دنیا کا آخری بھوکا
تحریر۔۔۔منشاء یاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ دنیا کا آخری بھوکا۔۔۔ تحریر۔۔۔منشاء یاد)میں نے بازار کے اس حصے میں جہاں تھوڑی دیر پہلے اسے روتا چھوڑ گیا تھا پہنچ کر گاڑی روکی۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، میرا خیال تھا وہ یہیں کہیں آتی جاتی کاروں کے گرد منڈلاتا ہو گا۔ لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ میرے دل کو دھچکا سا لگا۔ میری پشیمانی کیسے دور ہو گی۔
میں نے بازار میں گھوم پھر کر اسے تلاش کرنا شروع کر دیا، لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا، پھر مجھے خیال آیا کہ ضرور وہ کہیں کسی ریستوران میں کھا پی رہا ہو گا۔ اگر میں اسے کھاتا پیتا دیکھ لوں مجھے کس قدر سکون ملے گا۔ دل میں چبھی ہوئی پھانس نکل جائے گی۔
ہوٹلوں اور ریستورانوں میں طرح طرح کے لوگ بیٹھے کھا پی رہی تھے۔ گپ شپ کر رہے تھے۔ میرے ذہن میں اس کی شکل نہیں تھی لیکن اتنا یاد تھا کہ اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی تھی اور وہ پچپن ساٹھ برس کا ایک دیہاتی بوڑھا تھا، جس کے پاس تین ٹوکریاں تھیں۔ میں نے ایک ہوٹل میں جا کر اسے تلاش کیا۔ لیکن وہ کہیں نہ ملا، کئی بار ارادہ کیا کہ لوٹ جاؤں مگر مجھے اپنی طبیعت کا حال معلوم تھا، ذرا سی الجھن بھی ہو تو جب تک قابو نہ پا لوں اس کا حل نہ سوچ لوں چین نہیں آتا۔ میں نے اسے فٹ پاتھوں اور ملحقہ پارکوں میں سوئے یا سوتے جاگتے لوگوں میں بھی تلاش کیا۔ پھر قریبی مسجدوں میں جا کر دیکھا۔ رات کے بارہ بج گئے مگر اس کا کہیں دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ناکام واپس لوٹ آؤں اور رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہوں۔
تو کیا وہ سچ مچ بھوکا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پئے سو گیا سویا کہاں ہو گا۔ خالی پیٹ نیند کہاں آتی ہے۔ بھرے پڑے شہر میں بھوکا رہ کر کیا سوچتا ہو گا، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ لذیذ کیک پیسٹریوں سے بھری بیکریوں، خوش ذائقہ مٹھائیوں سے اٹی مٹھائی کی دکانوں، اناج سے بھرے گوداموں اور خوش رنگ پھولوں سے آراستہ فروٹ شاپس کے سامنے یا کہیں آس پاس آدمی بھوکا پڑا ہو۔
رات بھر عجیب واہیات اور مکروہ خواب دکھائی دیتے رہے، لیکن کبھی میں دیکھتا، میں جس شخص کی برائیاں بیان کر رہا ہوں وہ عین میرے پیچھے کھڑا سن رہا ہے۔
کبھی دیکھتا کہ میں نے ایک بچے سے ٹافی چھین کر ہڑپ لی ہے اور وہ میرے سامنے زار و قطار رو رہا تھا۔ بار بار آنکھ کھلتی رہی، عجیب ندامت بھری رات تھی۔
