Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔ہدایت کا راستہ۔۔۔(قسط نمبر2)

جیتی جاگتی زندگی

ہدایت کا راستہ

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جیتی جاگتی زندگی)والدہ صاحبہ ، بہنیں اور بھائی بہت خوش ہوئے۔ ز مستقبل کی تلاش میں سعودی عرب آگیا۔ کام اگر چہ زیادہ اور محنت طلب تھا مگر میں نے بھی جی جان سے محنت کی اور بہت جلد اپنی صلاحیتوں سےکمپنی میں ایک اچھا مقام حاصل کر لیا۔ میں تھوڑی سی رقم اپنے لیے رکھ کر باقی رقم بھائی کمال کو بھجوادیتا۔ کمپنی کی طرف سے دو سال بعد مجھے ڈیڑھ ماہ کی چھٹی ملتی تھی۔ دو سال بعد میں اپنے گھر آیا تو سب کے مطمئن چہرے اور گھر میں خوشحالی کی لہر دیکھ کر خوش ہو گیا۔ بھائی اور والدہ صاحبہ نے مجھے بتایا:

” اب ہمارے پاس اتنی رقم جمع ہو چکی ہے کہ ہم کسی پوش علاقے میں پلاٹ خرید لیں۔ جیسے ہی مزیدر تم آئی اس پر مکان تعمیر کرلیں گے۔“ میں نے کہا ” جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔ رسال میری چھٹی کے دن پلک چھپکتے گزر گئے اور میں واپس چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد بھائی نے خط لکھا کہ انہوں نے پلاٹ خرید لیا ہے۔ میں نے گھر کی تعمیر کے لیے پیسے بھیج دیے۔

یوں گھر کی تعمیر شروع ہو گئی اور ساتھ ہی والدہ صاحبہ نے بھائی کی شادی کی تیاریاں بھی شروع کر دیں۔ دو سال بعد آیا تو دیکھا کہ بھائی نے گھر کی تعمیر بہت اچھے طریقے سے کروائی تھی۔ بھائی کی شادی ہم نے نئے گھر میں کی۔ بھائی نے ملازمت چھوڑ کر میڈیکل اسٹور کھول لیا۔ اسی دوران بہنوں کے رشتے آنے لگے۔ بڑی بہن ایم ایس سی فزکس کر چکی تھی ،اس کے لئےڈاکٹر کارشتہ آیا جو پسند کر لیا گیا۔ اس کے جہیز کے لیے لڑکے والوں نے کافی لمبی فہرست دی۔ والدہ اور بھائی متفکر تھے مگر میں نے انہیں تسلی دی اور شادی کے تمام اخراجات بھجوائے۔ اس طرح میری بہن کی شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔ والدہ میری شادی کے لیے بھی اصرار کرتی رہیں مگر میں نے کہا ” جب سب بہنوں کی شادیاں ہو جائیں گی تب آپ میری شادی کے بارے میں سوچے گا۔

“ وقت کے ساتھ ساتھ میری باقی تینوں بہنوں کی شادیاں بھی دھوم دھام سے ہو گئیں۔ بھائی کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے انہیں تین پیارے پیارے بچوں بھی نواز دیا تھا جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ میری عمر اب تقریباً اڑتیس سال ہو چکی تھی۔ اب کی مرتبہ میں پاکستان آیا، تو میری والدہ میری شادی کے لیے بعد تھیں۔ میں نے بھی ہامی بھر لی، یوں صبا سے میری شادی ہو گئی۔ صبا واقعی بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی۔ اس نے میرے گھر کو اپنی محبت اور سلیقے سے جنت بنا دیا۔ وقت گزرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنی رحمت سے عطا کیے۔ ہم حسب معمول ہر دو سال بعد پاکستان ضرور جاتے۔ میری والدہ کافی ضعیف ہو چکی تھیں۔ ادھر پردیس میں رہتے رہتے میرا جی بھر چکا تھا۔ دل بہن ایم ایس سی فزکس کر چکی تھی، اس کے لیے چاہتا تھا کہ اب وطن واپس جاؤں اور اپنے گھر میں

رہ کر والدہ کی خدمت کروں۔ جب بھائی سے مشورہ کیا کہ میں سعودیہ سے مستقل طور پر واپس آنا چاہتا ہوں تو انہوں نے سخت مخالفت کی اور کہا یہاں کے حالات اچھے نہیں، بہتر ہے تم وہیں رہو۔ “

