خودی کے ساز میں ہے عُمرِ جاوداں کا سُراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )علامہ اقبالؒ اس شعر میں خودی کے جوہر کو ایک ایسی قوت اور حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو انسانی زندگی کو ابدی معنویت اور اقوام کو بقا و عزت عطا کرتی ہے۔یہاں “سازِ خودی” ایک تمثیلی اظہار ہے۔ ساز ایک ایسا آلہ ہے جو دھن پیدا کرتا ہے، اور اقبال اس سے مراد انسانی فطرت میں چھپی ہوئی وہ آہنگ ہے جو خودی کی پہچان اور پرورش سے پیدا ہوتی ہے۔”عمرِ جاوداں” یعنی ابدی زندگی کا راز یا سراغ، خودی کے اس ساز میں چھپا ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اگر اپنی خودی کو پہچان لے، اس کی پرورش کرے، اسے سوز و گداز کے ساتھ بیدار رکھے، تو وہ فنا کی بجائے بقا کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ یہ بقا صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی، فکری اور تہذیبی سطح پر بھی ہے۔اقبال سوزِ خودی کی بات کرتے ہیں، یعنی وہ باطنی تڑپ، اخلاص، حرارت، اور ایمان کی آگ جو خودی کے اندر پنہاں ہوتی ہے۔ یہی سوز جب کسی فرد یا قوم میں زندہ ہو تو وہ چراغ بن جاتا ہے جو زمانے کے اندھیروں میں روشنی پھیلاتا ہے۔یہ چراغ اقوام کی زندگی، ان کے کردار، ان کی تہذیب، ان کی قیادت اور ان کے نصب العین کی علامت ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ جب خودی میں سوز پیدا ہوتا ہے تو وہ پوری امت کو روشنی عطا کرتا ہے، اسے زندہ، بیدار اور فعال بناتا ہے۔اقبال کے نزدیک خودی ایک ایسی الہامی طاقت ہے جو انسان کو مٹی سے اٹھا کر آسمانوں تک لے جا سکتی ہے۔ خودی کے بغیر انسان اور قومیں بے چراغ، بے سمت اور فانی ہیں، لیکن جب خودی بیدار ہو جائے اور اس میں سوز پیدا ہو جائے تو وہ انسان اور اقوام کو جاودانی حیات عطا کرتی ہے۔
نظم: جاوید کے نام
کتاب: بال جبریل
#KhudiSeries
![]()

