Daily Roshni News

دستِ غیب

دستِ غیب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مویشی منڈی اپنے عروج پر تھی۔ ہر طرف جانوروں کی ڈکرانے کی آوازیں، دھول، مٹی اور پسینے کی ملی جلی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ بیوپاریوں کے شور، خریداروں کے تکرار، اور گندگی سے لبریز فضا میں زندگی کا ایک الگ ہی میلہ لگا ہوا تھا۔

اسی ہجوم میں ایک کم سن، ڈری سہمی لڑکی جانے کہاں سے بھٹک کر آ گئی تھی۔ چہرے پر خوف کے سائے، ہاتھوں میں بسکٹ اور ٹافیوں کے چند چھوٹے پیکٹ، اور بدن پر پرانی میلی چادر جو سر سے بار بار کھسک رہی تھی۔

وہ بھیڑ میں خود کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی مگر سینکڑوں آنکھیں اسے چیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

ہر طرف مرد ہی مرد، جن کی نظریں ننگی حوس میں لپٹی ہوئی تھیں۔

لڑکی کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ قدم کانپنے لگے۔ دل جیسے کسی نامعلوم خطرے کی آہٹ محسوس کر رہا ہو۔

سامان تو کوئی خرید نہیں رہا تھا، مگر نازیبا جملے، غلیظ قہقہے اور گندی باتیں اس پر پتھر بن کر برس رہی تھیں۔

اسے لگا کہ منڈی میں بندھے جانور تو خاموش اور بے ضرر ہیں، اصل حیوان تو یہ انسان ہیں۔

چودھری سالار کا نام پورے ضلع میں گونجتا تھا۔

کہا جاتا تھا کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالے تو سونا بن جائے۔

سینکڑوں ایکڑ زمینوں، درجنوں مویشی منڈیوں اور بے شمار کاروباروں کا مالک، مگر دولت کے ساتھ اس کی شہرت میں رنگین مزاجی کا رنگ بھی نمایاں تھا۔

شراب، مجرے، اور عورتیں اس کے شوق تھے۔

اکثر راتوں کو ڈھولک کی تھاپ اور قہقہوں کے شور میں وہ اپنی محفلوں کو جگمگاتا رہتا۔

آج منڈی کی رونق دیکھ کر چودھری سالار کے چہرے پر غرور بھری مسکراہٹ تھی۔

وہ مخصوص منجے پر بیٹھا حقے کا کش لگا رہا تھا، گنے کے رس کی طرح گاڑھے دھوئیں کے بادل چھوڑتا ہوا۔

دماغ میں شام کی مستی گھوم رہی تھی — لاہور میں ہونے والی ڈانس پارٹی، شراب کی بوتلیں، اور وہ مشہور رقاصہ جس کے رقص کے چرچے دور دور تک تھے۔

اسی خیال میں گم تھا کہ اچانک اس کی نگاہ اُس لڑکی پر جا ٹھہری —

پھٹا دوپٹہ، دھول میں اٹے پاؤں، اور خوف سے کانپتے ہاتھ۔

ایک لمحے کو چودھری کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔

اس نے اپنے ملازم کو اشارہ کیا:

“جا، اُس لڑکی کو بلا کے لا۔”

لوگوں کے لبوں پر فوراً پھسپھسیاں دوڑ گئیں:

“آج تو چودھری کی چاندی ہے!”

“وہ لڑکی بچ نہیں پائے گی…”

“چودھری صاحب کی نگاہ جس پر پڑ جائے، وہ قسمت والی یا بدنصیب… بس ایک رات کی کہانی بن جاتی ہے!”

لڑکی سہمی ہوئی چودھری کے منجھے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

“اے لڑکی، یہاں کیا کرنے آئی ہو؟”

آواز میں رعب تھا مگر آنکھوں میں عجیب سا ٹھہراؤ۔

لڑکی کے ہونٹ کانپے، الفاظ گلے میں اٹک گئے۔

آنکھوں سے دو موٹے آنسو ٹپک کر مٹی میں جذب ہو گئے۔

روتی ہوئی آہستہ آہستہ بولی:

“میرے ابا یہاں پھیری لگاتے تھے، بسکٹ اور پاپڑ بیچتے تھے… تین دن پہلے وہ چل بسے… امی بیمار ہیں… چار بہنیں ہیں، کوئی کمانے والا نہیں… سوچا کچھ بیچ کر دوائی لے جاؤں…”

چودھری سالار جیسے پتھر بن گیا۔

اس نے آہستہ سے اپنی واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا، نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکالی، گنے بغیر لڑکی کے ہاتھ میں تھما دی۔

پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا:

“کاکی، یہاں سے ابھی چلی جا… یہ جگہ تیرے لیے نہیں ہے۔

یہ لوگ… اچھے نہیں۔”

لڑکی کے قدم کانپ رہے تھے، مگر دل میں ایک سکون اتر آیا۔

وہ نوٹ سینے سے لگا کر آہستہ آہستہ ہجوم میں گم ہو گئی۔

چودھری کچھ دیر خاموش بیٹھا حقے کی نلکی میں راکھ جھاڑتا رہا۔

پھر ایک ملازم نے ہنستے ہوئے کہا:

“چودھری صاحب، ہم سمجھے آج وہ لڑکی آپ کے ڈیرے پر جائے گی۔

چودھری نے سر اٹھایا، آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی:

“بکواس بند کر… ہاں میں برا ہوں، گناہگار ہوں،

لیکن کبھی کسی کی مجبوری کا سودا نہیں کیا۔

شاید… یہی وہ نیکی تھی جس نے میرے ہاتھ کی مٹی کو سونا بنایا تھا۔”

صلہ رحمی الله کے نزدیک سب سے پیاری چیز ہے. الله تعالہ فرماتے ہیں تم میرے مخلوق پہ رحم کرو میں تم پہ رحم کروں گا.

🥀🥀🥀🥀🥀🥀

#everyonefollowers

Loading