Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔ آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ۔۔۔(قسط نمبر 1)

جیتی جاگتی زندگی

آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ

(قسط نمبر 1)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2017

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی۔۔۔ آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ)زندگی بے شمار رنگوں سے مزین ہے جو کہیں خوبصورت رنگ  اوڑھے ہوئے ہے ، تو کہیں تلخ حقائق کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ہے۔ کہیں شہر میں ہے تو کہیں نمکین ، کہیں ہنسی  ہے تو

کہیں آنسو۔ کہیں دھوپ ہے تو کہیں چھاؤں، کہیں سمندر کے شفاف پانی کے جیسی ہے تو کہیں کیچڑ میں کھلے پھول کی ماند کہیں قوس قزح کے رنگ ہیں۔ کبھی اماوس کی رات جیسی لگتی ہے۔ کبھی خواب لگتی ہے،کبھی سراب لگتی ہے، کبھی خار دار جھاڑیاں تو کبھی شبنم کے قطرے کی مانند لگتی ہے۔ زندگی عذاب مسلسل بھی ہے۔ توراحت جان بھی ہے ، زندگی ہر ہر رنگ میں ہے ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہی ہے، کہانی کے صفحات کی طرح بکھری پڑی ہے…….

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”استاد توسخت ہوتے ہیں لیکن زندگی استاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے، استاد سبق دے کے امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے بڑے بڑے سبق سیکھتا ہے۔

زندگی انسان کی تربیت کا عملی میدان ہے۔ اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیکھتا ہے، کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر سیکھتے ہیں اور حادثے ان کے نام ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے ہی سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان پر دل کھول کہ ہنستا ہے یا شرمنده دکھائی دیتا ہے۔ یوں زندگی انسان کو مختلف انداز میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔

اب تک زندگی ان گنت کہانیاں تخلیق کر چکی ہیں،  ان میں سے کچھ ہم صفحہ  قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔

سوکها درخت

بہت سے لوگ خوابوں کی دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کے بارے میں خود سے ہی باتیں گھڑ لیتے ہیں۔ میں خوابوں پر یقین کیا نہیں رکھتا۔ ایک دن دوستوں کی محفل میں خوابوں کا ذکر چل نکلا…. میں نے سب کو بتایا … کہ میں خواب نہیں دیکھتا میری بات سن کر سب دوست ایسے حیران ہوئے کہ جیسے میں کسی اور دنیا

کی مخلوق ہوں …. اب تو مجھے ایسے ایسے نسخے اور ہدایات جاری کی گئیں کہ مجھے بھی لگا کہ جیسے خواب نہ دیکھ کر میں نے بھی کوئی بہت بڑا ظلم کر دیا ہے… کسی اور پر نہیں بلکہ اپنی ذات پر…. خیر ! میں نے بہت سوچا۔ ماہرین نفسیات سے مشورہ کیا۔ لیکن پتہ یہ چلا کہ یا تو میں بہت گہری نیند سونے والا آدمی ہوں، اس لیے خواب یاد نہیں رہتے۔ یا واقعی اتنا خالی الذہن ہوں…. کہ خواب آتے ہی نہیں …. بہر حال میں چند دن سے زیادہ اس مسئلہ پر توجہ نہ دے سکا کہ بزنس مین

اپنی توجہ فضولیات پر مرکوز نہیں کرتے۔ چند دن فکر مند رہنے کے بعد میں یہ بات بھول گیا۔ اس رات بے حد ٹھنڈ تھی…. میں نے سونے سے پہلے کھڑکیوں کے دروازے خود بند کیے تھے اور پردے گرا دیے تھے۔ ہیٹر آن کر کے سو گیا…. جب آنکھ کھلی تو میں تھر تھر کانپ رہا تھا۔ سونے اور جاگنے کی کیفیت میں جانے کتنے پل گزر گئے اور پھر جب کچھ حواس بیدار ہوئے تو پہلا احساس یہ تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک وادی میں گھوم رہا ہوں۔ جہاں عجیب قسم کا حسن …. اسرار ہے۔ ہر طرف سبزه های سبزه…. میں نے بہت سوچا کہ یہ خواب مجھے کیوں دکھائی دیا …. اور سوچتے سوچتے دوبارہ سو گیا ….. دوسری صبح میں اس خوب کو تقریباً بھول ہی چکا تھا کہ مجھے بہت سے نئے ٹینڈر داخل کروانے تھے۔ پورا دن اس بھاگ دوڑ میں گزر گیا … رات تھک کے بستر پر لیٹا تھا کہ آنکھیں بند کرتے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ لیکن پھر وہی خواب۔ میں گھبرا کے اٹھا…. اور سوچنے لگا بھلا اس خواب میں ایسی کون سی بات ہے کہ میں پریشان ہو کر جاگ اٹھتا ہوں …. یہ کون سی جگہ ہے۔ وہ علاقہ میرا اتناد یکھا بھالا کیوں دکھائی دیتا ہے۔

