دیواریں ۔۔برصغیر ۔۔ روہنگیا
تحریر۔۔۔ وہارا امباکر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ دیواریں ۔۔برصغیر ۔۔ روہنگیا۔۔۔ تحریر۔۔۔ وہارا امباکر )بنگلہ دیش کے دو ہمسائے ہیں۔ اس کی تقریباً تمام سرحد انڈیا کے ساتھ ہے جبکہ ایک چھوٹا سا حصہ (160 میل) میانمار کے ساتھ ہے اور یہاں پر بنگلہ دیش کو ایک اور طرح کا مسئلہ ہے۔ یہ روہنگیا کا علاقہ ہے۔
بدھ اکثریت کے ملک میں مسلمان اقلیت ہیں۔ ساڑھے سات لاکھ مسلمان اراکان کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ نسلی طور پر یہ جنوبی بنگلہ دیش میں چٹاگانگ میں رہنے والوں سے قریب تر ہیں اور میانمار میں مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں میانمار کی طرف سے شہری کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ تحریک پاکستان کے وقت میں شمالی اراکان مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ اس علاقے کو پاکستان کا حصہ بنایا جائے یا آزاد رکھا جائے۔ ایسا نہیں ہوا اور یہ برما کی مرکزی حکومت کے زیرِ عتاب رہے۔
میانمار میں طویل عرصہ فوجی آمریت رہی ہے اور عسکری قیادت کی طرف سے ریاستی جبر کا زیادہ نشانہ اقلیتی قومیتیں بنی ہیں۔ اس کا بدترین پہلو فوجی اور مذہبی شدت پسندوں کا گٹھ جوڑ ہے جس کی بڑی مثال اراکان کی ریاست ہے، جہاں بدھ شدت پسندوں اور فوج کا نشانہ روہنگیا بنتے رہے ہیں۔
میانمار کی فوجی حکومت نے 1982 میں شہریت کا قانون بنایا جس میں 135 قومیتوں کی فہرست تھی۔ جو لوگ ان قومیتوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے، انہیں شہریت کا حق نہیں دیا گیا۔ اس کا معیار یہ رکھا گیا کہ وہ قومیتیں جو کہ 1823 کے وقت ملک میں نہیں تھیں، وہ ملک کا حصہ نہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب 1823 برٹش اراکان پہنچے تھے۔ میانمار کی سرکاری پوزیشن یہ ہے کہ یہ بنگال سے آنے والے لوگ ہیں جنہیں برٹش اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ برٹش واپس چلے گئے تو انہیں بھی ملک میں مزید رہنے کا حق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ روہنگیا میں یہ لوگ ساتویں صدی سے آبادی ہیں لیکن حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ یہ لوگ میانمار سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ ہی انہیں شہری حقوق حاصل ہیں، نہ سفر کر سکتے ہیں، نہ کاروبار کر سکتے ہیں۔ نہ ہی شادیاں رجسٹر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو۔ ان کے لئے فرار ہو کر جانے کی جگہ بنگلہ دیش ہے کیونکہ انہیں اپنے ملک میں فوج کی طرف سے تشدد، قتل، ریپ اور جبری مشقت کا خطرہ ہے۔ ڈھائی لاکھ لوگ 1990 کی دہائی میں بنگلہ دیش پہنچے۔ ابتدا میں بنگلہ دیش نے انہیں جگہ دی لیکن پھر جب تعداد بڑھنے لگی تو ساتھ ہی پالیسی بھی۔ دسیوں ہزار لوگوں کو واپس زبردستی میانمار بھیجا گیا۔ نئی رجسٹریشن روک دی گئی۔ بنگلہ دیش کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ لاکھوں مزید افراد کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے کمیشن نے میانمار کے جنرلوں سے مطالبہ کیا کہ وہ روہنگیا کو حقوق دیں۔ اس کا باضابطہ طور پر جواب میانمار کی حکومت نے دیا۔ “روہنگیا میانمار کے باشندے نہیں۔ ان کی نسل الگ ہے۔ زبان الگ ہے۔ مذہب الگ ہے۔ یہ اجنبی ہیں”۔ روہنگیا کے خلاف مظالم جاری رہے۔ دیہاتوں کو آگ لگائی گئی۔ مساجد جلائی گئیں۔ اس نے خاص طور پر اس وقت شدت اختیار کر لی جب اگست 2017 میں روہنگیا کی طرف سے بارڈر پولیس پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا۔ چھ لاکھ روہنگیا 2017 کے دوسرے نصف میں نقل مکانی کر رہے تھے۔
اس وقت بنگلہ دیش میں تیرہ لاکھ سے زائد روہنگیا آباد ہیں۔ ان کی بڑی تعداد اقوام متحدہ کے قائم کردہ پناہ گزین کیمپوں میں ہے یا پھر بنگلہ دیش کے ساحل شہر کاکس بازار میں۔ ایک غریب اور گنجان آباد ملک کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ اور چونکہ ان کے پاس کام کرنے کا کوئی قانونی طریقہ نہیں، اس لئے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح بھی زیادہ ہے۔ اس وجہ سے بنگلہ دیش میں اگرچہ روہنگیا سے ہمدردی پائی جاتی ہے لیکن اسکے شہریوں کی طرف سے سرحدی کنٹرول زیادہ سخت کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک اور خوف یہ ہے کہ انتہاپسندی اور دہشتگردی جڑ نہ پکڑ لے۔
بنگلہ دیش مہاجرین کو واپس کرنا چاہتا ہے۔ میانمار انہیں واپس لینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ دو سو سے زیادہ روہنگیا دیہات نذرِ آتش کئے جا چکے ہیں۔
اس مسئلے کا حل فی الوقت موجود نہیں۔ یہ اس علاقے میں کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث رہے گا،
(جاری ہے)
تحریر: وہارا امباکر