جیتی جاگتی زندگی
ہدایت کا راستہ
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جیتی جاگتی زندگی)زند کی بے شمار رنگوں سے مزین ہے جو کہیں خوبصورت رنگ اوڑھے ہوئے ہے ، تو کہیں تلخ حقائق کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ہے۔ کہیں شیریں ہے تو کہیں نمکین ، کہیں جنسی ہے تو کہیں آنسو ۔ کہیں دھوپ ہے تو کہیں چھاؤں ، کہیں سمندر کے شفاف پانی کے جیسی ہے تو کہیں کیچڑ میں کھلے پھول کی مانند۔ کہیں قوس قزح کے رنگ ہیں۔ کبھی اماوس کی رات جیسی لگتی ہے۔ کبھی خواب لگتی ہے، کبھی سراب لگتی ہے ، کبھی خار دار جھاڑیاں تو کبھی شبنم کے قطرے کی مانند لگتی ہے۔ زندگی عذاب مسلسل بھی ہے۔ تو راحت جان بھی ہے، زندگی ہر ہر رنگ میں ہے ، ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہی ہے، کہانی کے صفحات کی طرح بکھری پڑی ہے … کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ استاد تو سخت ہوتے ہیں لیکن زندگی اُستاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے ، استاد سبق دے کے امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔“ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے بڑے بڑے سبق سیکھتا ہے
زندگی انسان کی تربیت کا عملی میدان ہے۔ اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیکھتا ہے، کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر سیکھتے ہیں اور حادثے ان کے ناصح ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے ہی سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان پر دل کھول کہ بنتا ہے یا شر مندہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں زندگی انسان پر مختلف انداز میں اپنی تکمیل کرتی ہے۔ اب تک زندگی ان گنت کہانیاں تخلیق کر چکی ہیں، ان میں سے کچھ ہم صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔
ہدایت کاراستہ
کلثوم بیگم کے دو بیٹے کامران اور آیان ہیں۔ کچھ دنوں سے کلثوم اپنے بیٹے کامران کے رویے کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ ایک رات کامران گھر نہ آیا تو سبھی پریشان ہو گئے۔ ساری رات کامران کی بیوی اور ماں نے پریشانی میں گزاری۔ فون کرتے تو موبائل آف ملتا۔ صبح ہوئی تو کلثوم بیگم نے دوسرے بیٹے آیان کو بلایا اور کامران کی بابت پوچھا۔ آیان نے جو کچھ ناقابل یقین تھا۔ بتایا اسے سن کر تو کلثوم بیگم کو اپنے پاؤں سے زمین نکلتی محسوس ہوئی۔ اس نے بتایا کہ کامران نے اٹھارہ ماہ سے دکان کا کرایہ نہیں دیا تھا اور مالک دکان نے دو لاکھ ایڈوانس پیسوں میں سے کرایہ کاٹ کر اسے فارغ کر دیا تھا۔ سوچنے والی بات تو یہ تھی کہ کامران اٹھارہ ماہ سے کیا کر رہا تھا جو کرایہ تک ادانہ کر سکا۔ آیان اپنے بھائی کامران کی تلاش میں نکلا اور دوپہر کو اسے ساتھ لے کر گھر آگیا۔ کامران کا چہرہ اترا ہوا اور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ آیان نے جو کچھ بتایا وہ سب گھر والوں کے لیے ناقابل یقین تھا۔
کامران جو اکھیلتا تھا اور ایک بڑی رقم جوئے میں ہارنے کی وجہ سے کرایہ ادا نہیں کر سکا تھا اور
اب بیروز گار بیٹھا تھا۔ اچانک افتاد پڑنے سے کبھی پریشان تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آیان نے دروازہ کھولا تو ایک آدمی کامران سے اپنا اسی ہزار کا قرض لینے آیا تھا۔ آیان نے اس سے جان چھرانے کے لیے کہا کہ کامران گھر پر نہیں ہے۔ دوبارہ آنے کا کہہ کر اسے چلتا کرنے کی کوشش کی مگر وہ جانے پر تیار نہیں تھا۔ وہ جی کامران کی اب دکان بھی نہیں رہی۔ مالک نے واپس لے لی ہے، وہ ہمارا قرضہ کیسے ادا کرے گا؟ مجھے اپنے پیسے چاہئیں۔“ ”اچھا شام کو آنا پھر بات کریں گے۔“ آیان نے نرمی سے کہا تو وہ چلا گیا ور نہ تو گلی میں شور شرابہ ہونے کا امکان صاف نظر آرہا تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک اور آدمی نے دستک دی۔ کامران چار پائی پر پریشان لینا تھا۔ بیوی نے دروازہ کھول کر پوچھا تو آنے والے نے کہا ” کامران صاحب کو کہہ دینا ندیم آیا تھا جس سے انہوں نے پچاس ہزار کا فریج کیا تھا۔ فورا پیسے دیں مجھے اشد ضرورت ہے۔“ جی بھائی بتادوں گی، کہہ کر بیوی نے دروازہ بند کر دیا۔
