حصول ِ رنگ
بذریعہ تنفس
تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حصول ِ رنگ بذریعہ تنفس۔۔۔ تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی)بچہ پیدا ہونے کے بعد، سانس لینے کے عمل سے اپنی حیات کا آغاز کرتا ہے اور اس عالم ناسوت سے اپنی رخصتی کا اعلان سانس لینے کے عمل کو موقوف کر کے کرتا ہے۔ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک انسان بلا توقف اور بلا تعطل جو کام کرتا ہے وہ سانس لیتا ہی ہے۔ اس عمل کا جاری رہنا نیند میں ہی نہیں بے ہوشی اور کومہ کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے۔ سانس کا چلنا زندگی کی اور سانس کا رکنا زندگی کے مادی رخ کے اختتام کی علامت ہے۔ سانس کا اندر جانا زندگی کا صعودی رخ اور باہر آنا نزولی رُخ ہے۔ سانس اندرجاتا ہے تو ہمارا تعلق زندگی مہیا کرنے والی ذات سے جڑتا ہے اور باہر نکلتا سانس ہمارا ربط مختلف کیفیات اور حالتوں میں سانس کی رفتار اور گہرائی مختلف ہوتی ہے۔
پر سکون حالت میں سانس کی رفتار اور ہوتی ہے اور تناؤ، پریشانی اور گھبراہٹ کی حالت میں کچھ اوربیماریوں کا علاج کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ کئی نظام ہائے علاج معرض وجود میں آئے اور ہر نظام العلاج کا بنیادی مقصد مریض کو مرض اور بیماری سے . نجات دلانا ہے۔ کرو مو پیتھی ایک ایسا نظام العلاج ہے جس میں رنگوں اور رنگین شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے جسم انسانی کو صحت اور تندرستی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نظام العلاج میں بیماری کی تشخیص کرنے کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سے رنگوں کی کمی یا بیشی اس مرض کی وجہ بنی ہے۔ اس تشخیص کے بعد مریض میں اُن رنگوں کی کمی کو دور کرنے کے اقدام کئے جاتے ہیں جو اُس کی بیماری کا سبب بن رہے ہوں یا اُن رنگوں کا جو اُس میں زیادہ ہو چکے ہوں اُن کا اثر زائل کرنے والے رنگ تجویز کئے جاتے ہیں۔
سانس لینے کے لیے قدرت نے دو نتھنے عطا کئے ہیں۔ یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ بظاہر سانس دونوں نتھنوں سے اندر جاتا اور نکلتا ہے لیکن در حقیقت کبھی ایک نتھنا قدرے زیادہ کھلا ہوا ہوتا ہے اور کبھی دوسرا اور کچھ دیر کے لئے دونوں نتھنے برابر کھلے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نتھنوں سے باہر نکلنے والی ہوا کی شدت میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے لئے ہاتھ کی پشت کو ٹھوڑی کے قریب رکھ کر ناک سے نکلنے والی ہوا کی رفتار ، اس کی شدت اور کس نتھنے سے زیادہ نکل رہی یہ بات بہت توجہ سے سمجھنے کی ہے کہ سانس کی رفتار اور نتھنوں کے چلنے کا بہت گہرا تعلق رنگوں سے جڑا ہوا ہے۔ دائیں اور بائیں نتھنوں کے باری باری چلنے سے قدرت نے ایک ایسا دو ہر اانتظام کیا ہے کہ بیرونی روشنی کے ساتھ ساتھ سانس کے ذریعے بھی جسم کو مطلوبہ رنگ اُس وقت بھی ملتے
کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ صحت مند آدمی میں ہر نوے منٹ یا ڈیڑھ گھنٹے بعد نتھنے خود بخود تبدیل ہو جاتے ہیں یعنی اگر سانس دائیں نتھنے سے زیادہ چل رہا ہو تو وہ بائیں نتھنے سے چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایک نتھنے سے دوسرے نتھنے میں تبدیل ہونے کے دوران کچھ دیر دونوں نتھنے یکساں اور برابر چلتے ہیں۔
