دشت لوت محض صحرا نہیں
یہ ایک قدرتی تجربہ گاہ بھی ہے ۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایران کے جنوب مشرق میں واقع دشتِ لوت ایک ایسا بے آب و گیاہ ریگستان ہے جسے نہ صرف رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار کیا جاتا ہے، بلکہ اسے دنیا کے گرم ترین مقامات میں سرفہرست مانا گیا ہے۔ 52 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ علاقہ “زمین کا تندور” کہلانے کا حقدار ہے، کیونکہ یہاں درجہ حرارت 70.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے—یہ ریکارڈ ناسا نے 2005 میں اپنے جدید سیٹلائٹ سے حاصل کیا تھا۔
فارسی زبان میں “لوت” یا “لوط” کا مطلب ہوتا ہے: ایسا بنجر اور سنسان میدان جہاں زندگی کا تصور بھی محال ہو۔ لیکن یہ زمین کبھی ایسا نہ تھی—سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ دشتِ لوت لاکھوں کروڑوں سال قبل سمندر کا فرش ہوا کرتا تھا۔ مگر زمین کی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت نے اسے آہستہ آہستہ ابھارا، پانی بخارات بن کر اڑ گیا اور نمک آلود زمین باقی رہ گئی—جس پر اب ریت کے طوفان، چٹیل پہاڑیاں اور آتشفشانی پتھروں کی چادریں بچھ چکی ہیں۔
دشتِ لوت کا ایک علاقہ “گندم بریان” اپنی شدید گرمی کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ یہاں 480 مربع کلومیٹر پر سیاہ آتش فشانی پتھر سورج کی تپش جذب کر کے کوئلے کی طرح دہکنے لگتے ہیں۔ یہ نام شاید اسی لیے پڑا کہ کہا جاتا ہے: اگر یہاں گندم بکھیری جائے تو وہ بغیر آگ کے چند دن میں بھن جائے۔ ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق یہاں کسی پتھر پر انڈہ توڑا جائے تو وہ بھی پک جاتا ہے۔
بحیرۂ عرب اور دیگر سمندری ہواؤں سے محروم، یہ علاقہ قدرتی وینٹیلیشن کے بغیر تند گرمی میں سلگتا ہے۔ یہاں گرمی اس قدر شدید ہوتی ہے کہ زمین پر چند قدم چلنا بھی انسان کو جھلسا سکتا ہے—جیسے لوہے کے تپتے توے پر چلنا۔
اگرچہ امریکی ڈیتھ ویلی، لیبیا کا الکفرا اور ایتھوپیا کا ڈیناکل ڈیپریشن اکثر گرم ترین مقامات کی فہرست میں آتے ہیں، لیکن سائنسی شواہد کے مطابق درجہ حرارت کے حوالے سے دشتِ لوت سب سے آگے نکل چکا ہے۔
دشتِ لوت محض ایک صحرا نہیں—یہ زمین کے ماضی، اس کی اندرونی حرکات، اور موسم کی انتہاؤں کو سمجھنے کے لیے ایک قدرتی تجربہ گاہ بھی ہے۔