خبر یا فساد
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خبر یا فساد۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )آج کے ڈیجیٹلدور میں ہمارے پاس سینکڑوں ٹی وی چینلز ، اخبارات ، آئن لائن نیوز چینلز اور گلوبل انٹر نیٹ ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی بڑا یا چھوٹا واقعہ پیش آئے ہمیں منٹوں میں خبر مل جاتی ہے ۔ اکثر خبریں درست ہوتی ہیں جیسے کسی جگہ ہونے والا حادثہ، کوئی قدرتی آفت، کسی کی پیدائش یا وفات کی خبر، کسی ملک کے بارے میں خبر وغیرہ ۔لیکن بعض اوقات کوئی خبر افواہ بھی ہوتی ہے جسے چینلز یا کوئی شخص اپنی ریٹنگ یا زیادہ ویوز کے لیےچلا دیتے ہیں اور عوام میں انتشار پھیل جاتا ہے۔جیسے کسی ملک کے سربراہ کے بارے میں کوئی غلط خبر، کسی سلیبرٹی کا کوئی اسکینڈل وغیرہ۔چند دن پہلے سنگر عاطف اسلم کا بیان وائرل ہوا کہ انہوں نے سعودیہ میں ہونے والے کنسرٹ میں یہ کہہ کر گانے سے انکار کر دیا کہ وہ مقدس مقامات کے قریب گانا نہیں گا سکتے۔جب کہ سنگر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
لوگ ایسی خبر پر یقین کر کے تبصرے کرتے ہیں اور بہتان اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب کو جاتے ہیں ۔اسلام مفید بحث سے منع نہیں کرتا مگر ایسی بحث جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہو اور صرف افواہیں پھیلیں اس سے روکتا ہے۔اگر گپ شپ میں ذاتی تجربات بیان کیے جائیں اور سبق آموز قصے سنائے جائیں تو کوئی حرج نہیں ۔مگر فضول چیزوں کے بارے میں بات کرنا جس سے ہمارا کوئی concern ہی نہ ہو منع ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ۔
” اے مومنو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو۔ایسا نہ ہو کہ تم انجانے میں لوگوں کو نقصان پہنچا دو اور بعد میں اپنے کیے پر پچھتاؤ ۔”الحجرات 5
اس سے دو باتیں پتہ چلتی ہیں ایک تو یہ کہ ہر خبر پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کر لیا جائے دوسرے جب پتہ ہو کہ خبر دینے والا کوئی سچا اور باکردار شخص نہیں ہے تو ضروری ہے کہ خبر کی تحقیق کی جائے۔ہم جب کوئی بھی خبر ٹی وی یا سوشل میڈیا، نیٹ پر دیکھتے ہیں تو ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس کی تصدیق کر لیں اور اسے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں ۔ایسے میں ہم نہیں جانتے کہ جس کے بارے میں خبر ہے اس نے ایسا کام کیا بھی ہے یا نہیں ۔اگر وہ شخص اس چیز کا مرتکب ہے تو بھی ہم لوگوں میں بیٹھ کر اس کی غیبت کرتے ہیں اور اگر اس نے وہ کام نہیں کیا تو ہم اس پر بہتان لگا رہے ہوتے ہیں ۔پہلی صورت میں ہم بقول قرآن و حدیث ” اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہوتے ہیں ” اور دوسری صورت میں ہم حد کی سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
” کیا میں تمھیں سفید جھوٹ کے بارے میں نہ بتاؤں ۔یہ وہ افواہ ہے جو لوگوں میں پھیلائی جائے۔” مسلم
ایک اور جگہ فرمایا۔
” اللہ تعالٰی نے ممنوع قرار دیا تمھارے لیے تمھاری ماؤں کی نافرمانی، اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا، دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور دوسروں سے بھیک مانگنا ۔اور وہ تمھارے لیے افواہ پھیلانے، بہت زیادہ سوال کرنا اور پیسہ ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے ۔” بخاری
قرآن پاک کی سورہ الممتحنہ میں فرمان ربی ہے
” اور نہ بہتان لگائیں جو اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے گھڑ لیں۔” آیت 12
سورہ النور آیت 23 میں ہے
” بیشک جو لوگ پاک دامن بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ۔”
سورہ النساء آیت 94 ہے
” جب تم اللہ کے راستے میں نکلو تو تحقیق کر لیا کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔معاملے کی تحقیق کر لیا کرو۔”
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ فحاشی کو مت پھیلاؤ ۔ان تمام آیات و احادیث کا مقصد معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم کرناہے ۔جب جرائم پر مبنی خبریں پھیلتی ہیں تو دوسرے مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ بھی جرم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔جب لوگ دیکھتےہیں کہ کسی بے گناہ کو قتل کر کے، کسی لڑکی یا بچے کا ریپ کر کے، اربوں روپے کی کرپشن کر کے، ڈاکا مار کے، فراڈ کر کے، جھوٹی گواہی دے کر مجرم پہلے تو پکڑا نہیں جاتا اور اگر پکڑا ہی جائے تو سزا نہیں پاتا تو وہ جرم کرنے کو برا نہیں سمجھتے۔
آج کا معاشرہ اسی وجہ سے تشدد، قتل و غارت، ریپ، ڈکیتی، فرسٹریشن اور بے چینی کا شکار ہے۔اگر ہم ان سب سے اپنی زندگی کو پاک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں جھوٹ سے بچنا ہو گا۔کیونکہ ان تمام برائیوں کی جڑ جھوٹ ہی ہے۔
افواہ سازی اور فضول گپ شپ سے کیسے بچا جا سکتا پے؟ حدیث میں ہے۔
” جب آدمی صبح کو اٹھتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں : اللہ سے ڈرو۔کیونکہ ہم تمھارے رحم وکرم پر ہیں ۔اگر تم سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تم ٹیڑھی ہو گئ تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے ۔” ترمذی
آیات و احادیث میں صرف زبان کا ہی نہیں ہاتھ پاؤں سے بہتان گھڑنے کا بھی ذکر ہے۔اس سے مراد لکھ کر افواہ پھیلانا، بول کر اور کہیں چل کر جانا اور اس جگہ افواہ پھیلانا ہے۔اگر ہم ان سب سے بچنا چاہتے ہیں تو خود کو جھوٹ اور جھوٹے لوگوں کی صحبت سے بچانا ہو گا۔اور احکام الہی پر عمل کرنا ہو گا۔