فرید بازار سے سودا سلف لانے جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا ایک ٹرک سامنے سے آرہا ہے اور ایک بچہ سڑک پار کرنے کے لیے دوڑ رہا ہے۔ فرید فوراً بچے کی جان بچانے کے لیے اس کے پیچھے دوڑا۔ بدقسمتی سے ٹرک ڈرائیور رفتار قابو میں نہ رکھ سکا اور جیسے ہی فرید بچے تک پہنچا، ٹرک اس کے بالکل قریب آ چکا تھا۔ فرید کے پاس بچے کو بچانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، اس نے چھلانگ مار کر بچے کو ایک طرف دھکیل دیا مگر خود کو نہ بچا سکا اور ٹرک کے نیچے آ گیا۔
لوگ فوراً اسے اسپتال لے گئے جبکہ ٹرک والا موقع سے فرار ہو گیا۔ جب فرید کے گھر والوں کو اطلاع ملی تو اس کی چاروں بیٹیاں رونے لگیں، دو تو صدمے سے بے ہوش ہو گئیں۔ ان بچیوں کی ماں پانچویں بچی کو جنم دیتے ہی دنیا سے رخصت ہو چکی تھی اور فرید ہی ان کا واحد سہارا تھا۔ سب سے بڑی بیٹی زاہدہ اُس وقت صرف بارہ برس کی تھی۔ ماں کے انتقال کے بعد تعلیم کا خواب چکنا چور ہو گیا اور ان کی زندگی باپ کے سہارے گزرتی رہی۔ آج باپ کے ساتھ پیش آنے والے حادثے نے ان کا آخری سہارا بھی چھین لیا۔ زاہدہ نے خود کو سنبھالا اور اسپتال پہنچی، جہاں اس نے باپ کو دیکھا جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ فرید نے بیٹی کا ہاتھ تھاما اور سرہانے کھڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا، پھر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
وہ شخص غالباً فرید کا دوست تھا جو اطلاع ملنے پر اسپتال پہنچا تھا۔ زاہدہ باپ کے اشارے کا مطلب نہ سمجھ سکی اور وہیں بیٹھ کر روتی رہی۔ اس شخص، جس کا نام عاقب خان تھا، نے زاہدہ کو تسلی دی اور کہا کہ وہ ضروری کارروائی کے بعد فرید کی میت گھر لے آئے گا۔ عاقب خان کا ڈرائیور زاہدہ کو اس کے گھر چھوڑ کر واپس اسپتال چلا گیا۔ زاہدہ نے گھر پہنچتے ہی اپنی چھوٹی بہنوں کو گلے لگایا اور انھیں بتایا کہ ان کے ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ سن کر بچیوں کا رونا مزید تیز ہو گیا کیونکہ ان کے باپ کی میت تھوڑی ہی دیر بعد گھر لائی جانے والی تھی۔
جن کا کوئی بھائی نہ ہو، ماں باپ نہ ہوں، اس معاشرے میں ان لڑکیوں کا اکیلے رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ چار کم عمر لڑکیاں بغیر والدین کے رہتی ہیں۔ معاشرے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں؛ کچھ نیک نیت، کچھ برے خیال کے حامل، اور کچھ ایسے بد نظر کہ ان کی نگاہوں میں ہمیشہ خباثت جھلکتی ہے۔ جب بھی یہ لڑکیاں مجبوری کے تحت گھر سے باہر نکلتیں، آوارہ لڑکے ان کے پیچھے لگ جاتے۔ زاہدہ کو اس بات کا شدت سے احساس تھا، اسی لیے جب اس کے ماموں ملنے آئے تو اس نے روتے ہوئے ان سے التجا کی کہ یا تو وہ ان کے گھر آ کر ساتھ رہیں یا ان لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں، کیونکہ بغیر مرد کے ان کا اکیلے گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ ماموں نے جب لڑکیوں کو اس قدر پریشان اور بے بسی کی حالت میں دیکھا، تو ان کا دل بھر آیا۔ کہنے لگے، بیٹی! ہم تو اپنا گھر چھوڑ کر نہیں آ سکتے، تم ہی تیاری کرو، ہم تمہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ یوں زاہدہ اور اس کی بہنیں ماموں کے ساتھ ان کے گھر چلی گئیں۔