میں واپس چلا گیا لیکن اب کمپنی کے حالات بھی بدلنے لگے۔ پرانے ملازمین کو فارغ کر کے کم تو او پر نے انجینئروں کو بھرتی کرنے کا منصوبہ بن گیا لہذا کئی لوگوں کے ساتھ ساتھ کمپنی نے مجھے کیا ضرورت ہے….؟ بھائی کہنے لگے سے بھی معاہدہ ختم کر کے فارغ کر دیا۔

ملازمت چھوٹ جانے کا تھوڑا بہت افسوس تو ہوا مگر میں مطمئن تھا کہ پاکستان میں اپنا گھر ہے اور پھر بھائی نے ایک معروف بازار میں چار دکانیں خرید کر کرائے پر چڑھار بھی تھیں لہذا سر چھپانے کے لیے جگہ تھی اور آمدنی کا بھی کچھ نہ کچھ وسیلہ تھا۔ میں نے بڑے اطمینان سے سامان سمیٹا، بھائی میرے نام ہے۔“کو اطلاع دی اور اپنے وطن روانہ ہو گیا۔ ہوائی اڈے پر بھائی اور سب بہنیں موجود تھیں۔ سب نے ہماری آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ ہم سب عزیز و اقارب کے لیے جو تحفے تحائف لے کر آئے تھے ، وہ انہیں دیے۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک روز بھا بھی اپنے بچوں کو لے کر میکے گئی ہوئی تھیں اور بھائی گھر میں اکیلے تھے۔ صبا نے ملازمہ کے ساتھ مل کر کھانا تیار کیا۔ ہم سب مل کر کھانا کھارہے تھے۔ میں نے بھائی سے کہا: کل بچوں کو اسکول میں داخل کروانے جانا ہے۔ آپ یا بھا بھی میں سے کوئی ہمارے ساتھ چلےکیونکہ جس اسکول میں آپ کے بچے پڑھتے ہیں وہیں ہم بھی انہیں داخل کروانا چاہتے ہیں۔ بھائی کمال کہنے لگے :

“میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے تم اپنا گھر خرید لو۔ جس علاقے میں گھر ہو گا اس کے قریب ہی کسی نامانی اسکول میں بچوں کو داخلہ دلوانا۔“ ہم متعجب نظروں سے انہیں دیکھنے لگے۔ میں نے کہا: یہ اتنابڑا گھر موجود تو ہے، نیا گھر خریدنے کی نے بتایا

وہ تمہاری بھابھی کو یہ بات ہر گز گوارا نہیں۔ کہانا اپنے گھر میں کسی کی شراکت مین کو برداشت نہیں کر سکتی۔“ ومگر یہ گھر تو میرا ہے میں نے بے اختیار کہا۔ بیوقوفوں والی باتیں مت کرو، یہ گھر ایک میرے نام ہے۔

مگر اس کی زمین خریدنے سے لے کر گھر کی تعمیر تک ساری رقم میں نے بھجوائی تھی۔“ میں یہ سب نہیں جانتا۔“ بھائی نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھے اور فائل لا کر میرے سامنے رکھ دی۔ کہنے لگا کاغذوں میں ساری جائداد میرے ” اور نام ہے۔” دکانیں بھی؟ میرےمنہ سے نکلاب

ہاں وہ بھی۔“ میں نے کانپتے ہاتھوں سے فائل کے کاغذات کا نام درج تھا۔

کو کھول کر سرسری طور پر دیکھا، واقعی ہر جگہ بھائیکا نام درج تھا۔ یکدم میرا ذہن سنسنا اٹھا۔ غم و غصے کی وجہ سے جسم کانپنے لگا۔ میں کھڑا ہو نا چاہتا تھا مگر ٹانگوں نے ساتھ نہیں دیا اور میں بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھا۔ میری بیوی اور بڑی بہن میرے سامنے کھڑی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا بلڈ پریشر کافی ہائی ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے۔ بڑی بہن کو صبا نے سب کچھ بتا دیا تھا مگر میں نے صبا اور اپنی بہن کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں، اس سے ہمارے خاندان کی بدنامی ہو گی اور والدہ کو تو بالکل نہ بتائیں۔

