خواتین کو پردہ نہیں کرنا چاہیے اور مردوں کو ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں۔‘ یہ خیالات افغانستان کی ملکہ بننے والی خاتون کے تھے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب امان اللہ خان نے 1919 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو ان کی اہلیہ ثریا طارزی کے خیالات نے لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ یہ خیالات اس ملک کے لیے نئے تھے جو صدیوں سے ایک قبائلی اور قدامت پسند ثقافت میں رہ رہا تھا۔
چند برس بعد، امان اللہ خان نے اپنا لقب امیر سے بدل کر بادشاہ کر دیا اور افغانستان کے شاہ بن گئے۔ امان اللہ کی حکمرانی 1929 تک رہی۔ اس دوران وہ اور ملکہ ثریا افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پرعزم رہے۔
سنہ 1926 میں امان اللہ خان نے ایک بیان میں کہا تھا ’میں عوام کا بادشاہ ہو سکتا ہوں لیکن وزیر تعلیم میری بیوی ہیں۔‘
ان کے اس بیان نے افغانستان میں ملکہ ثریا کے کردار کو واضح کر دیا تھا۔
سنہ 2014 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں، امان اللہ خان اور ثریا طارزی کی سب سے چھوٹی بیٹی شہزادی انڈیا نے اپنی والدہ کے بارے میں کہا تھا کہ ’میری ماں نے لڑکیوں کے لیے پہلا سکول کھولا اور اپنی دو بیٹیوں کو سکول بھیج کر دوسرے خاندانوں کے لیے مثال قائم کی تھی۔‘
جب شاہِ افغانستان امان اللہ خان کو 1929 میں اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو انھوں نے انڈیا میں پناہ لی جہاں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی بمبئی میں پیدا ہوئی۔ اسی وجہ سے انھوں نے اپنی بیٹی کا نام انڈیا رکھا تھا۔
شہزادی انڈیا نے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا’میری والدہ کی کامیابیوں کو افغانستان کے لوگ اب بھی عزت دیتے ہیں۔ لوگوں کو میری ماں کی تقریریں اب بھی یاد ہیں۔ انھوں نے افغان خواتین کو خود مختار بنانے اور لکھنے پڑھنے کے لیے کیسے متاثر کیا؟’
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ رانی ثریا اپنے دور کی غیر معمولی خواتین میں سے ایک تھیں۔
’تعلیم حاصل کریں‘
رانی ثریا افغانستان کی خواتین کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتی تھیں اور ان کے حقوق کے بارے میں گفتگو کرتی تھیں۔
سنہ 1926 میں افغانستان کے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں انھوں نے عورتوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’آزادی ہم سب کی ہے اور اسی وجہ سے ہم اسے مناتے ہیں۔ لیکن شروع سے ہی ہمارے ملک میں کام صرف مردوں کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔‘
’عورتوں کو بھی حصہ لینا چاہیے جیسا کہ ہماری قوم کے ابتدائی برسوں اور اسلام کے عروج کے زمانے میں تھا۔ ہمیں ان کی مثالوں سے سیکھنا چاہیے کہ ہم سب کو قوم کی تعمیر میں حصہ لینا ہے اور یہ تعلیم حاصل کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔‘
‘اسی لیے ہم سب کو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم خواتین وہی کردار ادا کرسکیں جو خواتین نے اسلام کے ابتدائی ادوار میں ادا کیا تھا۔’
رانی ثریا نے 1921 میں کابل میں افغانستان میں لڑکیوں کے لیے پہلا پرائمری سکول کھولا۔ اس کا نام مستورات سکول تھا۔
عرب نیوز کے ایک مضمون میں جوناتھن گورنال اور سید صلاح الدین نے لکھا تھا کہ سنہ 1928 میں مستورات سکول کی 15 طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ترکی بھیجا گیا تھا۔
