست سلیم جعفری نے انکو اس قید تنہائی سے نکالا اور مشاعروں میں ساتھ لے کر جانے لگے۔
یہ جون ایلیا کا دوسرا جنم تھا۔
اسکے بعد جون ایلیا نے مشاعروں میں خوب رنگ جمایا ۔۔ جو اندر کا دکھ تھا وہ شعروں میں ایسا پرویا کہ ہمارے جیسا بندہ آج بھی انکے اشعار کو اپنی زات پہ محسوس کر پاتا ہے۔
اور پھر ایک دن جون ایلیا کا بیٹا زریون انکے قریب سے گزرا مگر اس نے جون کو پہچانا نہیں اور چپ کر کے گزر گیا۔
جو کسی بچے کے باپ ہیں وہ اس تکلیف کو سمجھ سکتے ہیں کہ بیٹے کی بے اعتنائی کتنی تکلیف دہ ہوتی
کجا کہ بیٹا پاس سے گزرے اور باپ کو پہچانے ناں ۔۔۔!!!
پھر اسی دن اُردو شاعری میں ایک شاہکار نے جنم لیا اور جون نے درخت زرد کے نام سے ایک نظم لکھی۔ اور کیا شاندار نظم لکھی۔ درد کی گہرائی سے ابھرا ہوا ایک شاہکار تھا
اور میں مانتا ہوں کہ اُردو شاعری میں اس سے بہتریں نظم کبھی نہیں لکھی گئی ۔۔۔۔!!!!
انکے ایک دوست نے اس واقعہ کو کچھ ایسے لکھا ہے۔ ۔
۔۔
جون ایلیا نے ایک بار کہیں اپنے اکلوتے بیٹے زریون کو دیکھا جو اب ایک نوعمر لڑکا تھا ۔ جون اس کو بالکل ہی نہیں پہچان سکے ۔ اور بیٹے نے ان کو پہچان لینے کے باوجود ان کی جانب کسی خصوصی التفات کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ جون حد درجہ دل شکستہ و ملول ہوئے، اور اسی رات انہوں نے آنسوؤں میں ڈوب کر اپنی نظم ’’ درختِ زرد ‘‘ لکھی ۔ جون نے یہ نظم لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی اور کسی کو نہیں سنائی تھی ۔ پھر انہوں نے فون کر کے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ وہ مجھے ایک نظم سنانا چاہتے ہیں ۔ کوٹھی کے پچھواڑے اس اجاڑ اور ٹوٹے پھوٹے کمرے میں ، جہاں بہت سارے کاٹھ کباڑ کے ساتھ جون کا پلنگ بھی پڑا ہوا تھا ، جون نے مجھے پہلے تو اس نظم کا پس منظر سنایا اور پھر یہ نظم سنانی شروع کی ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دھاروں دھارروتے جاتے تھے اور نظم پڑھتے جاتے تھے ۔ اس طویل نظم میں جتنے مصرعے تھے ، ان سے کہیں زیادہ آنسو جون نے اس نظم کو سنانے میں بہائے ہوں گے۔۔۔
۔۔
جون ایلیا کی روتی ہوئی آواز میں وہ نظم میری وال پہ بھی موجود ہے وہ سن کر کسی بھی انسان کی آنکھوں میں پانی آ سکتا۔ پوری نظم کافی لمبی ہے اس پوسٹ میں نہیں لکھ سکتا۔ مگر اس کے کچھ مصرعے یہاں لکھ دیتا ہوں ۔۔۔
۔۔۔
نہیں معلوم زریون اب تمہاری عمر کیا ہو گی
۔
ہدف ہوں گے تمہارا کون تم کس کے ہدف ہوگے
نہ جانے وقت کی پیکار میں تم کس طرف ہوگے
۔۔
تمہاری ارجمند امی کو میں بھولا بہت دن میں
میں ان کی رنگ کی تسکین سے نمٹا بہت دن میں
وہی تو ہیں جنہوں نے مجھ کو پیہم رنگ تھکوایا
وہ کس رگ کا لہو ہے جو میاں میں نے نہیں تھوکا
لہو اور تھوکنا اس کا ہے کاروبار بھی میرا
یہی ہے ساکھ بھی میری یہی معیار بھی میرا
میں وہ ہوں جس نے اپنے خون سے موسم کھلائے ہیں
نجانے وقت کے کتنے ہی عالم آزمائے ہیں ۔
۔۔۔
نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگی
مرے خود سے گزرنے کے زمانے سے سوا ہوگی
مرے قامت سے اب قامت تمہارا کچھ فزوں ہوگا
مرا فردا مرے دیروز سے بھی خوش نموں ہوگا
حساب ماہ و سال اب تک کبھی رکھا نہیں میں نے
کسی بھی فصل کا اب تک مزہ چکھا نہیں میں نے
میں اپنے آپ میں کب رہ سکا کب رہ سکا آخر
کبھی اک پل کو بھی اپنے لیے سوچا نہیں میں نے
۔۔۔۔۔
پھر جون ایلیا کی کثرت شراب نوشی کی وجہ سے خرابی صحت اور کمزوری بے حد ہو گئی اور نحیف سی حالت میں جہان سے کوچ کر گئے ۔۔۔
۔۔۔۔
شراب تم کو پی گئی جون ۔۔۔۔!!
