ذہنی دباؤ سے نجات
تحریر۔۔۔زویا علی
(قسط نمبر1)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017
انتخاب۔۔۔ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذہنی دباؤ سے نجات۔۔۔ تحریر۔۔۔زویا علی)کیا آپ ذہنی دباؤ یا مایوسی میں مبتلا ہیں، یا خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں؟
آج کی اس مصروف اور مشینی زندگی میں ہر انسان کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا نظر آتا ہے۔
خوشی اور غم زندگی کا حصہ ہیں ۔ کسی وقت ہم خوش ہوتے ہیں تو کبھی افسردہ ہوتے ہیں ۔ پریشانی انسان کے معمولات پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ڈپریشن انسان کے احساسات پر اثر ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس کے پورے جسم پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ انسان کوئی مشین نہیں ہے جو ایک اس ڈھرے پر چلتی رہتی ہے بلکہ انسان کی زندگی میں جہاں جسم کی اہمیت ہے وہاں جذباتی اور روحانی معاملات بھی اہم ہیں۔ جسم، دماغ اور روح میں جو باہمی تعلق ہے وہ ہماری صحت اور تندرستی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر غذا ہمارے جسم و ذہن دونوں ہی کے لیے مفید یا مضر ہے۔ ورزش سے جسم اور دماغ دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی طرح ہمارے جذباتی اور روحانی معاملات بھی ہمارے جسمانی معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ تین جذباتی کیفیات ہیں جو خاص طور سے ذہن پر اثر انداز ہو کر اسے بیمار بنادیتی ہیں ۔ پہلی کیفیت وہ دباؤ(اسٹر یس) ہے جس پر آپ کا کوئی بس نہ ہو، دوسری کیفیت تنہائی اور تیسری کیفیت وہ ہے جس میں آپ اپنے جذبات کو دباۓ رہیں اور ان کے اظہار سے کترائیں۔
یہ تین جذباتی عوامل ہماری کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ڈپریشن بھی انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق جو لوگ الگ تھلگ رہتے ہیں اور سماجی محرومیوں کی زد میں رہتے ہیں، وہ نسبتاً جلد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ وہ لوگ جو خوش رہتے ہیں، مالی طور پر آسودہ ہوتے ہیں اور انہیں عزیزوں دوستوں کی طرف سے بھی تقویت ملتی رہتی ہے۔ امراض خصوصا ًنفسیاتی امراض میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں۔ آج کل اکثر لوگ ذہنی دباؤ میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ اس سے صحت کے کئی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص طویل عرصے تک اسٹر یس، ڈپریشن، مصائب اور جذباتی ہیجان کا سامنا کرتا رہے تو سب سے زیادہ اثر اس کی قوت مدافعت پر پڑتا ہے۔ اس کے مدافعتی خلیوں کی تعداد اور فعالیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ ایک مرض نہیں بلکہ کئی امراض کی جڑ ہے۔
موٹاپا: ذہنی دباؤ وزن کے بڑھنے کا باعث بنتاہے۔ ایسی صورت میں کھانا تو کم کھایا جاتا ہے لیکن اسٹریس کے ہار مون بھی فیٹ کے نشوز بناتے ہیں جو پیٹ کے بڑھنے کا باعث بنتے ہیں۔ امراض قلب، ذہنی دباؤ کا امراض قلب سے بھی تعلق ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ ایسی نوکری کرتے ہیں جہاں ذہنی دباؤ زیادہ ہو، ان میں قوت فیصلہ کی کمی ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں میں دل کے دورے کا 23فیصد زیادہ امکان بڑھ جاتا ہے۔
بے خوابی: حد سے زیادہ ذہنی و باؤ بےخوابی کا باعث بنتا ہے ۔ اس طرح زیادہ عرصے تک شدید ذہنی دباؤ کبھی نیند میں خلل پیدا کر تا ہے۔
مایگرین : ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والے کیمیکل سر درد اور م ایگرین کا باعث بنتے ہیں۔ اسٹریس سے پٹھوں میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے جو مائیگرین کے درد کو اور بڑھادیتا ہے۔ یادداشت: ذہنی دباؤ سے بہنے والے ہارمونز دماغی صلاحیت میں رکاوٹ بنتے ہیں بہت زیادہ ذہنی دباؤ دماغ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں جس سے سوچنے کی صلاحیت اور یادداشت میں کمی ہو جاتی ہے۔
