Daily Roshni News

ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ۔۔۔قسط نمبر2

ذات کا محاسبہ

تحریر۔۔۔بانو قدسیہ

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ) کرتی گئی۔ ایسی دوڑ جو سیدھی نہیں تھی۔ کئی راستوں، کئی پگڈنڈیوں، کئی سرنگوں میں سے ہو کر نکلتی تھی۔ اپنی دستار بندی میں وہ اتنا مشغول تھا کہ اسے علم نہ ہو سکا کہ کب اس نے اکنامکس کا ایم اے کر لیا۔ کس وقت وہ اعلیٰ قسم کا ڈبیٹر بھی ہو گیا۔ اسے ڈراموں میں بھی ٹرافیاں مل گئیں فوٹوگرافی کے مقابلوں میں بھی اس کی تصویروں کو انعام ملنے لگا۔ کھیلوں میں بھی اس کا نام بولنے لگا۔ مختلف رسالوں میں اس کی غزلیں بھی چھپ چھپاکر قابل ذکر کہلانے لگیں۔ دو ایک اخباروں میں خصوصی نمایندہ بنے رہنے کی وجہ سے اس کی جنرل نالج شہری واقعات کے متعلق بہت بھرپور ہو گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ ان چار سالوں میں اس نے تین چار ادھورے پورے عشق بھی کیے۔ ان محبتوں کا اس کی ذات پر گمبھیر اثر نہ ہو سکا کیونکہ جن لڑکیوں سے اس نے محبت کی تھی ان کے بھی عشق کے علاوہ کئی مشاغل تھے۔ وہ بھی کثیر المقاصد تھیں اور پرانے زمانے کی محبوباؤں کی طرح نہ تو ہار سنگار ہی کو اپنا شعار سمجھتی تھیں نہ ہی اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑی رہتی تھیں۔۔۔ انہیں بھی کالج جانا ہوتا۔ شاپنگ کے لیے وقت نکالنا پڑتا۔ بیوٹی پارلر سے فیشن کرانے ہوتے۔ سہیلیوں مرجانیوں کا دل رکھنے کے لیے لمبے لمبے فون کرنے ہوتے۔ پھر سوشل لائف تھی۔ کچھ ان کے والدین کی کچھ ان کی اپنی۔۔۔ کچھ خواب تھے شادی کے، کچھ خواب تھے Career کے۔۔۔

ان لڑکیوں کے ساتھ جو معاشقے ہوئے ان میں زیادہ وقت فون پر گزرا، یا پھر اچھے ہوٹلوں میں جہاں زبان کے لطف کے ساتھ ساتھ اچھی خوشبوؤں، خوبصورت لباسوں کی چمک کے اردگرد روشنیوں میں ایک دوسرے کے ٹیسٹ پر اعتراضات کے ساتھ ساتھ لڑائیاں بھی ہوئیں۔۔۔ اچھی پیاری پیاری باتیں بھی کی گئیں۔۔۔ اور آخر میں دوستوں کی طرح ایک دوسرے کو الوداع بھی کہا گیا۔

یہ شکم سیر قسم کے عشق نہیں تھے جو دکھ یا سکھ کی آخری سرحدوں کو چھوا کرتے ہیں۔ یہ نورا کشتی سے مشابہ تھے کہ خوب دھپ دھپیا کے بعد اکھاڑے سے بریف میں پسینے میں شرابر نقلی زخموں سے چور نکلے اور اپنے اپنے راستے پر یوں چل دیے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ انہی دنوں جب اس کی شادی کی باتیں کامن ٹاپک تھیں۔ رشتے بھی آ رہے تھے اور افیئرز بھی چل رہے تھے، اس کی پھوپھی زاد بہن کا رشتہ بھی آیا۔ پھوپھی عرصہ سے غیر تھیں۔ وہ اپنے سسرال میں رچ بس گئیں تھیں لیکن ذی شان کی لیاقتوں کے شہرے سن کر وہ بھی امیدوار تھیں کہ ان کی آراء کا کچھ جوڑ توڑ ذی شان سے ہو جائے۔ نام تو پھوپھی زاد کا پتہ نہیں، نسرین آراء یا شمیم آراء یا جہاں آراء تھا لیکن بلاتے سبھی اسے آراء تھے۔ ذی شان کو یہ دھان پان سی لڑکی شروع سے ہی لکڑی چیر نے والا آرا ہی لگی۔