” کلثوم بیگم حیران و پریشان تھیں کہ کامران کو یہ بری لت کیسے اور کب پڑی۔ اچھا خاصا پڑھا لکھا لڑکاتھا۔ بی کام کر کے فیکٹری میں کام کر رہا تھا کہ کاروبار کا شوق ہوا اور نوکری چھوڑ کو موبائل کی خرید و فروخت کی دکان ڈال لی۔ اب دو بچے تھے، گھر کے اخراجات
تھے اور بیروز گار، قرضوں تلے دبا بیٹھا تھا۔
آیان نے بتایا کئی ماہ سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ میچوں پر شرطیں لگاتا تھا۔ ایک بار رات کے وقت کی مجھے پتہ چلا کہ شرط ہارنے پر اسے ایک لاکھ کے عوض لوگ مرنے مارنے پر اتر آئے تھے اس کے وقت میں نے بدنامی کے ڈر سے کسی سے ادھار لے کر اسے بچایا تھا اور سمجھایا تھا کہ یہ کام نہ کرے نے ۔ مگر لگتا ہے اس نے یہ کام نہیں چھوڑا ۔ نتیجہ اللہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ کوئی چھوٹا بچہ تو نہیں ہو کہ اسے سمجھایا جائے۔ یہ عاقل، بالغ ہے مجھ پڑھا لکھا ہے۔“
” بیٹا ایک کے سو بنانے کے چکروں میں اس کا یہ حال ہوا ہے۔ اب فاقے کرے گا تو عقل ٹھکانے آجائے گی۔ امی نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ اتنے میں کامران کے بچے اسکول سے آگئے۔ آہا آج ابو گھر پر ہیں“ نتھی نیہا پکاری۔ ”تایا ابو بھی آئے ہیں ننھا عدنان خوش ہوا۔ بچے خوش خوش گھر میں آئے تھے مگر سب کے پریشان چہرے دیکھ کر بولے کیا ہوا امی….؟ کچھ بھی تو نہیں ” امی نے آنسو پونچھتے سے زیادہ کیا ہوا داد و ….؟” ہوئے کہا۔
کلثوم بیگم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ سب اپنے اپنے گھر بار والے تھے۔ میاں کا چند سال پہلے انتقال ہوا تھا۔ کلثوم بیگم بھی آیان اور کبھی کامران کے پاس رہتی تھیں۔ دونوں کے گھر ایک ہی محلے میں تھے۔ دونوں کے بچے اپنی دادی سے بہت پیار کرتے تھے اور انہوں نے کبھی انہیں پریشان اور اداس نہیں دیکھا تھا۔ دادی کو روتے دیکھ کر بچے بھی پریشان ہو گئے۔
امی کامران والی دکان اس کے دوست کریم نے لے لی ہے۔ “ آیان نے دوسرے دن آکر اپنی والدہ کو بتایا تو پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔ کامران کی دکان کارنر پر ایسی جگہ واقع تھی جہاں آمد ورفت زیادہ ہونے کی وجہ سے رش کافی رہتا تھا۔ اس کی چلتی ہوئی دکان تھی جو اس کی بیوقوفی کی وجہ سے ہاتھ سے جاتی رہی تھی۔ کامران نے امی کو بتایا کہ سب سے پہلے کریم نے ہی اسے مائل کیا تھا کہ آؤ میچوں پر شرط لگاتے ہیں۔ جیتنے کی صورت میں لاکھوں کمائیں گے …. ہوس اتنی بڑھی کہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا رہتا یہاں تک کہ قرض لے کر جو اکھیلا مگر جوا کسی کا نہ ہوا۔ اس مشغلے نے اس کی خوب بدنامی کرائی اور پیسے پیسے کا محتاج کر دیا۔
جوا کھیلنے کی ترغیب دینے والا اب اس کی دکان پر براجمان تھا اور کامران خود ایک بیروزگار انسان جس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کیا کرے؟
کلثوم بیگم جو اپنے فرائض سے سبکدوش ہونےکے بعد سکھ چین کی زندگی بسر کرنے کا سوچ رہی تھیں، بے حد پریشان تھیں۔ ان کی راتوں کی نیند از گئی تھی۔ بے چاری کلثوم بیگم اپنے بیٹے کامران کے غم میں گھلی جارہی تھیں۔