اگلے دن اسپتال سے گھر واپس آیا تو میرا دل ایک لمحے کے لیے بھی اس گھر میں رہنے کو آمادہ نہ تھا۔ میں نے صبا سے کہا: فوری طور پر کرائے کے گھر کا بندوبست

کرو، یہاں میر ادم گھٹتا ہے۔“ دو دن کے اندر اندر کرائے کا گھر ڈھونڈ کر ہم اس میں منتقل ہو گئے۔ اس دوران والدہ صاحبہ نے کئی مرتبہ مجھ سے کہا کہ تم اپنا گھر چھوڑ کر کرائے کے گھر میں کیوں جارہے ہو۔ میں انہیں ٹالتا رہا کیونکہ مجھے علم تھا کہ والدہ صاحبہ کو بتا دیا تو وہ بھائی کی بے ایمانی کو سہہ نہ پائیں گی۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا، میری بہن سے نہ رہا گیا، اس نے والدہ کو ساری تفصیل بتا دی۔ والدہ نے بھائی کو بلوایا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ تم اپنے بھائی کودھو کہ مت دو، اس کی جائداد اس کو واپس کر دو مگر بھائی کا دل سخت ہو چکا تھا۔ اس نے والدہ صاحبہ سے کہا آپ اس معاملے سے بالکل الگ رہیں۔ آپ کو بولنے کا کوئی حق نہیں۔“

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ والدہ صاحبہ صدمے کو برداشت نہ کر سکیں۔ انہیں پہلے ہی ذیا بطیس کی تکلیف تھی، بیماری اتنی بڑھ گئی کہ وہ ہفتے بھر میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔

میری بہنوں اور بہنوئیوں نے مشورہ دیا کہ عدالت سے رجوع کرو، ہم تمہارا ساتھ دیں گے مگر مجھے عدالتوں میں اپنے بھائی کی تذلیل گوارا نہ تھی لہذا میں نے انکار کر دیا۔

ابھی کچھ رقم میرے پاس تھی اور میں اپنے لیے مناسب ساگھر خرید سکتا تھا مگر اب میرا یہاں رہنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ صبا سے مشورہ کیا اس نے کہا ” جیسی آپ کی مرضی کریں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب سے ہی درخواست دے رکھی تھی۔ ایک سال بعد ہم کینیڈا آگئے۔ سوچا تو یہی تھا کہ میرا اتنا تجربہ ہے، کینیڈا میں مجھے اچھی سی نوکری مل جائے گی مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ کسی نو وارد انجینئر کو یہاں ملازمت ملنے کا کوئی امکاننہیں۔ اپنے ساتھ جو جمع پونجھی لائے تھے ، اس سے قسطوں پر گھر خرید لیا۔ آخر مجھے ایک جگہ سیکیورٹی گارڈ کی ملازمت مل گئی۔ صبا نے ایم ایس سی کیمیا میں کر رکھی تھی، اس نے ہمت کی اور ایک سال کا لیبارٹری کو رس کر لیا۔ اب وہ لیبارٹری میں کام کرنے لگی۔ وہ دن کو کام کرتی۔ میں رات کو ہیں، کہتے ہیں: ملازمت پر جاتا۔ دو بچے سینئر اسکول میں ہیں، بیٹی آٹھویں گریڈ میں ہے۔ صبا اور بچے تو مطمئن ہیں مگر میرا دل ہر وقت مضطرب رہتا ہے۔ وطن جانے کو بھی دل نہیں چاہتا، وہاں ایک بھائی تھا، جب اس کا خون سفید ہو گیا تو باقی کیا بچا….؟ اب رشتوں پر سےاعتبار اٹھ چکا ہے۔ میں نے ہمیشہ والدہ کی خوشنودی کو مد نظر رکھا، بڑے بھائی کو عزت اور احترام کا درجہ دیا، کبھی پلٹ کر حساب تک نہ پوچھا۔ میرے بھائی نے میرے اعتبار کو زبر دست دھو کہ دیا۔ میرے وہ دوست جو میرے ہم رازہیں کہتے ہیں:

تم ہی کم عقل تھے ، تمہیں اپنی کمائی سنبھال ،، کر رکھنی چاہیے تھی۔

میں اکثر سوچتا ہوں ”میں نے اپنے بھائی پر اعتبار اور اس سے پیار کر کے کیا واقعی کم عقلی کا ثبوت دیا ہے….؟

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  جولائی 2019

Loading