آراء بالکل ماڈرن تھی۔ سطحی طور پر دلچسپ اور اندر سے ٹھس سی لڑکی۔ وہ میک اپ، کپڑے، بی اے کی ڈگری، بیوٹی پارلر، وی سی آر پر دیکھی ہوئی فلموں کا ملغوبہ تھی۔۔ دوچار ملاقاتوں کے بعد کھلتا کہ اس کی پسند ناپسند کچھ ذاتی نہ تھی بلکہ فلم ایکٹرسوں، شاعروں ادیبوں اور کرکٹروں کے انٹرویو پڑھ پڑھ کر مرتب کی گئی تھی۔ ایسے ہی اس کے کچھ نظریات تھے جو ہر گز کسی ذاتی کاوش یا تدبر کانتیجہ نہ تھے بلکہ بڑوں کی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر اخذ کیے گئے تھے۔۔۔ وہ دیکھنے، سننے اور چاہنے میں بڑی جاذب تھی لیکن کچھ ملاقاتوں کے بعد اس روغنی ہانڈی کا اصلی پن ظاہر ہونے لگتا اور لوگ اسے پریشر ککر کے زمانے میں بالکل ویسے ہی بھولتے جیسے وہ روغنی ہانڈی کو بھولتے ہیں۔

ذی شان کو آراء میں واقعی کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن کچھ ملاقاتیں دلچسپ رہیں اور پھر بخار ٹوٹ گیا۔ ان ہی دنوں وہ دوچار نوکریوں کے لیے بھی کوشش کر رہا تھا۔ اباجی کی وہ زمین جو واہگے کے قریب تھی، اس کی د یکھ بھال بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ پھر دو لڑکیاں اور بھی تھیں جن کو کبھی کبھی ڈرائیو پر لے جانا، ہوٹل میں ٹریٹ دینا اس کا سردرد تھا۔ان مشاغل کے علاوہ اس کی امی کی صحت بھی گر رہی تھی اور انہیں جملہ ڈاکٹروں کو دکھانا، دوائیاں لانا، ٹسٹ ایکسرے کرانا، امی کی دلجوئی اور رشتہ دارخواتین کو بیماری کی تفصیلات مہیا کرنا، اس کے مشاغل تھے۔ ان مشاغل کے علاوہ اسے وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ کرکٹ میچ اور ویڈیو فلموں کو دیکھنے کے لیے جب اسے وقت نکالنا پڑتا تو کبھی کبھی بڑی الجھن کا سامنا ہوتا۔

ایسے ہی وقت میں جب وہ وی سی آر پر ایک دھماکے دار ماردھاڑ کی فلم دیکھ رہا تھا اور اس کی امی نے فون پر اپنی نند کو جواب دے دیا تھا تو آراء ان کے گھر آئی۔۔۔ ذی شان کی تمام تر توجہ اس وقت فلم میں تھی لیکن آراء روٹھی ہوئی لگتی تھی۔ وہ اس کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی اور چپ چاپ مار دھاڑ کی فلم دیکھنے لگی۔ ذی شان کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی امی اس رشتے کے لیے انکار کر چکی ہیں۔ اگر اسے معلوم بھی ہوتا تو بھی کچھ اتنی زیادہ حسرت اس کے دل میں جگہ نہ پاتی۔ وہ کبھی کبھی تکلف کے ساتھ آراء کو مسکرا کر دیکھ لیتا اور پھر فلم دیکھنے میں مشغول ہو جاتا۔ آراء کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہ اندر ہی اندر کچھ جملے بنا سنوار رہی تھی۔ کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی۔ کچھ بتانے پر آمادہ تھی۔ جب فلم میں وقفے کے بعد چند اشتہار آنے شروع ہو گئے تو ذی شان نے فراخدلی سے پوچھا،

’’کیا حال ہیں؟‘‘

’’آپ کو معلوم ہوگا، کیا حال ہو سکتے ہیں۔‘‘

’’کیوں خیر تو ہے، بڑی مایوس سی لگتی ہو۔‘‘

آراء کی جانب سے بڑا لمبا خاموشی کا وقفہ آ گیا جس وقفے میں ذی شان نے اپنے اندر ہی اندر آنے والے چار گھنٹوں کا پروگرام مرتب کیا اور وہ روٹ بنایا جس پر کار لے جانے سے اسے دوہرے تہرے پھیرے پڑنے کا احتمال نہ ہو۔

’’مامی جی نے تو انکار کر دیا ہے آج صبح۔‘‘ وہ چند لمحے سمجھ نہ سکا کہ کس لیے کس کو اور کس بات سے مامی جی نے انکار کر دیا ہے۔

’’آپ کو تو شاید کچھ فرق نہ پڑے۔‘‘جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ

Loading