بیوی بچوں کی حالت دیکھ کر کامران نے جوا کھیلنے سے توبہ کی اور سبزی کی ریڑھی لگائی۔“ آیان نے امی کو بتایا تو انہیں دکھ ہوا مگر سکون کا سانس بھی آیا۔ اس میں حق حلال کی روزی اپنے بچوں کو کھلانے کا جذ بہ تو پیدا ہوا۔ کوئی بہن یا کوئی بھائی یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بھائی حرام اور قابل نفرت کام کرے۔ جرم ایک شخص کرتا ہے مگر سزا پورے خاندان کو طعنے تشنوں کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے۔ اس کے بچوں کو بھی یہ سزا مل سکتی ہے، اسی ایک بات نے کامران کو ریڑھی لگانے پر مجبور کیا تھا۔ محنت میں کوئی عار نہیں۔ آج حالات مشکل ہیں تو کل اچھے دن بھی آئیں گے ۔ امی نے سوچا اور نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگیں۔ آج انہوں نے اپنے رب کا شکر ادا کرنا تھا جس نے ان کے بیٹے کو – جوئے کی دلدل نکال کر ہدایت کا راستہ دکھایا تھا۔
بھائی نے دھوکہ دیا
میں انجینئر نگ کے امتحان میں کامیاب ہوا، تو فوراً ہی ایک نجی ادارے میں ملازمت مل گئی۔ میری کامیابی والدہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی۔ ہمارے گھریلو حالات ان دنوں اچھے نہیں تھے۔ والد صاحب ایک پرائیوٹ ادارے میں ملازمت کرتے تھے۔ ہم دو بھائی بڑے تھے پھر چار بہنیں تھیں۔ ہمارا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ ایک روز والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
کمال بھائی بی فارمیسی کر رہے تھے۔ میرا انجینئر نگ یونیورسٹی میں پہلا سال تھا۔ بھائی کی تعلیم مکمل ہونے میں چھ ماہ کا عرصہ باقی تھا۔ والدہ صاحبہ نے بھائی سے کہا ” تم تعلیم مکمل کر لو پھر گھر کی طرف توجہ کرنا۔
چھ ماہ کا یہ عرصہ چھ سال کے برابر تھا کیونکہ گھریلو اخراجات ویسے ہی تھے جبکہ آمدنی صفر ہو گئی۔ ہماری کوئی زمین جائداد نہ تھی۔ گھر بھی کرائے کا تھا۔ وہ چھ ماہ بڑی تنگی ترشی سے بسر ہوئے۔ کمال بھائی امتحان سے فارغ ہوتے ہی کام کی تلاش میں لگ گئے۔ ایک ماہ گزر گیا۔ جس دفتر سے میں جاتے وہ ڈگری اور تجربے کا مطالبہ کرتے، اب وہ کہاں سے آتا ….؟ امتحان کا رزلٹ آنے عز اور ڈگری ملنے میں ابھی دیر تھی بالآخر بھائی محلے کے لڑکوں کو گھر پر ٹیوشن پڑھانے لگے، تو دال مکا روٹی کا بندوبست ہوا۔ میری پڑھائی کے اخراجات باعہ بھی کچھ کم نہ تھے ، میں انہیں پورا کرنے کے لیے اشتہی لڑکوں کو ریاضی اور سائنس کی ٹیوشن پڑھاتا۔ انجین بہنیں بھی بڑی ہو رہی تھیں۔ بھائی مجھ سے درخو چار سال بڑا تھا۔ چھوٹی بہن مجھ سے آٹھ سال چھوٹی تھی اور باقی بہنوں میں دو دو سال کا فرق روز تھا۔ جب بھائی کا نتیجہ آیا، تو انہیں ایک دوا ساز ادارے میں ملازمت مل گئی۔ اب بھائی
نے مجھ سے کہا: و تم سارے کام چھوڑ کر اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دو۔ تمہارے تمام اخراجات میں سنبھال لوں گا۔
اگر چہ بھائی کی آمدنی زیادہ نہیں تھی مگر جوں توں کر کے گزارہ ہو جایا کرتا۔ میں نے بھی پوری دلجمعی اور محنت کے ساتھ اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے مات مجھے انجینئر بنا دیا اور ساتھ ہی ملازمت بھی مل گئی۔
میرے دل میں بھائی کے لیے عزت اور بے پناہ پیار تھا۔ اگر چہ ہم دونوں میں چار سال بری کا وقفہ تھا مگر کمال بھائی کا رویہ میرے پلا گیا۔ ساتھ ایسا تھا جیسے میں بہت چھوٹا ہوں۔ میں نے بھی ہمیشہ بزرگوں کی طرح ان کی ہے مجھےعزت و تکریم کی۔ میری تنخواہ سے گھر میں مزید خوشحالی آگئی مگر مکان کا کرایہ اور بہنوں کے تعلیمی اخراجات کے باعث بچت نہیں ہوتی تھی۔ ایک روز اخبار میں اشتہار آیا کہ سعودی عرب میں ایک کمپنی کو انجینئروں کی ضرورت ہے۔ میں نے بھی درخواست دے دی۔ بہت جلد مجھے سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔ تنخواہ بھی معقول تھی ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2019