اس مضمون کا عنوان ہے، ’افغانستان کی رانی ثریا: اپنے وقت سے آگے کی ایک عورت۔‘
اس مضمون کے مطابق، ’مستورات سکول میں زیر تعلیم کابل کے بااثر خاندانوں کی 15 لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ترکی بھیجا گیا تھا۔‘
ماہر تعلیم شیریں برکی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ، ‘غیر شادی شدہ لڑکیوں کو بیرون ملک بھیجنے پر افغانستان کے کئی حصوں میں شدید تنقید کی گئی تھی۔’
لڑکیوں کو تعلیم کے لیے ترکی بھیجنے کے اس اقدام کو افغانستان میں مغربی ثقافت کو اپنانے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
لینڈ آف دی ان کنکریبل: دی لائیوز آف کنٹیمپریری افغان ویمن کی مصنفہ شیرین برکی کا کہنا ہے کہ افغان حکمران طبقہ جو کچھ خواتین کو فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا وہ افغانستان کی زمینی حقیقت سے بہت مختلف تھا۔
والدین کا اثر
ملکہ ثریا طارزی کے والد محمود طارزی ایک بااثر افغان سیاستدان اور دانشور تھے جو اپنے ملک میں لبرل پالیسیاں لاتے تھے۔ ان کی سوچ کا اثر نہ صرف ان کی بیٹی ثریا پر پڑا ، بلکہ ان کے انتہائی پرجوش پیروکار پر بھی پڑا ، وہ لڑکا جو بعد میں ان کا داماد اور افغانستان کا حکمران بنا۔
سان ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں امیریٹا کی پروفیسر ہما احمد گھوش کا کہنا ہے کہ ’طارزی نے خواتین کے لیے پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی صرف ایک شادی تھی۔ انھوں نے اپنے خاندان کی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ ان خواتین کو عوامی مقامات پر بغیر برقع کے دیکھا گیا۔‘
ہما گھوش کہتے ہیں کہ ’امان اللہ نے برقعہ اور زیادہ شادیوں کے خلاف عوامی مہم شروع کی۔ انھوں نے نہ صرف کابل بلکہ ملک کے اندرونی علاقوں میں بھی لڑکیوں ..انھوں نے نہ صرف کابل بلکہ ملک کے اندرونی علاقوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔‘
ایک جلسہ عام میں امان اللہ نے کہا تھا کہ ’اسلام عورتوں کو خاص قسم کے برقعہ پہننے کا حکم نہیں دیتا۔‘
‘امان اللہ کی تقریر ختم ہونے کے بعد ثریا نے اپنا نقاب ہٹا دیا اور وہاں موجود خواتین نے بھی ایسا ہی کیا۔’
ملکہ ثریا مختلف مواقعوں پر لی گئی تصاویر میں ٹوپی پہنے ہوئے بھی دکھائی دیتی ہیں۔
ملکہ ثریا کا خاندان
ثریا 24 نومبر 1899 کو شام کے دارالحکومت دمشق میں پیدا ہوئی۔ اس وقت دمشق سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ثریا نے بچپن وہی گزارا اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ بعدازاں ان کا خاندان افغانستان واپس آ گیا۔
جب امان اللہ خان کے والد حبیب اللہ خان 1901 میں افغانستان کے امیر بنے تو بیرون ملک رہنے والے کئی خاندان ملک واپس آ گئے تھے۔ طارزی کو حکومت میں شامل ہونے اور ملکی ترقی کا چارج سنبھالنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
شہزادہ امان اللہ خان اور ثریا طارزی ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے اور 1913 میں انھوں نے شادی کی۔ حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد امان اللہ خان امیر بن گئے اور ملک کی حکومت اس جوڑے کے ہاتھ میں آ گئی۔
امان اللہ خان نے اپنے ملک کو برطانوی سلطنت سے آزاد کرایا اور 1919 میں اس نے افغانستان کو آزاد قرار دیا۔
الجزیرہ کی صحافی تنیا گوڈسوزیان نے 2014 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا تھا کہ ملکہ ثریا نے گھوڑے پر شکار کیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعزازی ڈگری حاصل کی۔
