خاتون خانہ کی محبت اور محنت کا اعتراف ضروری ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مشہور معاشیات دان اسٹگلر کا کہنا ہے کہ ”ایک عورت جو گھر کا کام سنبھالتی ہے، بچوں کی نگہداشت کرتی ہے اور ان کی پرورش کا فرض سرانجام دیتی ہے۔ ان خدمات کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کا خاوند اپنی ساری خدمات کو فروخت کر کے بھی اتنی قیمت حاصل نہیں کر سکتا۔
لوگوں نے سوچا کہ اس کے باوجود اس خاتون سے اگر یہ کہا جائے کہ کیا کرتی ہو تم سارا دن …..؟ آرام سے گھر میں رہتی ہو۔ میں تو سارا دن …. تم لوگوں کے لیے کماتا ہوں اور تم منٹ منٹ پر فضول چیزوں کے لیے پیسے مانگنے کھڑی ہو جاتی ہو …. تو عورت کو کیسا محسوس ہو گا ….؟ وہ تھکن سے چور جسم کے ساتھ یہ بھی نہ کہہ پائے گی کہ ”ایک مرتبہ یہ ذمہ داری اٹھا کر تو دیکھو کہ جسے کام ماننے پر تیار نہیں ….
یہ ٹھیک ہے کہ سب جگہ بات برابر نہیں ہوتی بعض جگہ مرد دو، دو تین، تین نوکریاں کرتے اور خواتین ماسی کو کام پر لگا کر شاپنگ یا آرام کرتی رہتی ہیں اور گھر کی طرف توجہ نہیں دیتیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں بہت سی خواتین فل ٹائم نوکریاں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے تمام کام بھی نمٹاتی ہیں جبکہ ان کے شوہر یا بھائی جو ان کے ساتھ کام پر نکلتے ہیں۔ گھر واپس آکر آرام کرتے ہیں یا باہر تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔
بعض مرد یہ شکایت کرتے ہیں کہ گھریلو زندگی تو بالکل بدمزہ ہے۔ بیوی کی وہی شکایتیں، بچوں کی وہی چیخ چیخ۔ تو جناب گھریلو کاموں کا یہی مسئلہ ہے یہ صبح اٹھنے سے رات گئے تک جاری رہتے ہیں تو بیزاری کیسے نہ پیدا ہو گی ماحول میں ….؟
یہ مسئلہ صرف میاں بیوی کا ہی نہیں بلکہ گھر کے اور لوگوں کا بھی ہے ، بہن اور بھائی جن پر پڑھائی کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے۔ تو بھائی صاحب تو یہ ذمہ داری نبھا کر باہر دوستوں میں نکل جاتے ہیں یا کبھی کبھار کوئی بل بھروا دیا یا باہر کا کوئی کام کر دیا۔ ہوا خوری، الگ اور کام بھی ہو گیا لیکن بہن کو گھر کے کاموں کی ذمہ داری بھی نبھانا پڑتی ہے۔ اگر زیادہ بہنیں ہوں تو معاملہ پھر بھی سیٹ ہو جاتا ہے مگر اکلوتی بہن ہو یا گھر میں ایک دو خواتین ہوں تو معاملہ پیچیدگی اختیار کرتا ہے۔ بار بار پڑھائی سے اٹھ کر گھر کے کام کرنا اور پڑھائی کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے، تفریح یا مشاغل تو دور کی بات ہے ، بہن تو دن رات بھائیوں کے کپڑے دھو کر پریس کرکے اور دیگر کام سمیٹ کر ادھ موئی ہو جاتی ہیں۔ جبکہ بھائیوں کا
حال اکثر یہ ہوتا ہے کہ ذرا کچھ کرنے کو کہا جائے تو جواب ملتا ہے، کیا ہم لڑکی ہیں ….؟ (جیسے لڑکی ہونے کی سزا میں سارے کام بہن کے حصے میں لکھے گئے ہوں یا کاموں پر مہر لگی ہوئی ہو ) ان سب کے باوجود اگر بہن کو باہر کا کوئی کام پڑ جائے تو اکثر مائیوں کے نخرے سہنے پڑتے ہیں۔ ایسے میں بد دلی نہ پھیلے گی تو اور کیا ہو گا ….؟
اب آتے ہیں اس مسئلہ کے حل کی طرف۔ یہ تو طے ہے کہ ہر انسان اپنے گھر کے تمام افراد سے محبت کرتا ہے۔ محبت نہ سہی لیکن کم از کم ایک لگاؤ یا انسیت ضرور رکھتا ہے۔ چونکہ یہ ایک معاشرتی رویہ بن چکا ہے لہذا اس پر توجہ نہیں دی جاتی اس میں کافی حد تک قصور گھر کی نانیوں، دادیوں کا بھی ہے۔ جو بچوں کے ذہن میں یہ بٹھاتی ہیں کہ کیا لڑکا ہو کر صفائی یا جھاڑو پوچھا کرے گا ….؟