یہ سوچتے سوچتے میں دوبارہ سو گیا… تیری رات اور پھر چوتھی رات تواتر سے، اس خواب نے میری خود اعتمادی کو جنجھوڑ ڈالا اور میں سوچتے لگا کہ نہ تو میں عظیم انسان ہوں …. جو کوئی بشارت ہو رہی ہو اور نہ اللہ کا تنا پیارا بندہ ہوں کہ وہ تو اپنی آزمائش کے لیے اپنے پیارے بندوں کو چتا ہے. ماہر نفسیات نے تفصیلی معائنہ کے بعد مجھے خواب آور اور مسکن اور دوائیں دے دیں۔ یہ خواب آنا بند ہو گیا …. اور میں مطمئن ہو گیا …. کہ شاید یہ کسی جسمانی یا معدہ کی خرابی کا باعث تھا۔ میں دوبارہ اپنے کاروبار میں گم ہو گیا۔ کنٹریکٹ بڑھتے گئے۔ اس دن میں بے حد خوش تھا …. ایک بہت بڑے کنٹریکٹ کی اس جو ملی تھی۔ بس مجھے ساتھ کے شہر میں اس بڑے افسر کے سائے کو پکڑنا تھا … کہ یہ کنٹریکٹ صرف اور صرف میرے ہاتھ میں ہر رہے۔ صبح ہی صبح تیاری کرنے کے بعد میں اس شہر کی ہوا۔ جانب چل دیا …. راستے میں بوریت دور کرنے کے لیے میں نے اچھے اچھے کیسٹ رکھ لیے تھے۔ وہ بھی نے اسے جن کی مجھے سمجھ نہیں تھی۔ وہ بھی جن کا مجھے نیے Taste نہیں تھا۔ میں کبھی اپنی مرضی کا کیسٹ سنتا اور کبھی بدل کر دوسر الگالیتا۔ اس چکر میں دو تین گھنٹے کا سفر گزر گیا …. اور میں سوچنے لگا کہ بس اب آدھا سفر باقی ہے۔ گاڑی ابھی چند کلومیٹر چلی تھی کہ پہاڑ کا موڑ کاٹتے ہی جو وادی میری آنکھوں کے سامنے تھی، وہ وہی وادی تھی، جسے میں نے کئی بار خواب میں دیکھا تھا۔ بلکہ اس وادی کا ایک ایک درخت، ایک ایک پودا …. اور اگر یہ کہوں کہ پتہ پستہ بوٹا بوٹا میرا دیکھا بھالا تھا۔ تو حیران نہ ہوئیے گا۔ پہلے اس وادی کو دیکھ کر میں خوف زدہ ہو گیا اور سوچنے لگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خواب کے ذریعے ہی مجھے اس وادی تک بلایا جاتا رہا ہے اور کبھی یہ سوچتا کہ شاید یہ وادی میں نے بچپن میں دیکھی ہے۔ جو میری یادداشت کے خانوں میں کہیں چھپی رہی اور اب باہر آگئی ہے۔ لیکن کوئی دلیل مجھے مطمئن نہ کر سکی اور آخر میں نے وہ ہی کیا۔ جو میرے جیسے دو جمع دو والے انسان کو کرنا چاہیے۔ میں گاڑی سے اترا۔ گاڑی لاک کی اور وادی کی طرف بڑھنے لگا… حالانکہ دل کی دھڑکن کنپٹی سے آرہی تھی، اور مجھے اپنے ہی دل کی دھڑکن گاڑی میںسنے کے گانے سے بھی اونچی سنائی دے رہی تھی۔