صبح دفتر جاتے ہوئے میں نے بازار کا ایک لمبا چکر لگایا۔ فٹ پاتھوں، دکانوں کے تھڑوں اور ملحقہ پارکوں پر نظر دوڑائی، دفتر میں بھی بار بار مجھے اس کا خیال آتا رہا۔ دفتر سے واپسی پر بھی میں نے بازار کا اس خیال سے چکر لگایا کہ شاید وہ کہیں دکھائی دے جائے اور میں اسے روپیہ دو روپیہ دے کر اس خلش سے نجات حاصل کر سکوں جو مجھے گذشتہ شب سے اندر ہی اندر بے چین کر رہی تھی، لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ تاہم مجھے توقع تھی کہ شام کے بعد وہ ضرور اسی جگہ پر مل جائے گا جہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی۔
میں نے شام ہونے کا بیتابی سے انتظار کیا اور کھانا کھائے بغیر ٹہلنے کے بہانے بازار کی طرف چل دیا میں بڑی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد گذشتہ رات والی جگہ کا چکر لگاتا مگر وہ نہ ملا، مجھے اس پر غصہ آنے لگا۔
بدبخت تیری اتنی عمر گزر گئی لیکن تجھے خبر نہ ہوئی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، آخر تو اتنا عرصہ کرتا کیا رہا ہے؟ کہ اس زمانے میں بھی بھوکا سوتا ہے۔ جب اس موضوع پر شاعر نظمیں کہنا اور افسانہ نگار کہانیاں لکھنا ترک کر چکے ہیں، تیری زندگی میں کتنے ملک آزاد ہوئے کتنی نئی قومیں اور ملک معرض وجود میں آئے۔ کیا کیا ایجادات ہوئیں۔ کتنے علمی اور سائنسی انکشافات ہوئے۔ ٹیکنالوجی نے انقلاب برپا کیا۔ کلرک وزیر سفیر اور سپاہی جرنیل کرنیل بن گئے۔ دینو میراثی کا لڑکا پٹواری بن گیا۔۔۔۔رحموں نائی کا بیٹا کلاس ون افسر لگ گیا۔ وسیم خان راج گیری کرتا تھا اب اے کیٹیگری گورنمنٹ کنٹریکٹر ہے جمیل صاحب پروف ریڈنگ کرتے تھے اب پرنٹنگ پریس کے مالک ہیں۔۔۔ بشیر ریڑھی لگاتا تھا اب ہول سیل فروٹ مرچنٹ ہے۔
بدبخت بوڑھے صرف تو رہ گیا، اتنی تبدیلیاں آئیں اور تجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ ٹھیکے، پرمٹ، لائسنس، نیلام، الاٹمنٹیں، وظیفے۔۔۔ پتہ نہیں تو کس کھوہ میں چھپا رہ گیا۔ تو نے اپنے پہاڑوں سے اتر کر کبھی دیکھا ہی نہیں۔
تو نے دھوپ میں بال سفید کئے۔ ساری دنیا آگے نکل گئی صرف تم پیچھے رہ گئے۔ میرا سکون غارت کرنے کے لئے۔۔۔ لیکن تم اگر بھوک سے مرتے ہو تو مرو۔ میری بلا سے، میری کیا ذمہ داری ہے اور کیا مجھ ا کیلے کی ذمہ داری ہے۔
میں نے اسے اگلے روز اس سے اگلے روز بھی تلاش کیا۔ یقیناً وہ اپنے گھر واپس چلا گیا ہو گا۔ یہ سوچ کر میں دل کو تسلی دینا چاہتا تھا لیکن ایک بوجھ سا دل میں ہر وقت دل پر لئے پھرتا تھا۔ ایک بے چینی سی تھی۔ ایک خلش تھی جو مجھے بے چین کرتی رہتی تھی۔
پھر ایک روز میں نے اخبار میں ایک خبر پڑھی۔ ایک نامعلوم بوڑھا بس کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا اور حالانکہ خبر میں ٹوکریوں کا ذکر نہیں تھا۔ لیکن میں نے یقین کر لینے میں عافیت سمجھی کہ وہ وہی بوڑھا تھا۔ مجھے دکھ ضرور ہوا۔ لیکن اس رات میں چین اور سکون کی نیند سویا جیسے آخری بھوکا آدمی دنیا سے اٹھ گیا ہو۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