یہ بات بہت توجہ سے سمجھنے کی ہے کہ سانس کی رفتار اور نتھنوں کے چلنے کا بہت گہرا تعلق رنگوں سے جڑا ہوا ہے۔ دائیں اور بائیں نتھنوں کے باری باری چلنے سے قدرت نے ایک ایسا دو ہر اانتظام کیا ہے کہ بیرونی روشنی کے ساتھ ساتھ سانس کے ذریعے بھی جسم کو مطلوبہ رنگ اُس وقت بھی ملتےرہیں جب فضا سے روشنی کی فراہمی نہ ہو رہی ہو۔ سانس کے ساتھ ہمارے نتھنوں سے مختلف رنگ خارج اور جذب ہوتے ہیں۔ دایاں نتھنا اپنی چال کے ساتھ گرم رنگ یعنی سرخ اور نارنجی رنگ فراہم کرتا ہے
اور بایاں نتھنا ٹھنڈ ا یعنی نیلا اور جامنی رنگ مہیا کرتا ہے۔ جس وقت سانس دونوں نتھنوں سے برابر جاری ہوتا ہے اُس وقت اپنی رفتار اور شدت کے مطابق زرد اور سبز رنگ زیادہ جذب ہورہے ہوتے ہیں۔ ہم جس کروٹ لیٹتے ہیں کچھ ہی دیر میں اُس کے مخالف سمت کا نتھنا چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ دائیں کروٹ لیٹنے سے بایاں نتھنا اوپر ہوتا ہے اور سانس کی آمد و شد اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں نیلے اور بنفشی رنگ زیادہ جذب ہونے لگتے ہیں اور اس سے نہ صرف نیند گہری ہوتی ہے بلکہ سکون بھی زیادہ ملتا ہے۔ پر سکون اور گہری نیند سے اعصاب اور عضلات میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی بھی مرمت ہوتی ہے۔
جولوگ بیداری میں سانس لینے کے درست طریقے پر کار بند رہتے ہیں اُن کو صحت اور تندرستی کے مسائل کم ہی پریشان کرتے ہیں۔ سطحی اور اتھلا سانس لینے سے جسم میں آکسیجن اور دیگر گیسوں کی کمی پوری نہیں ہوتی اور جسم گوناگوں مسائل سےوچار رہتا ہے۔ اگر ہم صرف گہر اسانس | لینے کی عادت کو اپنالیں تو پھیپھڑوں میں جمع ہونے والی مضر صحت گیسوں کو بھی خارج ہونے کا موقع ملتا رہے گا اورعضلات کے حرکت میں رہنے سے تو ند بھی نہیں نکلے گی۔ اتھلا سانس لینے سے پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں جمع ہونے والی ہو اوہیں رکی رہتی ہے اور پیٹ کے نچلے عضلات کی حرکات کی کمی سے عضلات ڈھیلے پڑنے لگتے ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مختلف نظام جو جسم کی کار کردگی کو درست رکھتے ہیں کا باہمی ربط کمزور پڑنے سے جسم کو مختلف تکالیف کا سامنا ہونے لگتا ہے۔ جیسے جسم کا دُکھنا، پیٹ خراب ہونا، جوڑوں یا کمر میں درد رہنا سے لے کر گردوں میں خرابی ، ذیابطیس اور امراض قلب تک کے مسائل پیدا ہونا وغیرہ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ ٹیلی پیٹی یا مابعد الطبیعاتی علوم میں ہی سانس کی مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو تندرست اور صحت مند رہنا چاہتا ہے صرف سانس | لینے کے درست طریقے کو اپنا کر اپنی صحت اور تندرستی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ جب تک پیٹ بھر کر اور گہرا سانس لینے کی عادت نہ پڑ جائے اُس وقت تک سانس کی کی ایک آدھ مشق کرنے پر کار بند ہونےسے بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