وادی میں میرا پہلا قدم اس پودے کے پاس تھا جسے خواب میں، میں نے پہلی مرتبہ چھوا تھا۔ اس ہرے بھرے پودے کے پاس صرف ایک آدھ کھلا گلاب کا پھول ویسا ہی تھا جیسا میں نے خواب میں دیکھا تھا… اس پودے کے آگے قطار میں ایسے ہی گلاب کھلے تھے اور ویسے ہی ہر پودے پر ایک آدھ کھلا پھول تھا۔ پوری قطار میں، ایک زیادہ نہ ایک کم… اگلی قطار میں سبز پتوں کے ساتھ پہلے پھول تھے اور جوں جوں میں قدم بڑھاتا جارہا تھا سیزے نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا تھا …..

اب خوف کی جگہ تجس نے لے لی تھی مجھے یہ علاقہ اتنا جانا پہچانا اتنا آشنالگ رہا تھا کہ خوف کا بت خود بخود کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا…. یہ وادی تو میری اپنی وادی تھی۔ میں آگے اور آگے چلنے لگ گیا …. ہر قدم کے بعد مجھے اگلے قدم کا پتہ ہوتا کہ یہ قدم کہا جائے گا اور آنکھیں کیا دیکھیں گی۔ میں ایک کونے سے دوسری جانب سوچ کر بڑھتا … کہ اگلے موڑ پر کون سے پھول اور پودے ہوں گے۔ میں اسی خیال میں آگے بڑھا …. تو مجھے ایک جھٹکا سا لگا اس سر سبز وادی میں ایک سوکھا درخت کھڑا تھا۔ جس کے چاروں جانب سبزہ تھا۔ لیکن اس درخت کا کوئی  پتہ ہر انہ تھا۔ وہ درخت ایساہی تھا جیسے خزاں نے اس پر ڈیرے ڈال رکھے ہوں۔ پوری وادی کے چپے چپے پر اتری بہار نے اپنا کوئی پر تو، کوئی عکس، کوئی سایہ اس سوکھے درخت پر نہیں ڈالا تھا۔ مجھے پوری وادی میں کسی بھی چیز نے اتنا حیرت زدہ، اتنا پریشان نہیں کیا تھا، جتنا اس درخت نے … میرے قدم خود بخود غیر مرئی انداز میں اس درخت کی طرف اٹھتے گئے اور میں سوچنے لگا کہ بھلا میں اس درخت کی جانب کیوں بڑھ رہا ہوں… جبکہ قدم قدم پر سبزہ اور حسن مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ پھر یہ سوکھا تنہا درخت مجھے اپنی طرف چلنے پر کیوں مجبور کر رہاہے۔ آخر کیوں ….؟

 لیکن اس کیوں کا کوئی جواب میرے پاس نہ تھا۔ میں بس چل رہا تھا۔ اس درخت کی جانب بڑھ رہا تھا…. اور پھر چلتے چلتے … میں اس درخت کے پاس پہنچ گیا۔ جب میں اس درخت کے قریب پہنچا … تو میرے لیے یہ حقیقت تسلیم کرنی بے حد مشکل تھی کہ اتنی سرسبز وادی میں یہ درخت اتنا خشک کیوں ہے۔ میرے خواب میں سر سبز وادی میں یہ درخت ذہن پر نقش ہو چکا تھا…. درخت سے کچھ فاصلے پر ایک بوسیدہ سامکان تھا، میں نامعلوم غیر ارادی طور پر اس مکان کے دروازے پر پہنچا۔ دستک دی تو اندر سے ایک ضعیف اور لاغر شخص نکلا۔ میں نے اسے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب مسکراتے ہوئے دیا مگر وہ چہرے سے دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کی تو وہ رونے انتہائی پریشان  دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے اس کی خیریت دریافت کی تو وہ رونے لگا ۔روتے ہوئے وہ بولا۔بیٹا سفیف پوشی نے زبان بندکی ہوئی ہے۔ ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرمندگی ہوئی ہے۔ میرے دو بیٹے ہیں۔ وہ شدید بیمار ہیں اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ میرے پاس تو پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ محنت مزدوری سے کچھ پیسے ملتے ہیں تو ہم پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ میں نے اس شخص کی حالت دیکھی جو خود ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا۔ تن پر انتہائی بوسیدہ لباس تھا۔ فوراً ذہن نے ایک فیصلہ کیا۔ جور تم میرے پاس تھی تمام اس شخص کے حوالے کر دی۔ وہ دعائیں دیتا رہا اور میرے قدم واپسی کے لیے مڑ گئے۔ اس کے بعد مجھے پھر ابھی جاتا ہے۔“ کبھی خواب نہائے۔

