Daily Roshni News

دو امریکی خلا باز آٹھ دن کے لیے خلا میں گئے لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے انھیں وہاں آٹھ ماہ تک رہنا پڑ رہا ہے۔

دو امریکی خلا باز آٹھ دن کے لیے خلا میں گئے لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے انھیں وہاں آٹھ ماہ تک رہنا پڑ رہا ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہم پاکستانی اور انڈین سنیتا ولیمز کی صحت کی خرابی کا بہت سنتے ہیں۔ اور یہ بھی سوچتے ہیں کہ ان کا وہاں علاج کیسے ہوتا ہوگا۔ بی بی سی کی اس پوسٹ میں یہی بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی خلا میں  بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کیسے ہو گا، کیا وہاں کوئی ڈاکٹر ہے؟ اور وہاں ایک روبوٹ بھی بطور سرجن تعینات کیے جانے کے امکان ہیں۔

دو امریکی خلا باز سُنیتا ولیمز اور بیری ولمور آٹھ دن کے لیے خلا میں گئے لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے انھیں وہاں آٹھ ماہ تک رہنا پڑ رہا ہے۔

بوئنگ سٹار لائنر کے ساتھ تکنیکی مسائل کے بعد امریکی خلائی ادارہ ناسا انھیں اب سپیس ایکس کے خلائی جہاز ڈریگن سے زمین پر واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپیس ایکس ڈریگن خلائی جہاز پہلے بھی خلا میں جا چکا ہے۔

تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈین نژاد خلاباز سُنیتا ولیمز جو اس وقت بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر قیام پزیر ہیں ان کا وزن کم ہو رہا ہے اور وہ بیمار ہو رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں جاری ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا وزن کافی کم ہو چکا ہے۔

تاہم ناسا کے حکام نے ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ خلائی سٹیشن پر موجود خلابازوں کا ان کے تفویض کردہ فلائٹ سرجن باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں اور ان کی صحت اچھی ہے۔

لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی ہنگامی صورت حال پیش آ جائے جس میں فوری طبی امداد کی ضرورت ہو تو خلابازوں کا علاج کون کرے گا؟ کیا وہاں ڈاکٹر ہوں گے؟ انھیں کس قسم کی طبی سہولیات میسر ہیں؟

اگر خلاباز کی طبیعت اچانک خراب ہو جائے تو ان کا علاج کیسے ہوتا ہے؟

پچھلے کچھ عرصے سے امریکی خلائی ادارہ ناسا انسانوں کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن بھیج رہا ہے تاکہ وہاں رہنے کے امکانات کو جانچا جا سکے اور تحقیق کی جا سکے۔

خلا میں خلابازوں کی مدد کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ خاص طور پر جب ان کی صحت بگڑ جاتی ہے۔

امریکی ایرو سپیس اور دفاعی کمپنی نارتھروپ گرومین کارپوریشن نے اپنے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ کس طرح خلا میں خلابازوں کو فوری طبی سہولیات کی ضرورت پڑتی ہے اور انھیں یہ کس طرح فراہم کی جا سکتی ہیں۔

خلابازوں کی صحت کی نگرانی کے لیے ناسا وقتاً فوقتاً ٹیلی میڈیسن سسٹم کی پیروی کرتا ہے جس سے مرض کا علاج ہوتا ہے۔ لیکن در اصل خلاباز ہی اس کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔

خلابازوں کو خلا میں بھیجنے سے پہلے انھیں خلائی سٹیشن پر استعمال ہونے والے تمام طبی آلات کی ضروری تربیت دی جاتی ہے اور انھیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔

عملے کو 40 گھنٹے تک کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

ایک تربیت یافتہ شخص کسی بھی طبی ہنگامی صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔ تربیت یافتہ فرد سر درد، کمر درد، جلد کے مسائل، جلد کی جلن، دانتوں کے مسائل وغیرہ کا علاج کر سکتا ہے لیکن اگر صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوں تو کیا ہو گا؟

بی بی سی کی ہیلتھ رپورٹر فلیپا روکسبی کی سنہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے پاس صرف ایک بنیادی طبی کٹ ہے۔ اس میں ایک فرسٹ ایڈ کٹ، صحت کی صورتحال پر ایک کتاب، ایک ڈی فبریلیٹر (ایک برقی چارج والا آلہ جو دل کی دھڑکن کو معمول پر لاتا ہے) شامل ہے۔ دیگر اشیا میں پورٹیبل الٹراساؤنڈ، آنکھوں کی جانچ کا آلہ وغیرہ شامل ہیں۔

یہ الٹراساؤنڈ مشین خلابازوں کے جسم کے اندر موجود چیزوں کی واضح تصاویر فراہم کر سکتی ہے تاہم الٹراساؤنڈ کے ذریعے لی گئی تصاویر زمین پر موجود طبی ٹیم کو بھیجی جاتی ہیں۔

زمین سے نگرانی

خلا باز کے ساتھ مسئلہ کیا ہے اور ان کا علاج کیا اور کیسے کیا جائے، اس کا تعین زمین پر موجود طبی ٹیم کرتی ہے۔

ناسا زمین سے خلابازوں کی صحت کی نگرانی کرتا ہے۔ ان کے پاس فلائٹ سرجن بھی ہیں۔

زمین پر رہتے ہوئے خلابازوں کی نگرانی ایرو سپیس میڈیسن کے ماہرین کرتے ہیں۔

ان کی جسمانی ورزش اور طبی تربیت کو یہ ماہرین مہینوں تک مانیٹر کرتے ہیں۔

اس دوران وہ خلابازوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔ خلا میں جاتے وقت ان کی صحت کی جانچ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

