Daily Roshni News

خیالات کی دنیا…تحریر۔۔۔طاہر محمود…قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔خیالات کی دنیا۔۔۔تحریر۔۔۔طاہر محمود) سے بننے والا اس کا گھر مضبوط اور آدمی کا گھر کنکریٹ، ریت اور سریوں سے بن کر بھی کم زور ہوسکتا ہے۔ قانون منکشف ہوتا ہے کہ شے کی مضبوطی کا تعلق فرماں برداری اور نافرمانی کے نظام سے ہے ۔ دھاتیں اور دیگر عناصر چاہے کتنے مضبوط ہوں بکھر جاتے ہیں، حفاظت کرنے والی ذات اللہ ہے۔

محدود ذ ہن لامحدود خیال کو محدود د یکھتا ہے۔ وجہ وہ چھلنی ہے جس میں ہم ذہنی رجحان اور دل چسپی کے مطابق خیالات کو چھانتے ہیں ۔ مثلاً مجھے خیال آیا کہ میں گھر کے سامنے چھوٹے نالے پر محلہ والوں کی مدد سے عارضی پل بنالوں تا کہ گاڑی گزرنے میں آسانی ہو۔ پھر سوچا کہ نالا میرے گھر کے سامنے ہے لہذا پل کا سائز اتنا ہو کہ میری گاڑی آرام سے گزر جائے ۔ پل اپنے وقت پر بن جائے گا اور اس پر سے بے شمار گاڑیاں گزریں گی لیکن اپنے فائدہ کو اہمیت دے کر ذہن کو محدود کر دیا۔ ہم خیال کو جتنا محدود کرتے ہیں، وسائل بھی اسی مناسبت سے محدود ہو جاتے ہیں کیوں کہ خیالات کی گاڑی میں ہی وسائل لوڈ ہو کر آتے ہیں۔

 غلطی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ ہم مخصوص طرز فکر کے تحت چیزوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرتے  ہیں جس کی وجہ سے اصل خیال پس پردہ چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ہمارا ذ ہن لے لیتا ہے۔ مثال تعلیمی میدان میں شعبہ کے انتخاب کا وقت آیا تو رجحان کی مناسبت سے پہلا خیال ہوٹل مینجمنٹ کا آیا۔ ارد گرد ماحول کو دیکھا تو لوگوں نے کہا کہ کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی جائے کیوں کہ کمپیوٹر کا دور ہے۔ فلاں دوست کو سافٹ ویئر کمپنی میں اچھے عہدہ پر ملازمت مل گئی اور کئی رشتے دار ہیں جو کمپیوٹر میں اعلی تعلیم حاصل کر کے مختلف کمپنیوں میں اچھے عہدوں پر فائز ہیں لہذا ہوٹل مینیجمنٹ کا خیال درست نہیں۔ میں نے رجحان کے برعکس داخلہ لے لیا۔ نتیجہ میں توجہ متاثر ہوئی اور کمپیوٹر کے شعبہ میں اعلیٰ کارکردگی نہ دکھا سکا۔ جب تعلیم کے بجائے میرا مقصد روزگار بن گیا تو نمبر بھی کم آئے ۔ اگر میں نے پہلے خیال پر عمل کیا ہوتا تو ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم میں یک سوئی ہوتی اور نتیجہ قابل قدر نکلتا ۔

ارادہ میں تبدیلی کیسے آئی؟ خیال نے راہ نمائی کی کہ فلاں شعبہ میں داخلہ لو۔ جب تعلیم کو کاروبار کے تناظر میں دیکھا تو پہلے خیال کو رد کر دیا ۔ خیال میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور پہلے خیال میں موجود وسائل تبدیل ہو گئے ۔ چوں کہ ارادہ کر کے ارادہ تبدیل کرنے کی عادت ہے اس لئے ذہن کمپیوٹر سائنس میں بھی نہیں رکا۔ ڈگری مل گئی مگر قابلیت نمایاں نہیں ہوئی۔  ابدال حق قلندر بابا اولیا فرماتے ہیں،اراده در اصل شکل و صورت رکھتا ہے۔ جس مطلب کا ارادہ ہو، مطلب اپنی پوری شکل و صورت کے ساتھ ارادہ میں مرکوز ہونا ضروری ہے۔ بغیر شکل و صورت کے کسی ارادہ کو ارادہ نہیں کہتے ۔“

ارادہ کی تکمیل کے وسائل ارادہ کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور نیت کے ساتھ وسائل متحرک ہو جاتے ہیں۔ ارادہ بدل دیں ، پہلی تحریک رک جائے گی۔ اب دوسرے ارادہ کے تحت وسائل متحرک ہوں گے ۔ عمل کو تکمیل سے پہلے بدل دیا جائے تو کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ وسائل کا ئنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور لہروں یا برقی تاروں کے ذریعے ذہن سے منسلک ہیں۔ آدمی مطالعہ کا شوقین ہے اور ادب سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو قانون قدرت کے مطابق دنیا میں جتنی لائبریریاں ہیں اور جہاں بھی کتابیں موجود ہیں، سب باطنی طور پر متحرک ہو جاتی ہیں اور برقی لہروں کے ذریعے راغب کرتی ہیں۔ عزت ، دولت ، شہرت، محبت ، نفرت ، حسد سب فرد کے نیت کرتے ہی جہاں پر ہیں متحرک ہو جاتے ہیں اور اس ذہن سے رجوع کرتے ہیں جو ان میں کشش محسوس کرتا ہے۔

ہم خیال کو جس طرح قبول کرتے ہیں اسی کے ت مطابق وسائل ربط میں آتے ہیں۔ وسائل مخلوق ہیں قبہ اور ان کی ذمہ داری دوسری مخلوقات کو ارادہ کی تکمیل میں مدد کرنا ہے۔ اس لئے خیال کو اصل رخ میں قبول کرنے کی کوشش کریں۔

اورفرد پریشان ہے اور تنگ آکر دریا میں چھلانگ لگانا چاہتا ہے۔ یہ خیال کے برخلاف عمل ہے کیوں کہ خیال جس مقام سے آتا ہے وہاں خیر اور بھلائی ہے۔ پریشان ذہن کو خیال مسخ کرنے کی عادت ہے اس لئے وہ نے پریشان ہے اور خود کو ختم کرنے کی نہج پر پہنچ گیا ہے۔ خیال کو خالص قبول کرنے کا راستہ ضمیر کی آواز پر عمل ہے۔ ضمیر قدرت کی ودیعت کردہ چھلنی ہے جو صحیح اور غلط کو الگ کرتی ہے اور فورا مطلع کر دیتی ہے۔ ضمیر کی چھاؤں میں خیال کو قبول کرنے سے شک دور ہوتا ہے اور ارادہ میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے جتنی ” سوا لاکھ بار ارادہ کو دہرانے سے بنتی ہے۔ ارادہ ضمیر کے برخلاف ہو تو سوالاکھ باردہرانے سے بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ضمیر کی آواز کو صحیح طور پر قبول کرنے کے لئے توجہ اور یک سوئی درکار ہے اور یک سوئی کی بہترین مشق ” مراقبہ ” ہے۔ در پیش مسائل کی وجہ خیال کو نظر انداز کر کے خواہش کے مطابق معنی پہنانا ہے۔ خیال جس مقام سے آتا ہے وہ ایک ہے ۔ معنی پہنانے والے ذہن کثرت میں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خواہشات میں تصادم ہے اورتصادم نے بے سکونی پھیلا دی ہے۔ خالص خیال کوقبول کیا جائے تو ہم سکون سے واقف ہو جائیں گے۔

ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading