ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ذکرِ خفی یاذکر قلب کا مطلب ہے اللہ کو دل کی دھڑکنوں کے ساتھ یاد کرنا۔ ذکرِ قلب کے حامل کو ذاکرِ قلبی کہا جاتا ہے۔ذکر خفی سے مراد وہ ذکر جو مخفی اور پوشیدہ ہو.دل کے اندر اللہ کو یاد کرنا ۔اس سے قلب جاری ہوجاتا ہے۔ قرب الہی اور حضوری ملتی ہے ۔ ذکر اللہ خواہ قلبی ہو یا زبانی انفرادی ہو خواہ اجتماعی، اس کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذکرِ قلبی کی فضیلت بدرجہا ذکرِ زبانی سے زیادہ ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے پر خصوصی فضل فرمانا چاہے اور اپنے حضور اسے خوش قسمت بندہ لکھ دے اور اس کو یہ توفیق دے کہ ہر وقت زبانی ذکر بھی کرتا رہے اور اس کا دل بھی اسی کے موافق ذکر میں شاغل رہے اور اسے زبانی ذکر سے قلبی ذکر کی طرف ترقی حاصل ہو جائے۔ یہاں تک کہ اگر زبان خاموش ہو پھر بھی دل خاموش نہ ہو، اسی کو ذکرِ کثیر کہا جاتا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے۔ لوگ بلند آواز سے اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنے لگے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماا، اے لوگو ! اپنے اوپر نرمی کرو، تم کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کو تم سمیع اور قریب کو پکار رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔
ذکر خفی قرآن میں
ذکر قلب قرآن و حدیث میں موجود ہے
تفسیر خزائن العرفان میں سورۃ البقرہ آیت152 کے ذیل میں لکھا ہے
فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ذکر تین طرح کا ہوتا ہے۔
لسانی
قلبی
بالجوارح۔
ذکر لسانی تسبیح، تقدیس، ثناء وغیرہ بیان کرنا ہے خطبہ توبہ استغفار دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔
ذکر قلبی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا اس کی عظمت و کبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا علما کا استنباط مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔
ذکر بالجوارح یہ ہے کہ اعضاء طاعت الہٰی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لیے سفر کرنا یہ ذکر بالجوارح میں داخل ہے نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے تسبیح و تکبیر ثناء و قراءت تو ذکر لسانی ہے اور خشوع و خضوع اخلاص ذکر قلبی اور قیام، رکوع و سجود وغیرہ ذکر بالجوارح ہے۔
ذکر خفی اور حدیث
امام احمد بن حنبل، ابن حیان، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي
”بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لیے کافی ہو جائے“
اذْكُرُوا اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرًا خَامِلًا» قَالَ: فَقِيلَ: وَمَا الذِّكْرُ الْخَامِلُ؟ قَالَ:الذِّكْرُ الْخَفِيُّ
”اللہ کویاد ذکرخامل کے ساتھ کروپوچھا گیا ذکر خامل کیا ہے فرمایا ذکر خفی ہے“
اصل ذکر اور ذکر حقیقی وہ ذکر قلبی ہے اور ذکر لسانی کواس لیے ذکر کہاجاتا ہے کہ وہ ذکر قلبی کاترجمان ہے اس لے کہ اگر کوئی شخص دل سے کسی کی یاد میں محو ہو اور زبان سے ساکت ہوتو وہ ذاکر سمجھاجاتا ہے لیکن اگر زبان سے کسی کانام لے اور دل میں کوئی اور بساہوا ہو تو حقیقت شناس لوگوں کے نزدیک یاد کرنے والوں میں اس کاشمار نہیں ہو سکتا۔
حدیث شریف میں منقول ہے کہ وہ ذکر خفی ستر درجہ افضل ہے جسے حفظہ (یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے) بھی نہیں سنتے چنانچہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لیے جمع کرے گا تو حفظہ (اعمال لکھنے والے فرشتے) وہ تمام ریکارڈ لے کر حاضر ہوں گے جنہیں انہوں نے اپنی نوشت اور یادداشت میں محفوظ کر رکھا ہو گا وہ تمام ریکارڈ دیکھ کر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندوں کے اعمال میں اور کیا چیز باقی رہ گئی ہے (جو تمہارے اس ریکارڈ میں نہیں ہے) وہ عرض کریں گے! پروردگار!بندوں کے اعمال کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہو اور جو کچھ بھی ہم
ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے۔
یہی وہ ذکر ہے جس کا مرتبہ جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی عمل ہے اور دل کا عمل ہے جو دوسرے اعضاء کے اعمال سے نفس کے لیے زیادہ سخت ہے۔ بلکہ یہی جہاد اکبر ہے