ذاتیں کیسے بدلی گئیں؟
تحریر۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذاتیں کیسے بدلی گئیں؟۔۔۔ تحریر۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم)میرا تھیسس یہی ہے کہ پنجاب میں جو اقوام عربوں کے قبائل سے اپنا رشتہ جوڑتی ہیں اصل میں وہ اقوام تھیں جو آریا سے پہلے اس سرزمین پر رہتی تھی اور آریا کے آنے کے بعد ان کو مفتوح کی حیثیث سے نچلے درجے کی اقوام کی حیثیث سے رہنا پڑا تھا لیکن عربوں اور وسط ایشیا سے حملہ آوروں کی آمد کے بعد آریا اقوام کی بالادستی کو نقصان پہنچا تھا وہاں ان اقوام کو بھی موقع ملا کہ وہ اپنا نسلی تعلق عرب کے قبیلوں سے جوڑ دیں چنانچہ یہاں عربوں کے مختلف قبائل سے باقاعدہ شجرہ نسب مرتب کروانے والی اقوام اس عزت و منزلت کی دعویدار ہوئیں جو ان عرب قبائل کو مکہ میں حاصل تھا
اب ان عرب نسلوں کے لوگوں کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنا ڈٰی این اے ٹیسٹ کروائیں اور اپنی اصلیت کا پتہ کروائیں اس قسم کا ایک واقعہ محترمہ
ہما کوکب بخاری صاحبہ کا ہے جنہوں نے امریکہ میں دو مختلف کمپنیوں سے اپنے اجداد کے بارے میں (ancestry) ٹیسٹ کرائے. ( DNA کہہ لیں) تو نتائج کے بارے میں وہ لکھتی ہیں کہ
’’توقع کے عین مطابق میرے نجیب الطرفین جینز کا عرب خون سے دور کا بھی تعلق نہیں نکلا. (حقیقت معلوم ہونے پر مجھے تو بہت خوشی ہوئی ) ہم ہمیشہ سے برصغیر کے لوگ نکلے. اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مختلف لوگوں نے اپنے عربی تعلق کے جو شجرہ نسب بنا رکھے ہیں ان کی عملاً کیا حیثیث ہے۔ عربوں کی طرح یہاں بھی ’’انساب‘‘ یعنی شجروں کا علم بہت عام تھا اوراس پر بے شمار کتب لکھی گئیں کہ کون اصل سید‘ اصل ہاشمی‘ اصل قریشی یا اصل انصاری ہے۔علاقائی سید ( بخاری ، شیرازی وغیرہ ) کی اصطلاحیں بھی یہیں پلی بڑھیں اور نسلی سید ( نقوی، عسکری ، کاظمی وغیرہ) کا رواج بھی انھی علاقوں کا چلن ہے ۔
اب جہاں وقت کے پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر چکا ‘ وہاں اب نہ شجرے رہے اور نہ ہی وہ فن‘ البتہ خود کو عربی النسل کہلوانے کا رواج آج بھی موجود ہے اور سید کا احترام بھی قائم ہے۔
لیکن اب معاملہ شجروں کا نہیں بلکہ DNA (ڈی این اے) تک آن پہنچا ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں یہودیوں نے اس ضمن بہت کام کیا اور اپنے اندر سے خالص بنی اسرائیل کو ڈھونڈا۔ ان کی دو مشہور تحقیق(Skoreki etal)اور (Thomas etal) نے 1997ء اور 1998ء میں کروموسوم کے حوالے سے کیں۔ کیونکہ یہ کروموسوم جنیاتی خصائص کی وجہ سے بتا دیتا ہے کہ کوئی ہزار سال قبل بھی بنی اسرائیل سے تھا یا اس کا جزیرہ نمائے عرب کے افراد سے بھی کوئی تعلق ہے۔ اسی طرح وسطی ایشیاء کے کچھ قبائل پر بھی تحقیق کی گئی۔ لیکن اپنی نوعیت کی واحد تحقیق یونیورسٹی کالج لندن کے تین پروفیسروں نے 2010ء میں برصغیر پاک و ہند کے چند سادات کہلانے والے افراد پر کی۔
یہ تین پروفیسر Belle M.G Thomas ‘ Tudor Parfit اور Saima Shah ہیں۔ جینیاتی علوم اور DNA کے ماہرین کی بنائی ہوئی کسوٹی یہ تھی کہ ’’y‘‘ کروموسوم کی Haplotypeسادات میں اپنے دیگر علاقائی افراد کی نسبت مختلف بھی ہو گی اور اس میں وہ خصوصیات پائی جائیں گی جو عرب ’’y‘‘ کروموسوم میں پائی جاتی ہیں۔ انھوں نے برصغیر پاک و ہند سے 56سید‘ 16قریشی‘ ایک ہاشمی اور پانچ انصاری افراد کے نمونے حاصل کیے۔ یہ وہ لوگ تھے جو برصغیر سے ہجرت کر کے برطانیہ میں آباد ہوئے تھے۔ انھوںنے ان نمونوں کا موازنہ سرزمین عرب میں موجود سات عرب گروہوں کے کروموسوم سے کیا۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ ان سب میں ایک واضح اکثریت بلکہ تقریباً تمام کے تمام ایسے تھے جن کے DNA یا y کرموسوم کے نمونوں میں عربی النسل ہونے کی معدوم سی نشانی بھی نہیں پائی جاتی تھی۔
پیشوں اور ذاتوں کے حوالے سے تھی پنجاب میں بہت سی ذاتیں پیشے کے اعتبار سے اپنی پہچان کرواتی تھی یہ مقامی الاصل ذاتیں تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ہاتھ سے کام کرنے والے پیشے تحقیر کا باعث خیال ہونے لگے حتی کہ لوہار ترکھان اور دھوبی درزی سیالکوٹ میں بہت مضبوط شناختیں تھیں لیکن اب موجودہ نسلیں اس پر شرمندگی محسوس کرتی ہیں اور ان ناموں سے شناخت نہیں کرواتیں کئی پیشوں نے اجتماعی طور پر اپنی ذاتوں کو تبدیل کیا ہے۔
کاپی