جون ایلیا کی کہانی میں بیشمار ایسے رخ ہیں جو ایک فلم بنانے کے لیے چاہیے ہوتے اب سرمد کھوسٹ اگر اس فلم کو بنائے تو یقینا بہت اچھی بنائے گا۔ جون ایلیا کی موت کو دیوداس کی موت جیسا المناک دکھایا جائے تو اپنے آپ میں جون پہ بنی فلم ایک کلاسک فلم کہلائے گی۔ !!
بائیو گرافی میں تھوڑا سا فکشن کا مصالحہ اپنی طرف سے ڈال دیا جاتا ہے کہانی کو مزید اچھا بنانے کے لیے۔
اور انتہائی کم بجٹ میں یہ فلم بن سکتی ہے کیوں کہ اس میں گانے یا سپیشل ایفیکٹس یا ایکشن سین نہیں ہیں
۔۔۔
لیکن میں ضرور دیکھنا چاہتا ہوں کاش جون ایلیا پہ ایک فلم بنے۔ اور وہ فلم سچ میں شاہکار ہو گی۔
میں رات دیر تک اداکاروں کو دیکھتا رہا کونسا اداکار ہے جو جون ایلیا کا کردار نبھا سکتا ہے ؟
بہت دیر غور فکر کرنے کے بعد #محبــ مرزا پہ میری نظر ٹکی کہ یہ بندہ تھوڑا سا ویٹ لوز کرے تو جون ایلیا کے کردار کے لیے پرفیکٹ چوائس ہو گا۔ !!!!
لیکن جیسا پاگل پن رنبیر کپور نے سنجے دت کی بائیو گرافی کے لیے دکھایا تھا ویسا پاگل پن چاہیے ہو گا جون ایلیا بننے کے لیے ایک پاگل پن اپنی زات پہ طاری رکھنا پڑے گا۔ !!!
۔۔
ویسے اگر انڈیا میں جون ایلیا ہوتے تو اب تک شاید فلم بن چکی ہوتی ان پہ۔ کیوں کہ جون کی کہانی میں وہ سب مصالحے ہیں جو ڈائریکٹر کو اچھی فلم بنانے کے لیے چاہیے ہوتے۔
راجو ہیرانی اگر اس بائیو گرافی کو پکڑے تو ایک شاندار سے بھی شاندار شاہکار تخلیق ہو ۔۔۔
اور انڈیا میں تو بہت سے ادکار مل جائیں گے جون ایلیا کا کردار نبھانے کے لیے ۔۔۔۔۔!!!!!!
۔۔۔۔
۔۔
یہ ایک خواب ہے۔ جون ایلیا کی زندگی پہ بنی ایک فلم ۔۔۔
کاش میری یہ تحریر شوبز انڈسٹری کے کسی ایسے شخص تک جا پہنچے جو فلم بنا سکے۔
۔۔۔۔
۔۔
تحریر و تبصرہ: ملک اسود ۔۔۔۔!!!