آج اس واقع کو تین برس بیت چکے ہیں۔ میں سوچتا ہوں شاید قدرت نے مجھے اس شخص کی مدد کے لیے اس وادی میں بھیجا ہو۔ اللہ نے مجھے اس واقعے کے بعد اس حد تک نوازا ہے کہ چھوٹے بڑے ٹینڈر کے لیے مجھے کسی کی سفارش کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

شاید خواب میں سوکھا درخت ضعیف شخص کی مفلسی کو ظاہر کر رہا تھا۔

زندگی کے ضابطے

زندگی کو سلیقے اور قرینے سے گزارنے کے لیے کچھ اصول اور ضابطے اپنائے جاتے ہیں مگر بعض لے کر آئی ہوں۔“ اوقات یہ اصول، ضابطے زندگی کو مایوسیوں سے دوچار کرتے ہیں۔ زین کی روداد بھی کچھ ان ہی خود پر کرنا ہے۔“ ضابطوں کے گرد گھومتی ہے۔ آئی جو کچھ بھی کہنا ہے۔ جلدی سے کہہ ڈالو۔ میرے پاس وقت نہیں ہے مجھے ایک اہم میٹنگ میں جاتا ہے۔ زین نے اپنی کلائی کی گھڑی کو دیکھتے ہوئےبڑے کھردرے لہجے میں کہا۔

اس کی غریب خالہ کی آنکھیں ڈبڈیا آئیں۔ اس بے چاری کو کیا خبر تھی کہ اس کا امیر کبیر بھانجا اس سے یوں رکھائی سے پیش آئے گا۔ دفتر میں اس سے ملنے کے لیے اسے ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تھا اور اس ان لیا ہے۔ کے دربان کی جھڑکیاں بھی سننی پڑی تھیں۔ وہ کچھ میں تم سے کچھ مانگنے نہیں آئی۔ البتہ ایک عرض کرنی ہے۔“ اچھا جلدی سے کہہ بھی ڈالو۔ مجھے ابھی جانا  ہے۔

آپ مجھ پر ایک احسان کر دیجیے! اور میرے کول رکھا ہے۔ بیٹے شاہد کو اپنے ہاں ملازمت دے دو۔ وہ بی کام میں کالج میں اول آیا ہے۔ وہ ذہین ہے۔ محنتی اور ایماندار بھی …. وہ کوئی نشہ نہیں کرتا۔ بری اور گندی سوسائٹی میں نہیں بیٹھتا۔ تم اسے رکھ لو۔ وہ تمہاری فرم کے لیے نہ صرف مناسب بلکہ سود مند بھی رہے گا۔ “ بڑھیا نے اس سے التجا آمیز لہجے میں کہا۔ لیکن میرے ہاں تو کوئی جگہ نہیں ہے“ زین نے جھنجھلا کر کہا۔

جگہ تو ہے۔ کل کے اخبار میں تمہاری فرم کا خالی آسامیوں کا اشتہار چھپا ہے ، میں سب م معلومات لے کر آئی ہوں۔

”ہاں …. ایک آسامی ہے لیا ہے لیکن اسے میں نے خود پر کرنا ہے۔

ایک ہے تو اسے شاہد ہی سے پر کر لو۔ اب یہ بڑھیا نے پھر بڑ بڑاتے ہوئے کہا۔

خیر اچھا… میرے پاس زیادہ وقت  نہیں ہے۔ تم کسی وقت شاہد کی درخواست بھجوا۔۔۔جاری ہے۔

Loading