بعض مائیں تو بڑے فخر سے کہتی ہیں ” میرا بیٹا تو اپنے آگے کے بر تن تک نہیں اٹھاتا۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کئی مرد بیوی کے بیمار یا تھکا ہوا ہونے کے باوجود کھانا تک خود نہیں نکالتے۔
جب خواتین کمانے میں اور باہر کے کام کرنے میں مرد کے ساتھ ہیں تو مرد کو بھی تو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ دنیا ہی ایک ہاتھ دو، ایک ہاتھ لو پر قائم ہے چاہے خونی رشتے ہی کیوں نہ ہوں۔ ور نہ زندگی مایوسی و عدم توازن میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اگر مرد گھر میں اپنے آگے کے چائے کے کپ دھولیں، اپنے کپڑے پریس کر لیں۔ اپنی چیزیں سمیٹ کر رکھیں، ضرورت پڑنے پر اپنے کپڑے دھولیں، اپنے لیے چائے بنالیں تو یہ چھوٹے چھوٹے کام کسی خاتون خانہ کتنا آرام پہنچائیں گے اور اس کا کتنا بوجھ ہلکا کریں گے۔ باہر کا کوئی بھی کام ہو تو آپ کا فرض ہے کہ خوش دلی کے ساتھ کریں۔ ظاہر ہے یہ مردوں ہی کا کام ہے خوش دلی کے ساتھ کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ؟ بہنیں بھائیوں کی ذمہ داری ہوتی ہیں لہذا وہ کہیں آنا جانا چاہیں تو انہیں تنگ نہ کریں چونکہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور ان کا سیر و تفریح کے لیے اکیلے نکلنا بھی ممکن نہیں تو بھائی یہ ذمہ داری بھی خوش اسلوبی سے نبھائیں۔
خاتون خانہ کی خدمات کا اعتراف ضرور کریں کیونکہ ایک حرف ستائش ایک گلاس دودھ سے زیادہ طاقت دیتا ہے اور ساری تھکن دور کر دیتا ہے مثال کے طور پر تم کتنا کام کرتی ہو۔ اگر تم نہ ہو تو میرا اور بچوں کا کیا ہو۔ تمہارے ہی دم سے یہ گھر آباد ہے، آج کوفتے بہت لذیذ بنے ہیں۔ کسٹرڈ بہت مزے کا ہے، گھر تو چمک رہا ہے، ارے واہ ! آج تو سوٹ پر ایک بھی سلوٹ نہیں، کپڑے تو بہت صاف دھلے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خود سے بھی بیگم کے لیے تحفے تحائف لائیں کیونکہ وہ آپ کی پسند ہی تو زیب تن کرنا چاہتی ہیں۔ بیگم کی سالگرہ یا شادی کی سالگرہ پر انہیں سوٹ، جھمکیاں، چوڑیاں، نیکلیس وغیرہ کارڈ کے ساتھ دے سکتے ہیں۔ یا اگر وہ ادبی ذوق رکھتی ہوں تو کوئی اچھی سی کتاب بھی ان کی خوشی کا باعث بن سکتی ہے۔ جھجھک کو دور کرنا بہت ضروری ہے ہو سکتا ہے بچوں کی بعض حرکتوں سے بیزار بیگم شروع میں اپنے شوہر کو کوئی خاص رسپانس نہ دیں اور شوہر کو مایوسی ہو لیکن خاتون خانہ کا دل اس معاملے میں موم سے بھی زیادہ نرم اور حساس ہوتا ہے۔ ذرا سی کوشش سے ہر شوہر اپنی بیوی کو بہت خوشیاں دے سکتا ہے۔ موقع نکال کر مہینے یا دو تین مہینے میں سیر و تفریح کے لیے ضرور جائیں اور کبھی کبھار بیگم کی تعریف ہو جائے کہ آج بہت اچھی لگ رہی ہو ، یہ سوٹ تم پر بہت سوٹ“ کر رہا ہے۔ یہ ” پنک لپ اسٹک تم پر بہت اٹھتی ہے وغیرہ یا پھر کبھی …. اظہار محبت، وہی محبت جو نکاح کے دو بولوں کے اثر سے دلوں میں خود بخود جگہ بناتی ہے تو سونے پہ سہاگا ہو گا کیونکہ بہر حال محبت وقتا فوقتاً اظہار کی محتاج ہے اور لفظ اسے تازہ دم کر دیتے ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2019