جیتی جاگتی زندگی
آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ
صبر سے دن بدل گئے
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جیتی جاگتی زندگی)عورت کا گھر ہوتا ہے۔ جس گھر میں عورت کی ڈولی جائے، اس سے اس کا جنازہ بھی اٹھے، تو ماں باپ کی آن پر کوئی آنچ نہیں آتی۔”
میری بیٹی کار میں بیٹھ کر دوسرے گھر چلی گئی اور میں سمجھا میری زندگی میں اب کوئی دکھ نہ رہا۔۔۔مگر شاید یہ میری بھول تھی۔ سسرال جانے کے بعد میری بیٹی جلد ہی طعنوں کی زد میں ساس نے اسے صاف کہہ دیا۔ میرے بیٹے کی تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ کیسے پھو ہر والدین کی بیٹی ہے تو ! ایک دمڑی بھی اپنے ساتھ نہ لائی۔“
اس کے شوہر کمال کا رویہ بھی بتدریج سخت ہو گیا۔ وہ میری ثریا کو کلبوں کی زینت بنانا چاہتا تھا، لیکن شریا نے بڑی حلیمی سے کہا:
سرتاج ! میں آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوں، مگر جس حکم کی تعمیل سے اللہ کے حکم سے بغاوت کی بو آتی ہو ، میں اسے بجانہ لاسکوں گی۔ “ اس پر کمال اسے پھوہڑ ، ان پڑھ ، جاہل، جنگلی ، قدامت پسند اور گنوار کے لقب دیتا رہا اور پھر ایک دن اس ظالم نے میری بیٹی کو اتنا پیٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔ بے ہوشی کی حالت میں چار نوکروں سے اٹھوا کر میرے گھر بھیج دیا۔ ہم میاں بیوی پر جو کچھ گزری، بیان سے باہر ہے۔
اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ وہ ذرا ہوش میں آئی، کہنے لگی ”ابا! مجھے یہاں کیوں لے آئے؟” میں نے کہا ”بیٹی، ان ظالموں نے خود ہی تجھے یہاں بھیج دیا۔“ اس پر وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔
میں صبح صبح ڈاکٹر کو بلا کر لایا، اس نے کہا: اپنی بیٹی سے کہو ذرا کھانس کر تھوک دے۔ آگئی۔ لوگوں نے باتیں بنائیں خالی ہاتھ آگئی ہے، اس نے تھوکا، تو …. پیالہ بھر خون زمین پر پڑا ماں باپ نے بوجھ اتار پھینکا۔ تاہم ابھی تک خاوند تھا۔ دوسری صبح کا سورج میرے لیے، بیٹی کی کریے کا رویہ اچھا تھا۔ کچھ عرصے بعد چودھری اور جدائی کا پیغام لے آیا۔ چودھرانی کی طبیعت کا رخ بدل گیا۔ ایک دن اس ظالم چودھری نے میرے زخموں پر نمک پاشی کی۔ میری بیٹی کی وفات کے ٹھیک پندرھویں دن اس نے اپنے بیٹے کی شادی بڑی شان و شوکت سے ایک امیر گھرانے میں کردی اور بارات میرے دروازے کے سامنے سے گزری۔ ان صدموں کی تاب نہ لاتے ہوئے میری بیوی زینت، جس کا ہاتھ پکڑ کر میں بہت سی مشکلات سے نکل آیا تھا، مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گئی۔ اس کی موت ، بیٹی کی موت سے ایک ماہ بعد واقع ہوئی اور اب میں اپنی لاش کندھے پر اٹھائے اکیلا جی رہا ہوں۔“ اس کی آپ بیتی ختم ہوئی، تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی مشعل جل اٹھی۔ لہوكي قیمت
مہنگائی، بے روزگاری اور نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ گل شیر بھی ایک ایسا ہی نوجوان ہے جس نے غربت میں لوگوں کے دل چھلنی کرنے والے جملوں سے دل برداشتہ ہو کر اپنا خون بیچنا شروع کیا۔ گل شیر کے خون کا نمبر نہایت کمیاب تھا! چنانچہ جب بھی خون دینے آیا، ڈاکٹر انکار نہ کر سکا، حالانکہ وہ جانتا تھا یہ نو جوان اب پیشہ ور خون دینے والا بن چکا ہے۔ گل شیر در میانے جسم کا نوجوان تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ رضا کارانہ خون دیا تھا، خون دینے کے لیے ایک بھیڑ جمع تھی۔ اس کی باری آئی تو ٹیسٹ پر معلوم ہوا کہ اس کے خون کا نمبر کمیاب ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا ” کبھی سال چھ ماہ میں ایک مرتبہ خون دے جایا کرو، سال میں ایک دو بار ہی ایسا مریض آتا ہے جس کے خون کا گا نمبر تم سے ملتا ہے۔“
