Daily Roshni News

خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ شخصیت کا تین الفاظ میں تعارف علم ، خدمت ، مراقبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ۔
شخصیت کا تین الفاظ میں تعارف
علم ، خدمت ، مراقبہ
تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ شخصیت کا تین الفاظ میں تعارف علم ، خدمت ، مراقبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی )زندگی کے بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ہونا لکھا ہوتا ہے انہیں ہونا ہی ہوتا ہے جیسے جو اس دنیا میں آیا ہے اسے جانا ہے۔
بعض ہستیاں ہمارے دل و دماغ میں اتنی رچ بس جاتی ہیں کہ ان کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں ہوتا۔ اباجی کی رحلت ہوئی، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندے خواجہ شمس الدین عظیمی کی مغفرت فرمائیں۔ ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالی انہین جنت میں اعلی مقام عطا فرمائیں گے اور ابا کے درجات میں مسلسل بلندی ہوتی رہے گی ۔ بہر حال ظاہری طور پر ہمارے اور ابا کے درمیان ایک پردہ حائل ہو گیا ہے اپنے والد اپنے مرشد سے یہ عارضی جدائی ہمارے لیے بہت دکھ کی، بڑی صدمے کی بات ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ایسے مواقع پر صبر طلب کرو۔
انسان زیادہ دکھی ہوتا ہے تو وہ مایوسی اور ڈپریشن میں بھی جا سکتا ہے۔ دکھی کیفیت کے نیگیٹیو اثرات آدمی کے ذہن اور جسم پر ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک کیفیت یہ ہے کہ کسی بڑے دکھ کو پوزیٹیو لیا جائے۔ ابا کی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم کہیں گے کہ ابا کی ساری زندگی اللہ تعالی پر بھر پور یقین اور توکل کا ایک استعارہ ہے۔ اہا کی سوچ اور ابا کا عمل ہو زینیو تھنکنگ اور بہت فعال طرز عمل کی ایک شان دار مثال ہے ۔ اس حوالے سے اہا کی وفات پر اپنے دکھ کو بھی ہمیں پو زینیو لینا چاہتے ہیں۔ دکھ کو پوزیٹیو لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دکھ کو طاقت میں بدل دیا جائے ۔ اس دکھ سے افرجی لی جائے۔۔ اس میں ایک نکتہ ، ایک بات یہ ہے کہ ہمارا یہ دکھایا کے لئے خوشی بن جائے۔ یعنی دکھ میں ہماراہم زیٹیو طرز عمل ہمارے والد کے لیے خوشی بن جائے۔ میں دکھ میں مایوس ہو جاؤں تو یہ میرے والد مرحوم کے لئے خوشی کا باعث نہیں ہو گا۔ اس دکھ کو میں طاقت بناؤں تو انہیں خوشی ہوگی۔ ابا کی بیماری کے دنوں میں بھی میں بہت فکر مند تھا، گو کہ کام سارے کر رہا تھا۔ ایا کی بیماری کے دنوں میں فکر مندی اور ان کے انتقال کے بعد دکھ۔ اس کے بڑے شدید اثرات تھے۔ ابا کی وفات کے بعد میں نے سوچا کہ اس موقع پر میں ایسا کیا کروں کہ میرا طرز عمل ابا کی روح کے لئے خوشی کا سبب بن جائے۔ میں نے اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ اللہ مجھے ہمت دے، مجھے صبر دے اور میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے عظیمی بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر کچھ ایسا کروں کہ جو میرے ابا کی روح کے لئے بہت خوشی کا
سبب بن جائے۔
میرے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی کی شخصیت بہت بڑی ہے اور ان کی وراثت بھی بہت بڑی ہے۔ اباجی نے اپنے پیچھے ایک بہت بڑا ورثہ چھوڑا ہے۔ میں نے سوچا کہ ہمیں ایک طرف ابا کی شخصیت پر کام کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ہمیں ابا کی ان وراثت پر کام کرنا چاہیے۔
ابا کی درگاہ کے ڈیزائن کے حوالے سے اپنے ایک آرکٹیک بھائی جاوید صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر خواجہ صاحب کی شخصیت کو تین الفاظ میں بیان کر نا ہو تو کن الفاظ میں بیان کریں گے۔
میں نے عرض کیا کہ ابا کا تعارف تین الفاظ میں بیان کرنا ہو تو میں کہوں گا…. علم ، خدمت، مراقبہ ۔ اہانے علم کی بہت خدمت کی۔ ابا کی شخصیت کا ایک پہلو ہے خدمت خلق اور تیسر ابہت اہم پہلو ہے مراقبہ ۔ مراقبہ پر اب تو ساری دنیا میں کام ہو رہا ہے، پاکستان میں لوگ اگر کسی شخصیت کے حوالے سے مراقبہ کو جانتے ہیں تو خواجہ شمس الدین عظیمی کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں۔
ابا کی شخصیت کا ہر پہلو ہمارے لئے ایک رہنماء کی کی حیثیت رکھتا ہے ہمیں علمی طحالا سے بھی ابا کے خدمت کرنے کا عزم کرنا ہے۔ ابا کے خدمت خلق کے پروگرام کو بہت اچھی طرح لے کر چلنا ہے اور مراقبہ یعنی ذہنی یکسوئی، اللہ سے تعلق، باطن کا سفر اپنی اچھی صفات کو اجا گر کرنا، تزکیہ نفس اس معاملے میں کبھی ہمیں اجتماعی اور انفرادی طور پر بہت زیادہ فوکس ہو کر کام کرنا چاہیئے۔
علمی لحاظ سے ابا کی خدمت کیسے کی جائے۔ فروری کے آخر یا مارچ کے شروع سے ہی میں نے اس میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ میرے ذہن میں کچھ پوائنٹس تھے۔ میں نے نگراں مراقبہ ہالز کو لیٹر لکھا کہ ابا پر ایم فل، پی ایچ ڈی لیول کی ریسرچ کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
ہمارے سلسلہ عظیمیہ کے یوتھ یادوسرے لوگ جنہوں نے ماسٹرز کر رکھا ہے وہ پی ایچ ڈی کے لئے انرول کرائیں۔ بعد میں میں نے سوچا کہ جو لوگ آل ریڈی کورس کر رہے ہیں جو لوگ پہلے سے انرول ہیں اور اب یونیورسٹی نے ان کو ٹاپک دینا ہے تو کیوں نہ ہم وہاں سے کام شروع کریں۔ یونیورسٹی سے بات کی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2025

Loading