حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہمؒ ابتدا میں ایک عظیم بادشاہ تھے۔ وہ عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے، شکار کے شوقین تھے اور دنیاوی شان و شوکت میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کے لیے نکلے۔ ان کے ساتھ شکاری کتے بھی تھے۔ جب وہ ایک ہرن کے قریب پہنچے تو اچانک ہرن نے آواز دی۔
اس آواز میں اللہ رب العزت کی طرف سے تنبیہ تھی کہ
“اے ابراہیم! کیا تم اسی مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟ کیا تمہیں اسی کام کا حکم دیا گیا تھا؟”
حضرت ابراہیمؒ نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔ وہ آگے بڑھے تو دوبارہ آواز آئی، پھر تیسری مرتبہ واضح الفاظ میں کہا گیا کہ:
“یہ شکار اور دنیا کی یہ مشغولیت تمہارے لیے نہیں ہے، اپنے آخرت کے سفر کی تیاری کرو۔”
یہ کلمات سننا تھا کہ حضرت ابراہیمؒ کی زندگی یکسر بدل گئی۔ ان کے دل میں اللہ کی محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گئی۔ انہوں نے بادشاہت، عیش و عشرت اور دنیاوی اقتدار کو ترک کر دیا اور عبادت و ریاضت کی راہ اختیار کر لی۔
ایک روایت کے مطابق، ایک رات وہ اپنے محل میں تھے کہ ایک شخص اندر آیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ حضرت ابراہیمؒ نے پوچھا کہ تم کیا تلاش کر رہے ہو؟ اس نے کہا: “میرا اونٹ گم ہو گیا ہے، میں اسے تلاش کر رہا ہوں۔”
حضرت ابراہیمؒ نے فرمایا: “کیا محل میں اونٹ مل سکتا ہے؟”
اس نے جواب دیا: “جس طرح محل میں اونٹ نہیں ملتا، اسی طرح عیش و عشرت میں اللہ نہیں ملتا۔”
یہ بات حضرت ابراہیمؒ کے دل پر اثر کر گئی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے دنیا کو چھوڑ دیا۔ وہ فقیری اختیار کر کے مکہ، مدینہ اور مختلف علاقوں میں اللہ کی تلاش میں گھومتے رہے۔ ان کا لباس سادہ تھا، کھانا معمولی اور زندگی زہد و تقویٰ کی مثال بن گئی۔
ایک مرتبہ وہ سمندر کے کنارے بیٹھے تھے کہ وہاں کے بادشاہ کو خبر ہوئی کہ ایک بڑا شخص یہاں موجود ہے جو کبھی خود بھی بادشاہ تھا۔ بادشاہ ان کے پاس آیا اور ان سے حال پوچھا۔ آپ کو سمجھانے لگا کہ آپ بادشاہ ہو کر یہاں پر گدڑیاں سی رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا کے ہاں وہاں ایک بادشاہی تھی یہاں اور بادشاہی ہے اس نے کہا کہ یہاں کونسی بادشاہی ہے آپ کے ہاتھ میں سوئی تھی آپ نے سمندر میں پھینک دی اور حکم دیا مچھلیوں کو کے جاؤ میری سوئی لے کر آؤ اس بادشاہ نے کہا کہ کیا مچھلیاں بھی کبھی سوئی لے کر آئی ہیں کہنے کی دیر تھی کے ہزار ہا مچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی سوئیاں لے کر سطح آب پر آ گئی آپ نے فرمایا کے وہاں چھوٹی سی بادشاہی تھی یہاں اللہ نے مبھے بہرو بر پر بادشاہی عطا کر دی ہےی
یوں حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل بادشاہی اللہ کی بندگی میں ہے، دنیا کی شان و شوکت عارضی ہے، اور حقیقی کامیابی آخرت کی تیاری میں ہے۔
![]()