سانس کی مشقوں کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔ ایک قسم کی مشقوں میں تیز تیز سانس لئے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک یا دو سیکنڈ میں ایک سانس لینا۔ شروع میں اس مشق کو پانچ پانچ منٹ کے لئے دن میں تین چار بار کرنا کافی رہتا ہے۔ اس سے جسم کو توانائی وافر مقدار میں ملتی ہے اور ذخیرہ ہوتی ہے۔ دوسری قسم کی مشقوں میں آہستہ ہستہ سانس لے کر اُسے سینے میں حسب برداشت روکنے کے بعد منہ کے راستے آہستہ آہستہ خارج کیا جاتا ہے۔ آغاز میں ہیں پچیس سانس ایک نشست میں لینے سے آغاز کر کے اسے دن میں چار پانچ بار کرنا مناسب رہتا ہے۔ سانس لینے ، روکنے اور نکالنے کا دورانیہ رفتہ رفتہ بڑھایا جانا چاہئے۔ سانس کو باہر نکالتے وقت ہو نٹوں کو سیٹی بجانے کے انداز میں گول کر نے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی مشقوں سے جسم میں رنگوں کے مراکز بھر پور سیراب ہوتے ہیں۔ آکسیجن اور در کار رنگ وافر مقدار میں ذخیرہ ہو کر جسم کی کار کردگی کو بہتر بناتے ہیں۔ جسم سے کثافتیں تحلیل ہونا ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ اعصاب کو توانائی مہیا ہونے سے کئی قسم کی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔ تیسری قسم کی مشقوں میں سانس کو آہستہ آہستہ ، ایک نتھنے سے لے کر ، ناک کو انگوٹھے اور انگلیوں سے پکڑ کر بند کر کے، سانس کو کچھ دیر سینے میں روک کر دوسرے نتھنے سے آہستہ آہستہ خارج کیا جاتا ہے اور پھر دوسرے نتھنے سے ہی سانس کو اندر لے کر ناک کو انگوٹھے اور انگلیوں سے بند کر کے، سانس کو کچھ دیر سینے میں روک کر پہلے نتھنے سے آہستہ آہستہ خارج کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک چکر ہوا۔ اس طرح گیارہ بارہ چکر دن میں تین چار مرتبہ کرنے سے جسم میں رنگ وافر مقدار میں جذب ہوتے
ہیں، ضائع شدہ توانائی بحال ہوتی ہے اور باطنی صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اگر یہ تینوں مشقیں پانچ پانچ منٹ روزانہ یعنی کل پندرہ پندرہ منٹ تین چار بار کرنا عادت بنالیا جائے تو جسم اور ذہن تندرست اور تو انارہ سکتے ہیں۔ ادھیڑ عمری میں جھریوں سے محفوظ رہنے کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ صبح سویرے طلوع آفتاب سے قبل سانس کی مشقوں کے فوائد دو چند ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اگر صبح سویرے وقت نہ ملے تو مشق ہی چھوڑ دی جائے۔ صبح سویرے گہرے سانس لینے سے فضا میں موجود نیلے اور نارنجی رنگ نسبتاً زیادہ جذب ہوتے ہیں اور دن بھر کے لئے در کار توانائی فراہم ہوتی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: امراض کے علاج یا ابتدائی طبی امداد کے لیے کرو مو پیتھی کے طریقے اپناتے ہوئے کسی ماہر کر و مو پیتھ کی رائے ضرور لی جائے۔ طبیعت کی خرابی کی ورت میں ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ کرو مو پیتھی یا دیگر آلٹرنیٹیو طریقہ ہائے علاج کے بارے میں معلومات عوام کے علم میں اضافے کے لیے شائع کی جاتی ہیں۔ انہیں استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کر لینا چاہیے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2019