Daily Roshni News

دنیا کھیتی ہے۔۔۔انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ

دنیا کھیتی ہے
انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔دنیا کھیتی ہے۔۔۔انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ)سطحی ذہن عزت کو دولت سے وابستہ کرتا ہے کہ دولت ہونے سے عزت ملتی ہے۔ آدمی مالی لحاظ سے کم ز در ہو یا طاقت ور، رشتے دولت کے تر از و پرتو لتا ہے۔
عزت کیا ہے؟
کیا عزت کا تعلق دولت سے ہے۔؟
خود ساختہ معیار پر رتبہ کا تعین پست ذہنی ہے!
عزت و جاہ کا خوش نما لباس زیب تن کرنے کے لئے ہم دولت جمع کرتے ہیں۔ دولت کی تشہیر کے لئے عالی شان محلات کھڑے کرتے ہیں۔ گھروں کو اس طرح سجاتے ہیں کہ ہم انہیں دیکھ کر احساس برتری اور لوگ انہیں دیکھ کر احساس کم تری میں مبتلا ہو جائیں۔ قرض لے کر بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں۔ کیا دولت سے عزت و توقیر کا حصول خود فریبی نہیں؟
فراعین مصر کے مقبرے، شداد و نمرود کے محلات اور قارون کے مدفون خزانے بتا رہے ہیں کہ دولت نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی ۔ دولت صرف ان سے وفا کرتی ہے جواسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور ہر زمانہ میں دولت کے لو استعمال کو ہمارے اوپر آشکار کرتی ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کا ماضی ہر دور میں اقوام کے لئے آئینہ ہے۔ شان وشوکت اور شاہی دبدبہ کے حامل بادشاہوں کو مادر وطن میں قبر نصیب نہیں ہوئی۔ سونے چاندی کے ذخیروں اور جواہرات نے امیروں کے ساتھ وفا نہیں کی مٹی نے انہیں مٹی بنادیا۔


مٹی خود کو پہچانتی ہے۔ ایک ایک ذرہ کو کوکھ سے وابستہ رکھتی ہے۔ مٹی کو اگر فرد مان لیا جائے تو مٹی سے بنی ہوئی ہر چیز مٹی کے اعضا ہیں۔ تانبا، لوہا، آکسیجن، نائٹروجن، ہائیڈ روجن ،ہیلیم ، کاربن، یورینیم، چاندی، سونا وغیرہ مٹی کے وہ اعضا ہیں جن پر مٹی کا تشخص قائم ہے۔ آدمی کا جسم بھی مٹی سے بنا ہوا ہے لیکن آدمی چوں کہ اللہ تعالیٰ کی امانت کا امین ہے اس لئے مٹی آدمی کو دوسرے اعضا کے مقابلہ میں اپنا قلب سمجھتی ہے اور جب قلب متاثر ہوتا ہے تو جسم ناکارہ ہو جاتا ہے۔ مفلوج اور نا کا رہ جسم زمین پر بوجھ ہے۔
کون نہیں جانتا کہ آدمی پچاس کمروں کا مکان بنالے لیکن سوئے گا وہ ایک چار پائی کی جگہ ۔ چاہے تو ہوس زر میں سونے چاندی (مٹی کے ذرات ) سے خزانے بھر لے لیکن پیٹ دو روٹی سے بھرتا ہے۔ ماحول کو مصنوعی روشنی اور خوش بوؤں سے معطر کر لیا جائے مگر یہ آدمی کے اندر کی سڑاند کا نعم البدل نہیں ۔
زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہے اور صاف ستھرا رکھتی ہے ۔ جب اولاد تعفن سے نہیں نکلنا چاہتی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے اور اس ادبار کی وجہ سے آدمی گھناؤنا اور ناسور زدہ ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی شخص کے لئے اس سے بڑا اور درد ناک عذاب کوئی نہیں ۔


اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے ، ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔“ (التوبہ: ۳۴)

صدیوں سے زمین پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہیں کہ زندگی کے ادوار – زمانہ کے نشیب و فراز اور سائنسی ایجادات زمین کے پور سینہ میں محفوظ ہیں۔ زمین جانتی ہے کہ کتنی تہذیبوں نے بر اس کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور پھر یہ تہذیبیں زمین دوز ہو کر صفحہ ہستی سے غائب ہو گئیں۔
خلا کے پار آسمان کی وسعتوں میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ زمین کے باسیوں کا اپنی ذات سے فرار اور اعما منفی طرز عمل دیکھ کر نیلے پر بت پر جھل مل کرتے ستاروں کی شمع امید کی لو مدھم پڑ گئی ہے۔ اشرف المخلوقات ہے ۔ ہونے کا دعوی کرنے والا آدمی کیا ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بدتر زندگی نہیں گزار رہا ؟ حقیقت یہ ہے
کہ فی الوقت جو سکون بلی اور بکری کو حاصل ہے، اس کا عشر عشیر بھی آدمی کو میسر نہیں ۔ زمین کا ظاہری جسم اور اس جسم میں نشو ونما پانے والی ہر شے مٹی ہے۔ زمین قدرت نے اتنا سخت نہیں بنادیا که آدم زاد اس پر چل نہ سکے۔ اتنا رم نہیں بنایا کہ آدم زاد کے پیر زمین میں ھنس جائیں۔ اسے زمین پر تصرف کا اختیار ہے ۔ لاکھوں کروڑوں سال پہلے کے آدم کی طرح آج بھی آدم زاد زمین کے سینہ پر کھیتی باڑی میں مصروف ہے اور زمین کے سینہ پر ہل چلا کر گھاؤ ڈال رہا ہے۔ کھیتی کا ہر جز و آدم کی طرح مٹی ہے اور جو کچھ آدمی ہوتا ہے، اس کا بیج بھی مٹی ہے۔
آدمی جانتا اور کہتا ہے کہ زمین پر زندگی کا وقفہ محدود ہے لیکن اس کا عمل قول اور مشاہدہ کے خلاف ہے۔ وہ پوری زندگی ان خطوط پر گزارتا ہے جو قانون فطرت کے برعکس ہے۔ تخریب کا نام آدمی نے ترقی رکھ دیا ہے۔ نوع آدم قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کی امین ہے لیکن اس نے ان صلاحیتوں کو حرص و ہوس، خود غرضی، انا پرستی اور خود نمائی جیسے جذبات کی تسکین کے لئے اپنی ذات تک محدود کر دیا ہے، جانتے ہوئے کہ فانی دنیا کے اعمال بھی فانی ہیں۔ اگر اعمال میں تعمیر ہے تو اعمال یہاں اور آخرت میں جزا ہیں ۔ اگر اعمال میں تخریب ہے تو اس دنیا اور آخرت میں سزا ہے۔ کانٹے بونے والا کانٹے کاٹتا ہے اور تعمیری ذہن فلاح پاتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading