خون سے پہچان ہو جاتی ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی نوکری کی طلب لیے حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو اس نے جواب دیا: “میں سیاسی ہوں”۔ (یاد رہے، عربی زبان میں “سیاسی” اس شخص کو کہتے ہیں جو افہام و تفہیم سے مسئلے حل کرنے والا معاملہ فہم ہو۔) چونکہ بادشاہ کے پاس پہلے ہی بہت سے سیاستدان موجود تھے، اس نے اجنبی کو شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا، کیونکہ اس عہدے پر مامور شخص حال ہی میں فوت ہو چکا تھا۔ کچھ دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے بارے میں دریافت کیا، تو اس نے کہا: “یہ نسلی نہیں ہے۔” بادشاہ کو حیرت ہوئی، اس نے فوری طور پر اصطبل کے پُرانے سائیس کو جنگل سے بلوایا۔ سائیس نے بتایا کہ گھوڑا تو اصیل ہے، مگر اس کی ماں پیدائش کے فوراً بعد مر گئی تھی، جس کے بعد یہ گھوڑا ایک گائے کا دودھ پی کر پلا بڑھا۔ بادشاہ نے اس نئے انچارج سے پوچھا: “تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ گھوڑا نسلی نہیں ہے؟” اس نے جواب دیا: “کیونکہ جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائے کی طرح سر نیچے جھکا لیتا ہے، جبکہ اصیل گھوڑا گھاس منہ میں لیتے وقت گردن بلند رکھتا ہے۔” بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا اور اسے انعام کے طور پر اناج، گھی، بھنے ہوئے دنبے، اور پرندوں کا اعلیٰ گوشت بھجوا دیا۔ ساتھ ہی اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا۔
چند دن بعد بادشاہ نے اپنے مصاحب سے ملکہ کے بارے میں رائے طلب کی۔ مصاحب نے کہا: “طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، مگر وہ شہزادی نہیں ہیں۔” بادشاہ کے ہوش اُڑ گئے۔ اس نے اپنی ساس کو بلوا کر حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ ساس نے بتایا: “یہ سچ ہے، تمہارے والد نے تمہارے پیدا ہوتے ہی ہماری بیٹی سے رشتہ مانگا تھا، مگر وہ بچی تو چھ ماہ کی عمر میں ہی فوت ہو گئی۔ تعلقات بچانے کے لیے ہم نے کسی اور کی بچی کو اپنی بیٹی بنا کر تمہارے ساتھ بیاہ دیا۔” بادشاہ نے مصاحب سے پوچھا: “تمہیں کیسے پتا چلا؟” مصاحب نے کہا: “ملکہ کا خادموں سے رویہ نہایت سخت اور جاہلانہ ہے، جبکہ شاہی خاندان کی عورتیں رحم دل اور شائستہ ہوتی ہیں۔” بادشاہ اس کی دانائی سے مزید متاثر ہوا اور اسے بھیڑ بکریاں، اناج، اور دیگر انعامات عطا کیے اور دربار میں اہم منصب دے دیا۔
کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا: “اب اپنے بارے میں بتاؤ۔” مصاحب نے جان کی امان چاہی، بادشاہ نے وعدہ کیا۔ تب مصاحب نے کہا: “نہ تو آپ بادشاہ زادے ہیں، نہ ہی آپ کا طرزِ عمل بادشاہوں جیسا ہے۔” بادشاہ کو غصہ تو آیا، مگر وعدہ دے چکا تھا، اس لیے وہ فوراً اپنی والدہ کے محل پہنچا۔ والدہ نے سچ بیان کیا: “ہماری کوئی اولاد نہ تھی، تمہیں ایک چرواہے سے لے کر پالا، تم اسی کے بیٹے ہو۔” بادشاہ نے دوبارہ مصاحب کو بلایا اور پوچھا: “تجھے کیسے پتا چلا؟” مصاحب نے کہا: “بادشاہ جب انعام دیتے ہیں تو ہیرے، موتی، اور جواہرات عطا کرتے ہیں، جبکہ آپ ہمیشہ بھیڑ، بکریاں، اور کھانے پینے کی اشیاء دیتے ہیں۔ یہ انداز کسی چرواہے کے بیٹے کا ہو سکتا ہے، بادشاہ زادے کا نہیں۔”
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عادتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں۔ انسان کا اخلاق، سلوک، اور رویہ اس کے خون اور اصل کی پہچان کرا دیتا ہے۔