گل شیر نے اس دن خون دے کر نہایت بلا فرحت محسوس کی…. یوں بھی تھوڑا سا خون ڈا دینے سے جسم ہلکا پھلا ہو جاتا ہے۔ گل شیر کو نوکری کی تلاش تھی اور نوکری چا نہیں مل رہی تھی۔ وہ دن بھر سڑکوں پر گھومتا اور شام کو گھر پہنچتا، تو باپ اس سے منہ پھیر لیتا۔ دو مجھے وقت کا کھانا اسے مل جاتا، لیکن جیب خرچ سے وہ ادمحروم ہو گیا تھا
اس کے باپ نے کہا تھا ”گل شیر، اب تمہارے کمانے کے دن ہیں۔ تم پڑھے لکھے ہو۔“ نوکری نہیں ملتی۔“ اس نے جواب دیا۔
تو پھر مزدوری کرو۔“ مزدوری بھی نہیں ملتی۔“ تب دو وقت کا کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرو۔ سڑکوں پر آوارہ نہ گھومو“۔
یکا یک اسے بلڈ بینک کا خیال آیا۔ وہ خوش ہو گیا، جلد جلد وہاں پہنچا۔ خون لینے کے بعد ڈاکٹر نے پوچھا. رضا کارانہ خون دےرہے ہو یا اس کی قیمت لوگے؟” اس نے آنکھیں جھکا لیں۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ تب اس نے کہا ” قیمت لوں گا۔ گل شیر کو خون کی قیمت مل گئی۔
اس کے بعد گل شیر نہایت بے باک ہو گیا۔ بلڈ بینک والے اس سے خوب واقف ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر نے اس کا پتا بھی نوٹ کر لیا تھا۔ ایک دو بار سمجھایا بھی گیا کہ خون دینے کو پیشہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس نے جواب دیا۔ ”میں بیکار ہوں، گھر سے روٹی تو مل جاتی ہے، لیکن جیب خرچ نہیں ملتا۔ مجھے کہیں نوکری دلوا دیجیے ، پھر میں اس وقت ادھر کا رخ کروں گا جب آپ یاد کریں گے۔ “ اب گل شیر کچھ فضول خرچ ہو گیا تھا اور خون دے کر بھی اپنا جیب خرچ پورا نہ کر سکتا تھا۔ جیب خالی ہونے پر گل شیر کا جی گھر جانے کو نہ چاہا۔ وہ یونہی چلتا رہا اور بلڈ بینک کے سامنے جا کر رک گیا۔ وہ خود حیران تھا یہاں کیسے پہنچ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے اندر کوئی خود کار مشین لگی میں سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ جب بھی خون دینے کو اس کا جی چاہتا تھا، وہ یہی میٹھی میٹھی سرسراہٹ اپنی رگوں میں محسوس کرتا تھا۔ وہ ابھی بلڈ بینک کے اندر داخل نہیں ہوا تھا کہ بینک کے ایک ملازم نے اسے پہچان لیا۔ نہایت ہے، بیوہ ماں کا اکلوتا سہارا۔“ بے صبر ہو کر اس کی طرف بڑھا۔ اس نے پوچھا ڈاکٹر زاہد کب سے آپ کا انتظار ڈاکٹر صاحب نے ایک بار نہیں تین چار بار اپنا آدمی آپ کے گھر بھیجا۔ آپ گھر پر نہ ملے۔” ”اچھا، اب مجھے ان کے پاس لے چلو۔“ ڈاکٹر اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا مسٹر گل شیر مریض کا آپریشن دو تین دن
سے رکا ہوا ہے۔” میری وجہ سے “
” مجھے افسوس ہے میں دیر سے پہنچا۔“ ” مریض نہایت نادار ہے۔”
کیا مطلب ….؟”
شاید وہ خون کی قیمت نہ دے سکے۔“ اسے دینی چاہیے….. میرا لہو اتنا بے قیمت تھی جو اسے کشاں کشاں کھینچ لائی تب اسے خون تو نہیں۔“
میں بھی جانتا ہوں۔ میں تو ایک قطرہ خون کی قیمت ساری کائنات سمجھتا ہوں۔“ شکریہ ! ڈاکٹر صاحب۔ آپ کا کیا ارادہ ہے…..؟ مریض نوجوان
” مجھے ابھی تک ملازمت نہیں ملی۔“ ڈاکٹر نے جواب میں ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ اتنے میں ایک بوسیدہ سے برقع میں لپٹی ہوئی عورت دروازے میں آکھڑی ہوئی۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر کہا “ائی، آپ کچھ روپوں کا انتظام کر سکتی ہیں …. ؟
گل شیر آپ آگئے….؟” “جی ہاں۔”
کر رہے ہیں۔“ کیوں…؟”
ایک سیر میں آپریشن میں آپ کے نمبر کے خون کی ضرورت ہے۔“
نہیں، بیٹا !