خلابازوں کی ہر ہفتے فلائٹ سرجن کے ساتھ ذاتی طبی کانفرنسں بھی ہوتی ہے۔ وہ زمین پر ایک کنٹرول سینٹر سے خلابازوں کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ناسا خلابازوں کے بائیو میٹرک ڈیٹا اور الٹراساؤنڈ کے نتائج بھی جمع کرتا ہے۔ یہ مشینوں کے دوران خلابازوں کی صحت کا تجزیہ کرنے میں بہت مددگار ہے۔

ہیلن شرمین ایک برطانوی خلاباز تھیں۔ سنہ 1991 میں انھوں نے سوویت خلائی سٹیشن پر آٹھ دن گزارے۔

ان کا کہنا ہے کہ: ’جو لوگ طویل عرصے تک خلائی سٹیشن پر رہتے ہیں انھیں دن میں دو گھنٹے ورزش کرنی چاہیے۔ صفر کشش ثقل میں رہنے سے ہڈیوں کی کمزوری کو روکنے کے لیے تین مختلف مشینیں انھیں ورزش کرنے میں مدد کرتی ہیں۔‘

’ورزش کے آلے (اے آر ای ڈی) کو پٹھوں کو مضبوط کرنے کی مشقوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خلائی سٹیشنوں پر رہنے والے ٹریڈمل بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پٹی کو سخت رکھا جاتا ہے تاکہ یہ خلا میں اِدھر اُدھر نہ ہو۔ ایک سائیکل ایرگومیٹر بھی استعمال کی جاتی ہے۔‘

خلائی امراض کی ماہر ڈاکٹر ورشا جین نے ناسا کے ساتھ خلا میں خواتین کی صحت پر کام کیا ہے۔

اس سے قبل انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ خلا میں خواتین کے بیمار ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زمین پر واپس آنے کے بعد مردوں کے بیمار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

روبوٹک سرجری

عملے میں ایک قابل ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے جو زمین سے ہزاروں میل دور طبی ہنگامی صورت حال میں مدد کر سکے۔

لیکن اگر خلا میں اچانک سرجری کی ضرورت پڑ جائے تو کیا ہو گا؟ کیا یہ ممکن ہے؟

اس کے لیے ناسا روبوٹ کو خلائی سرجن میں تبدیل کر رہا ہے، جسے زمین سے چلایا جا سکے گا اور طبی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک چھوٹے سرجیکل روبوٹ نے رواں سال فروری میں صفر کشش ثقل میں سرجری کا پہلا ڈیمو مکمل کیا۔ اس روبوٹ کا نام سپیس میرا ہے۔

ناسا کی جانب سے اٹھایا گیا یہ اہم قدم نہ صرف انسانوں کو طویل عرصے تک خلا میں کامیابی کے ساتھ سفر کرنے کے قابل بنائے گا بلکہ وہاں بغیر کسی پریشانی کے سرجیکل ایمرجنسی آپریشن بھی کیے جا سکیں گے۔

توقع ہے کہ اسے دور دراز کے علاقوں میں استعمال کیا جا سکے گا جہاں زمین پر بھی طبی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔

خلا میں خلابازوں کی ہڈیوں کو نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مائیکرو گریویٹی میں طویل عرصے تک رہنے کی وجہ سے ان کی ہڈیوں کے سخت ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

ہڈیوں اور پٹھوں میں کمزوری

خلا میں کشش ثقل کی کمی پٹھوں اور ہڈیوں کی کثافت کو کم کرتی ہے۔ خلا میں ہڈیوں کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ چونکہ ان پر زمین جیسا دباؤ نہیں ہوتا اس لیے ان کی کثافت کم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ہڈیاں نازک ہوجاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

کشش ثقل کے بغیر عضلات تیزی سے کمزور ہو جاتے ہیں۔ زمین کے مقابلے میں خلا میں ہڈیوں سے کیلشیم جیسے معدنیات تیزی سے کم ہو جاتے ہیں جس سے ہڈیوں کی کثافت اور پٹھوں کی طاقت کم ہوتی جاتی ہے۔

انڈیا کے شہر حیدرآباد کے یشودا ہسپتال کے سینیئر آرتھوپیڈک اور جوائنٹ ریپلیسمنٹ سرجن ڈاکٹر آر اے پورن چندر تیجاشوی نے بی بی سی کو بتایا تھا: ہمارے جسم میں خلیے اور عضلات کشش ثقل کی وجہ سے مسلسل ری سائیکل ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ چھ ماہ سے زیادہ کشش ثقل کے اندر نہ رہیں تو ہڈیاں اور پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور ہڈیوں کی کثافت 25-30 فیصد اور پٹھوں کی کثافت 50 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے خلابازوں کے لیے کچھ سرگرمیاں کرنا مشکل ہو سکتا ہے جیسے کہ لینڈنگ کے بعد ماڈیول سے باہر نکلنا۔ اس اثر کو کم کرنے کے لیے وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں اور اپنے پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر تیجسوی نے کہا تھا کہ اگر خلاباز چھ ماہ سے زیادہ خلا میں رہتے ہیں تو زمین پر واپس آنے پر ان کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ان کی ہڈیوں کی کثافت کم ہونے سے کمر درد جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے نمٹنے اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے انھیں تین ماہ تک سپلیمنٹس دیے جاتے ہیں۔

Loading