Daily Roshni News

دسمبر ی بخار۔۔۔تحریر۔۔۔۔سبطین ضیا رضوی۔

قلم شگوفیاں

دسمبر ی بخار

تحریر۔۔۔۔سبطین ضیا رضوی۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔سبطین ضیارضوی)ویسے تو سال کے بارہ مہینے ہیں۔ کسی بھی مہینے پر بھر پور انداز میں لکھنے کو بہت سے موضوعات ہیں اور بہت سا رولا ڈالا جاسکتا ہے بلکہ باقاعدہ  ڈھنڈورا بھی  پیٹا جاسکتا ہے کیونکہ جب   کسی  میرے جیسےادیب کی قلم میں روانی آتی ہے تو  پھر وہ آوارہ اونٹ کی طرح   اچھی خاصی ہی چل جاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے چار موسم ہیں اور  ہر موسم  کی اپنی ” وکھری وکھری” ہی  مصیبت  ہوتی ہے۔ اب دیکھو نا ،  گرمی میں پسینہ چوٹی سے شروع ہوتا ہے اور ایڑی سے نکلتا ہے ۔ سورج الگ سے کباب بنوانے کی پیشکش کرتا ہے اور سر سے شعلے نکلتے ہیں۔۔ایسے میں بندہ برف خریدتے ہوۓ یہ نہیں پوچھتا کہ بابا اس کے لیئے پانی کون سے” چھپڑ “سے لیتے ہو  ،بس زرا ٹھنڈا  ہونا چاہیے۔ ساتھ میں  جب بارشیں ہوتی ہیں تو کیچڑ اورگندے جوہڑ وں پر مچھروں کی بھرمار، سڑکوں پر تالاب کے مناظر اور اس کے بیچوں بیچ پڑے ” کھڈوں اور ٹوۓ ٹبوں  ”  میں “ٹوسٹ” کرتی ہوئی ٹریفک  کے ساتھ ساتھ شہر کا نظامِ نکاسی برباد اور گٹر ابلتے ہیں۔ مکھیاں الگ سے “واری صدقے” ہوتی ہیں ۔دریاؤں اور موسمی ندی نالوں میں طغیانی آتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شاعر ساون کے لاکھوں گیت لکھتا ہے تو لکھے  ، پر کوئی زرا ان مسائل میں گھرے لوگوں کا بھی اندازہ  توکرے  ، ان کے ساتھ دو بول ہمدردی کے بولےاوران کی حالت ِ زار پر ایک آدھ نوحہ ہی لکھ دے جن کے لیئے یہ بارش رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی بنتی ہیں ۔ اوپر سے حبس کی وجہ سےانسان  اپنےہی بدن کی بدبو  سےتنگ ہوتاہے۔ ایسے میں پوڈر  ،کریم ، سینٹ ،سپرے اور پرفیوم  والوں کی خوب چاندی ہوتی ہے۔  اب زرا سردیوں    میں آ کر دیکھیں تو نزلہ ، زکام ،کھانسی ، کہ جنہیں غریبوں کی بیماریاں کہا جاتا ہے اور ساتھ میں کڑاکے کی سردی اور  برف باری کی وجہ سے پہاڑی علاقوں کے رستے بھی بند ہو  جاتے ہیں۔یوں ساجنوں  اور سجنیوں میں موسمیاتی دوریاں بھی پڑ جاتی ہیں  جنہیں شاعری میں خوب کیش کروایا جاتا ہے۔اور اردو کا سخنی ادب خوب پروان چڑھتا ہے۔ بڑے شہروں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی پاداش میں  کھلی گیس سونے کے بھاؤ جبکہ لکڑی کے ریٹ آسمان پر  ہوتے ہیں۔ خشک لکڑیاں  تو جیسے ستاروں سے اتار کر لانا ہوتی ہیں یا پھر گویامریخ  سے چُننا پڑتی ہیں ۔ دھوئیں سے آنکھ میں کاجل مفت میں بھرنےلگتاہے۔اوپر سے ٹھنڈ سموگ اور دُھند کے سبب” گڈیوں میں گڈیاں” الگ سے” وجتی” ہیں جبکہ” بِلو  کی ٹور “مفت میں مُنی کی طرح بدنام ہوتی ہے۔بات اگر بہار کی جاۓ تو گو کہ ہر طرف پھول کھلتے ہیں اور خوشبوؤں کا بھی راج ہوتا ہے مگر پولن نے بھی بھر پورگل کھلاۓ ہوتے ہیں۔ الرجی سنٹر میں لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں ۔ اور لوگ اسلام آباد  جیسا خوبصورت شہرچھوڑ کر جنوبی پنجاب کے ریگ زاروں  میں جاۓ پناہ  ڈھوندتے  ہیں اور وہاں جاکر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ پتہ نہیں کس کی مت ماری گئی تھی  جواسے جنگلی شہتوت پر اتنا پیار آیا کہ پورے اسلام آباد کو اس نا ہنجار سے بھر دیا۔ اب اسے جتنا کاٹتے ہیں اتنا ہی زیادہ پھیل رہا ہے۔ اگر ذکر خزاں ہو تو گو گرمی کے بعد سردیوں کی آمد سے موسم میں زرا اعتدال  توآ جاتا ہے۔گو کہ میرا اپنا پسندیدہ مہینہ اکتوبر  اور خزاں ہی ہے مگر جس سے بھی ذکر کروتووہ آگے سے چار سنا ہی دیتا ہے کہ بھئی آپ کو اس میں کیا چارم نظر آیا۔ ہر طرف پیلے پتے لٹک رہے ہیں  جیسے پورا ملک ہی بیماری کی لپیٹ میں ہو۔ بارشوں کی عدم موجودگی میں پوری فضا دھول سے اٹی پڑی ہوتی ہے ۔زرا جو جھونکا آیا تو گلی  ،محلہ، سڑک اور صحن میں پتوں کے ڈھیر اور سارا سارا دن جھاڑو مانجا ہاتھ میں ہی رہتا ہے۔ہر طرف ایک افسردگی سی چھائی رہتی ہے۔ اور ایسے میں جب سبزہ  زرد اور ہرے بھرے درخت ٹنڈ منڈ ہونے لگتے ہیں توبلبل بیچارے کو تازہ پھولوں کی سوجھی  اور شاعروں نے قلم سنبھال لیا بلکہ یوں کہو کہ پورا مورچہ ہی سنبھال لیا۔لگے زمین آسمان کے قلابے ملانے اور بلبل کے غم میں ہلکان ہونے، جیسے فرسٹ کزن  ہو اور وہ بھی بستر  ِبیماری پر۔ قصہءِ مختصر ہر موسم اور ہر مہینے کی  ایک الگ خاصیت اور مخصوص کیفیت  ہوتی ہےاور موسمی اعتبار سے اپنے اپنے لچھن ہوتے ہیں۔مگر جب اردو ادب کے ذخیرہ پر نظر پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دسمبر نے ہماری ادبی برادی کا کچھ زیادہ ہی نقصان کیا  ہواہے ۔جسے ہمارا ساگ اور پیاز دسمبر کے اونٹ لٹار گئے ہوں یا ہمارے رشتوں کے ٹوٹنے   ، محبوب  کے روٹھنے اورعاشق و معشوق کے درمیان حائل خلیج میں دسمبر ہی ماموں ، پھپھو یا کیدو کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یا پھر جب  ہمارے آنکھ مٹکے ہوۓ تھے تو شاید بیچ میں یہ دسمبر ہی ضامن پڑا تھا اور اب اپنی بات سے پھر گیا ہے جو ابھی اس کو اتنے کوسنے دیئے جا رہے ہیں۔شاعر لوگوں کے کیا کہنے دنیا جہاں کے سرمائی موسموں کی مشکلات سے بے خبر بند کمرے میں لحاف میں دبکے  دہکتے کوئلوں سے لبریز انگیٹھی  کے قریب  ہاتھوں میں گرما گرم چاۓ یا کافی کا کپ تھامے تخیل کے گھوڑے پر سوار  ذہن میں ایک پر کیف منظر باندھےاور اس منظر میں اپنی  طلسماتی اور خیالی محبوبہ کو غیر حاضر پا کر  دسمبر کے لتے لینے لگا ہے۔جب سے دسمبر آیا ہے بس لگتا ہے  سب دسمبر ی بخار میں مبتلا ہیں۔دسمبر یہ دسمبر وہ  دسمبر ایسا اور ویسا  یوں ہو گیا اور یاں ہو گیا۔ وہ کیوں نہ آیا وہ وہ کیوں چلا گیا وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ دسمبر بیچارہ اس  ساری صورت حال توبہ اور اپنی  کھینچا تانی پر کافی  واویلا کر چکا ہےاور اپنے تئیں بھر پور احتجاج بھی کر چکا ہے۔ ہاں اس  کے احتجاج  کرنےکے مختلف طریقے ہیں جن میں تیز بارشیں، برف باری، بغیر بارش کے خشک سردی ، خارش اور جوئیں سب دسمبر کی دین ہیں۔پر ان  سب کے باوجود شاعر اور ادیب دسمبر کو بھلا کب معاف کرتے ہیں۔ آخر سال خان کے بارہ بیٹوں میں اس کا آخری نمبر ہے۔ چھوٹا ہے اور لاڈلا  بھی ہے ۔ شاید “نکا” دیکھ کراتنے ستم ؟۔اوپر سےاس کے بڑے بھائیوں  اکتوبر اور نومبر کے لاڈ اور بڑی بہنوں جنوری اور فروری کی شہہ نے اسے مزید خود سر کیا ہوا ہے۔اللہ بخشے  پرانے ادیبوں کو جو سب کچھ لکھ جاتے تھے مگر دسمبر کا ذکر نہیں کرتے تھے۔یوں وہ پورا ناول کہانی اور افسانہ لکھ مارتے تھےجس میں دسمبر کی ملی جلی کیفیات کا بھرپور مگر گول مول ذکر ہو تا تھا ۔ سنا ہےعصمت چغتائی کا ایک مشہور افسانہ بھی دسمبر کا شاخسانہ ہے۔

Loading