ایک دن وہاں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ ماموں نے سب کو بیٹھک میں بٹھایا اور زاہدہ سے چائے لانے کو کہا۔ جب زاہدہ چائے بنا کر لے کر آئی تو دیکھا کہ وہاں ایک بڑی عمر کی عورت اور مرد بیٹھے ہیں۔ عورت کا رویہ قدرے سرد مہر تھا، مگر مرد خوش دکھائی دے رہا تھا۔ زاہدہ نے غور سے دیکھا تو پہچان گئی کہ یہ وہی شخص ہے جو اس کے والد کے آخری وقت میں ان کے پاس موجود تھا۔ وہ سلام کر کے بیٹھ گئی اور چائے پیالیوں میں ڈالنے لگی۔ تب اس شخص نے زاہدہ سے مخاطب ہو کر کہا، بیٹی، میں تمہارے والد کا پرانا دوست ہوں۔ ہم دونوں ایک ہی گاؤں کے رہنے والے تھے اور گاؤں کے اسکول میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ایک بار میں اپنے بیٹے نوید کے ساتھ دریا پر گیا۔ تمہارے والد فرید بھی وہاں سیر کے لیے آیا ہوا تھا۔ میں کنارے پر ایک پتھر پر کھڑا اپنے بیٹے کے ساتھ دریا کا نظارہ کر رہا تھا کہ اچانک نوید کا پاؤں پھسل گیا۔ تمہارا والد کچھ دور کھڑا تھا، مگر جیسے ہی اس نے نوید کو دریا میں گرتے دیکھا، فوراً چھلانگ لگا دی۔
وہ ایک ماہر تیراک تھا، اس نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔ میں نے فرید کو گلے لگا لیا اور یوں بچپن کی دوستی پھر سے تازہ ہو گئی۔ مڈل کے بعد میں شہر تعلیم کے لیے چلا گیا اور فرید کو اس کے والد نے ایک ٹیلر ماسٹر کی دکان پر بٹھا دیا تاکہ وہ کوئی ہنر سیکھ لے۔ بعد ازاں میری اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن روانگی ہوئی، وہاں تعلیم مکمل ہوتے ہی میری شادی ہو گئی اور میں مستقل وہیں مقیم ہو گیا۔ پچیس برس بعد جب وطن واپس آیا، تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ دوست سے یوں ملاقات ہو گی۔ تمہارے والد نے اپنے آخری لمحے میں تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دینے کا اشارہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں تم لوگوں کی خبرگیری کروں۔ یہ ان کا مجھ پر آخری اعتماد تھا۔ اب میں تم سب کا خیال رکھوں گا۔
زاہدہ باپ کو یاد کر کے رونے لگی۔ عاقب خان اسے یہ سب کہانی سنا رہے تھے اور ساتھ یہ بھی بتا رہے تھے کہ وہ لندن سے اس کے والد کو باقاعدگی سے خط لکھتے تھے۔ فرید کبھی جواب دیتے اور کبھی نہیں، مگر انہوں نے خط لکھنے کا سلسلہ بند نہ کیا۔ اب زاہدہ کو یاد آیا کہ اس کے والد اپنے ایک خاص دوست کا ذکر اکثر کرتے تھے، اور انہی کے خطوط سے الماری بھری ہوئی تھی۔ زاہدہ اپنے والد سے کہتی، ابا ، آپ اپنے دوست کو جواب کیوں نہیں دیتے؟ تو وہ کہتے، بیٹی، خط بھیجنے میں پیسے بہت لگتے ہیں۔ شاید وہ اپنی غربت کے حالات اپنے امیر دوست کو بتانا نہیں چاہتے تھے۔ جب عاقب خان وطن واپس آئے اور دریا کے کنارے دونوں دوست اچانک آمنے سامنے آ گئے، تو فرید کے دل میں بھی بچپن کی دوستی کا وہ پاکیزہ احساس جاگ اٹھا، جب وہ دونوں بستہ گلے میں ڈالے اسکول ساتھ جاتے تھے۔ حالانکہ عاقب ایک زمیندار کا بیٹا تھا اور فرید ایک غریب کسان کا، مگر ان دنوں گاؤں میں امیری غریبی کا فرق کچھ خاص نہیں تھا۔
آج عاقب زاہدہ کا رشتہ لے کر آئے تھے۔ ماموں نے فوراً ہاں کر دی۔ سب لوگ حیران تھے کہ ایک درزی کی بیٹی کی شادی اتنے امیر گھرانے میں کیسے ہو گئی۔ کوئی رشک کر رہا تھا، تو کوئی حیرت کا اظہار کر رہا تھا، مگر مقدر میں کیا لکھا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ زاہدہ اگرچہ ایک بڑے گھر کی بہو بن کر آئی، لیکن اس کے ساتھ اس کی عزتِ نفس کی پامالی کا سامان بھی آ گیا۔ اس کی ساس نے پہلے دن سے ہی اسے قبول نہ کیا۔ (مکمل کہانی اپلوڈ کر دی ہے لنک وزٹ کریں پلیز شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2025/07/darzi-ki-beti.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
#urduline #urdushayari #urdupoetry #quotes #kahani #kahaniyan #stories #everyone #urduquotes #Qissa