اس کی شامی نژاد والدہ اسماء راسمیہ طارزی نے افغانستان کا پہلا خواتین کا میگزین شروع کیا ، جس میں کامیاب خواتین اور اسلامی دنیا میں اعلیٰ مقام کی حامل خواتین کے بارے میں مضامین تھے۔
اس میگزین کا نام ارشادِ نسواں تھا اور ان کی بیٹی ثریا اس کی اشاعت میں ان کی مدد کرتی تھی۔ ثریا نے صنفی مساوات سے متعلق مواد کو بھی فروغ دیا۔
اس میگزین کے بعد افغانستان میں اس طرح کی اور بھی بہت سی اشاعتیں ہوئیں۔
ملکہ کا دورہ یورپ
ملکہ ثریا اور ان کے شوہر نے 1927-28 میں یورپ کا دورہ کیا۔ یہاں انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا ۔گورنال اور صلاح الدین کے مطابق ، یورپ کے دورے پر انھیں دیکھنے کے لیے بہت سے شہروں میں بہت بڑا ہجوم جمع ہوا تھا۔
اس دورے کے دوران ، اس شاہی جوڑے نے جو دیکھا ، وہ ملک واپس آئے اور اسے یہاں بھی نافذ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس دورے پر لی گئی کچھ تصاویر نے افغانستان کے لوگوں کو غصہ دلا دیا تھا۔
ان تصاویر میں ملکہ ثریا بنا برقعے یورپی مردوں کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی تھی اور کچھ تصاویر میں وہ بغیر آستین کا لباس پہنے ہوئے تھیں۔
احمد گھوش کہتے ہیں، سخت گیر علماء اور علاقائی رہنماؤں نے ان تصاویر کو ملک کی ثقافت ، مذہب اور عزت کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا تھا۔’
کچھ ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ بہت سی تصاویر کو ایڈیٹ کیا گیا تھا اور برطانوی سلطنت سے وابستہ لوگوں نے انھیں افغانستان کے قبائلی علاقوں میں تقسیم کیا تھا تاکہ ملک کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
شاہی خاندان کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی تھی کہ آخر کار انھیں 1929 میں ملک چھوڑ کر اٹلی میں پناہ لینی پڑی۔ اس کے ساتھ ان کا افغانستان کی ترقی کا پروگرام بھی رک گیا۔
سنہ 1928 کے اختتام کے بعد سے افغانستان میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس دوران حبیب اللہ کالکانی نے کچھ عرصے کے لیے اقتدار حاصل کیا لیکن آخر کار محمد نادر شاہ کو اقتدار ملا جو 1929 سے 1933 تک ملک کے حکمران رہے۔
نادر شاہ نے ملک میں لڑکیوں کے لیے کھولے گئے سکولوں کو بند کر دیا اور خواتین کے لیے برقعہ دوبارہ متعارف کرایا۔ تاہم ، امان اللہ کے دور کی پالیسیوں کو آہستہ آہستہ نادر شاہ کے بیٹے اور افغانستان کے دیرینہ حکمران محمد ظاہر شاہ (1933-1973) کے دور میں دوبارہ نافذ کیا گیا۔
اپنے وقت سے آگے کی عورت
ملکہ ثریا اپنے شوہر کی موت کے آٹھ سال بعد 1968 میں اٹلی میں فوت ہوئیں۔ ان کے جسد خاکی کو فوجی اعزاز کے ساتھ روم ایئرپورٹ سے افغانستان لایا گیا جہاں انھیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
سنہ 1927 میں وہ ٹائم میگزین کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل تھیں اور ان کی تصویر میگزین کے سرورق پر تھی۔
صحافی سوین ہینیز نے ان کے بارے میں لکھا کہ ‘افغانستان کی ملکہ اور شاہ امان اللہ خان کی اہلیہ کی حیثیت سے ، وہ 1920 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کی بااثر شخصیات میں سے ایک بن گئیں اور ان کے ترقی پسندانہ خیالات نے انھیں دنیا بھر میں پہچان دلائی۔’
پچاس سال بعد 1970 کی دہائی میں افغانستان میں طارزی کے خیالات نے دوبارہ جنم لیا اور خواتین کو تعلیم اور روزگار کے شعبے میں زیادہ مواقع دیئے گئے۔
تعلیم کے علاوہ خواتین کو سیاست میں بھی موقع دیا گیا اور شادی کی عمر بھی بڑھا دی گئی۔