ڈاکٹر نے گل شیر کو دیکھا۔ اس نے نظریں ہے چرالیں۔ ڈاکٹر نے عورت کے برقعے پر ایک نگاہ کا ہے ڈالی۔ وہ برقعے میں چھپے چہرے کو نہ دیکھ سال سکا۔ اچھا ہوا کہ دکھ بھری ممتا کا چہرہ نقاب میں کم بار ہے ، ورنہ وہ اس کی مایوسی نہ دیکھ سکتا۔ ڈاکٹر نے سوچا۔ پھر اس کی نظر اپنی جیب کی طرف گئی۔ یہ مہینے کی آخری تاریخیں تھیں۔ اس کی جیب میں سو روپے تھے۔ وہ ایک پورے کنبے کے کفیل تھے۔ وہ بھی غریب تھے ابھی تک وہ تعلیم کے دوران میں لیے ہوئے قرضوں کی پوری طرح ادائیگی نہ ہو اور کہیں رات پڑے منہ دکھاتے ہو۔” کر سکے تھے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچ ان کے ذمہ تھا۔ تنخواہ میں صرف گزارا ہو رہا تھا۔ پھر روزانہ ایسے کئی لوگ آتے تھے جن کے لیے مطلو به خون مہیا نہ ہو سکتا تھا۔ ہر شخص حاجت مند تھا۔ وہ بیچارے کس کس کی حاجت روا کرتے، لیکن انہوں نے سوچا کہ آج کمیاب خون ہاتھ سے نکل گیا، تو شاید بیوہ ماں کا اکلوتا سہارا دم توڑ جائے اور بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ جائے۔ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہو گی۔“
مسٹر گل شیر ، کیا آپ کل تک روپوں کا انتظار کر سکتے ہیں۔ ابھی میری جیب میں سوروپے ہیں۔ “ ”جی ہاں۔“ پھر بستر پر لیٹ جائیے۔“
تب اس کے بازو میں سوئی لگا دی گئی۔ خون سر سر ایا، تاہم اسے وہ کیف نصیب نہ ہوا جو اکثر اس لمحے اسے ملا کرتا تھا۔ ایک ٹھنڈا ٹھنڈا سے ٹپک رہا ہے۔” سرسراتا ہوا کیف۔ خون دینے کی لذت سے اس محرومی پر اسے حیرت ہوئی۔ پھر دروازے پر کھڑے بوسیدہ برقعے کا پھٹا ہو ادا من لہرایا۔ تو اسے اپنی ماں یاد آگئی۔ اسے اپنی ماں سے پیار تھا۔ ماں جو اس کی بریکاری میں بھی اس سے مایوس نہ تھی۔ وہ اب بھی اسے ننھا منا بچہ سمجھتی تھی۔
وہ دیر سے گھر لو تا، تو جبار بر دروازے کی طرف دیکھتی، اس کا باپ اسے غصے میں گھور تا تو وہ کہتی: گل شیر بیٹا گھر جلدی آجایا کرو۔ صبح نکلتے ہو اور کہیں رات پڑے منہ دکھاتے ہو۔
ماں جس کی آنکھ میں ہمیشہ ممتا کی نمی ہوتی ہے۔ ماں کی تر آنکھ کے تصور سے اسے جھر جھری آئی۔ اس نے کہا: ڈاکٹر، میں خون مفت دے رہا ہوں۔ اس کی قیمت وصول نہ کروں گا۔” اور وہ حیران ہوا کہ اس کے خون کی سرسراہٹ پھر سے اس کے کانوں میں نغمہ بن گئی ہے۔ سرمدی نغمہ ! اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تیر نے لگی۔ بھی انسان زندہ ہے۔ ڈاکٹر نے سوچا۔ اس نے کہا ”مسٹر گل شیر ، تم بہت بڑے آدمی ہو! بہت بڑے آدمی !
نہیں ڈاکٹر ، اس نے آنکھیں کھول کر کہا“ میں تو بہت چھوٹا آدمی ہوں، کمینہ اور خود غرض۔ ساری عظمت تو میرے لہو میں ہے۔ آج پہلی مرتبہ یہ لہو میری رگوں سے نہیں، میری آنکھ سے ٹیک رہا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2019