Daily Roshni News

ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ۔۔۔قسط نمبر4

ذات کا محاسبہ

تحریر۔۔۔بانو قدسیہ

قسط نمبر4

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ) ذی شان کے لیے مغرب کی زندگی ایک بڑی بیکار جدوجہد کانام تھا۔ لمبی روٹین جس میں چھٹیاں بھی معمولات کے تحت آتیں لیکن عاتکہ پاکستان واپس نہ جانا چاہتی تھی۔ وہ مغربی طرزمعاشرت میں اپنے لیے ایک چھوٹی سی آزادی، ایک چھوٹا سا مقام حاصل کر چکی تھی۔ اس مقام اور آزادی کے لیے اسے بہت محنت کرنا پڑی تھی لیکن وہ واپس جانا نہیں چاہتی تھی۔ جب ذی شان نے فیصلہ کر لیا کہ وہ پاکستان واپس جا کر بزنس کے امکانات دیکھے گا تو عاتکہ اور بچے پیچھے رہ گئے اور اس سفر کے دوران اسے دوبئی ایئرپورٹ پر آراء ملی۔۔۔ وہ ان بیس سالوں میں بھاری ہوگئی تھی لیکن اس کے چہرے پر بڑی شانتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کسی قسم کے گلے یا شکایتیں نہ تھیں۔ وہ دونوں ڈیوٹی فری شاپ پر سینٹ دیکھ رہے تھے جب اچانک ان کی نظریں ملیں۔

’’ارے تم آراء!‘‘

’’ہائے ذی شان تم تو موٹے ہو رہے ہو اور بال بھی گرے کر لیے ہیں۔‘‘

بڑی مدت کے بعد ملنے سے جو تپاک کی فضا پیدا ہوئی، اس کے تحت وہ دونوں لاؤنچ میں ان ڈور پلانٹر میں گھری ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔

’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘

’’امریکہ۔۔۔ اور تم ذی شان؟‘‘

’’میں وطن۔۔۔ پاکستان۔‘‘

’’امریکہ میں رہتی ہو؟‘‘ بڑی لمبی خاموشی کے بعد ذی شان نے سوال کیا۔۔۔ اسے کچھ دھندلا سا یاد تھاکہ آراء کاشوہر شکاگو میں کیش اینڈ کیری کا بزنس کرتا ہے۔

’’ہاں۔‘‘

’’خوش ہو؟ امریکہ میں۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ جس قدر خوشی ممکن ہے۔‘‘ آراء نے آہستہ سے کہا اور پھر چند ثانیے رک کر بولی، ’’اور تم۔۔۔ تم خوش ہو لندن میں؟‘‘

’’پتہ نہیں۔۔۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔ مجھے لگتا ہے جیسے میری زندگی روٹین کی نذر ہوگئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی دھجیوں میں بکھر گئی ہے۔۔۔ اچھا کھانا، صاف ستھرے گھر میں رہنا، اچھے بازاروں میں گھومنا۔۔۔ ہروقت صفائی کا خیال رکھنا۔۔۔ زندگی کیا یہی کچھ ہے؟ اس کے کیا یہی معنی ہیں؟‘‘ آراء مسکراتی رہی۔ ’’عاتکہ بھی کام ہی کرتی رہی ہے۔ میں بھی الجھا ہی رہا ہوں کاموں میں، حالانکہ اپنے وطن میں ہمیں سب کچھ میسر تھا۔۔۔ اور اس کے بدلے میں مجھے کیا ملا ہے؟ اونچا معیار زندگی۔۔۔ لیکن معیار زندگی ہے کیا چیز؟ اور جو کچھ مجھے ملا ہے، اس کے عوض میں اندر سے اس قدر کیوں بکھر گیا ہوں آراء۔۔۔ تم نے بھی تو ساری عمر امریکہ میں گزاری ہے کیا تم بھی اپنی زندگی کو اتنا بے معنی سمجھتی ہو۔۔۔ کیا تم بھی بکھری ہو اندر سے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’پر میں۔۔۔ میں کیوں اتنا کھوکھلا ہو گیا ہوں؟‘‘

’’اس لیے کہ تم کثیر المقاصد تھے ذی شان۔۔۔ ایک وقت میں کئی آرزوئیں پال کر جینے والا ٹوٹے گانہیں تو اور کیا ہوگا؟‘‘

’’اور تم۔۔۔ تم بھی تو اس بے ہودہ دور کی پیداوار ہو، جب آرزوئیں ہر صبح ککرمتے کے کھیت کی طرح اگتی ہیں، تم نے اپنے آپ کو کیسے بچایا؟‘‘

’’اندر والے کو تو اندر ہی سے بچایا جا سکتا ہے ذی شان۔‘‘

’’پر کیسے۔۔۔؟ کیسے؟‘‘

’’میں نے ساری عمر ایک ارمان پالا۔۔۔ اور اندر صرف اس کو سینچا۔ اس کی خاطر جیتی رہی۔۔۔ باقی ساری Activity تو فروعی تھی۔۔۔ جب خواہش ایک ہو اور اس کی سمت دیکھتے رہیں تو باقی بھاگ دوڑ اندر اثر نہیں کرتی۔‘‘

’’وہ ارمان۔۔۔ پورا ہو گیا تمہارا؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ لیکن خواہش پوری ہو نہ ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے۔ خواہش ایک ہی رہے۔۔۔ ایک وقت میں تو انتشار پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ توڑ پھوڑ نہیں ہوتی۔‘‘

ذی شان نے تعجب سے آراء کو دیکھا اور پھر ڈرتے ڈرتے سوال کیا، ’’اور وہ خواہش۔۔۔ وہ ارمان کیا تھا۔۔۔؟ کیا میں پوچھ سکتا ہوں۔‘‘ آراء نے چند ثانیے ذی شان کو دیکھا جیسے بیس سال پیچھے لوٹ گئی ہو۔ ہلکا سا مسکرائی اور ڈیوٹی فری شاپ کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، ’’ذی شان! اگر تمہیں بھی معلوم نہیں تو بتانے سے فائدہ۔۔۔ اور پھر میں سوچتی ہوں، ارمان تو سینٹ کی بند شیشی کی طرح ہوتا ہے۔ اظہار ہو جائے تو خوشبو اڑ جاتی ہے۔ خواہش باقی نہیں رہتی۔‘‘

آراء ڈیوٹی فری شاپ میں اس طرح داخل ہو گئی جیسے جھومتی جھامتی ہتھنی سندر بن میں غائب ہو جائے۔ ذی شان سوچتا رہا کہ اس آخری عمر میں۔۔۔ اتنے انتشار کے باوجود وہ کس اکلوتی خواہش کے دھاگے میں اپنی تسبیح کے دانے پرو سکتا ہے؟

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ

Loading