جلد:جن لوگوں کو چہرے کے مہاسوں سے واسطہ رہتا ہے وہ اس بات کو تصدیق کریں گے کہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کیل مہاسوں کا باعث بنتا ہے۔تحقیق سے یہ ثابت ہواہے کہ ایسے طالب علموں کو مہاسے زیادہ نکلتے ہیں۔
بال جھڑنا: بہت زیادہ ذہنی دباو بالوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ اور پریشانی ایسی بیداری پیدا کردیتی ہے، جس میں گنج پن ہو جانے کے بعد بال دوبارہ نہیں نکلتے اس کے علاوہ بالوں کا رنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
حمل: روز مرہ کی پریشانیاں حمل پر اثر انداز نہیں ہوتیں لیکن شدید ذہنی دباؤ یا کوئی صدمہ وقت سے پہلے ولادت کا باعث بنتا ہے ۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ذہنی دباؤ دوران حمل بچے کے دماغ پر اثر ڈالتا ہے ۔ ذہنی دباؤ حاملہ ہونے کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
ہاضمه: سینے کی جلن، معدے کی سوزش ، مروڑ اور دست آنا یہ سب بھی اکثر ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ خاص طور پر پیٹ کی بیماریاں جس میں پیٹ درد اور قبض کی شکایت اور ڈائریا شامل ہیں، شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہو جاتی ہیں۔ بلڈ پریشر: ذہنی دباؤ بلڈ پریشر کو بڑھاتی ہے ذہنی دباؤ کی وجہ سے خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں۔ لیکن یہ اثرات ذہنی دباؤ کے ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔
بلڈ شوگر: ذہنی دباو بلڈ شوگر کو بڑھاتا ہے۔ ذیابیطس کی دوسری قسم میں ذہنی دباؤ میں شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ذہنی دباو سر درد، کمر درد، شوگر، موٹاپے ، دل کی بیماریوں اور کینسر جیسی خطرناک بیماریاں پیدا کر سکتا ہے۔
ذہنی دباؤ پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر مینی کا کہنا تھا کہ ورزش، مراقبہ ، یوگا، گھر میں اشیا کی ترتیب اور کھانے پینے کے شیڈول کو ذرا سا تبدیل کر کے ذہنی دباؤسے بچاجاسکتاہے۔
ورزش ناصرف پر سکون رکھتی ہے بلکہ موٹاپے کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ یو گا اور مراقبے کو بھی شامل کر لیا جائے تو مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اناج کا استعمال، چینی اور کاربوہائیڈریٹ سے پر ہیز دباؤ کو دور رکھنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔
دوسری اہم چیز جسے عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ہے گھر کی ترتیب کیونکہ مصروف ترین زندگی میں اگر اشیا اپنی جگہ پر نہ ملیں تو یہ بھی ذہنی دباؤ کو بڑھا دیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اپنے گھر خاص طور پر باورچی خانہ، داخلی راستہ، باتھ روم اور کمروں کو اچھی طرح ترتیب دیں اور اس بات کو یقینی بتائیں کہ ہر چیز نشان دہی کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہو تا کہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی چیز کو تلاش کرنے میں مشکل نہ ہو، اپنی شاپنگ، صفائی، لانڈری اور کھانے پینے کا ہفتہ وار شیڈول بنائیں اور پھر اس سے
متعلق سوچنا چھوڑ دیں۔
تیسری انتہائی اہم بات یہ کہ جب آپ گھر آئیں تو دن بھر کیا ہوا ہے اس کو ایک طرف چھوڑ کر ایک پرسکون اور پیار بھری شام کو انجوائے کریں۔
ذیل میں ہم ذہنی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ماہرین کے تجویز کردہ مختصر اور آسان حل پیش کررہے ہیں، جنہیں اختیار کر کے آپ خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
صحت بخش غذا کھائیے
امریکا کی یونیورسٹی آف ورجینیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دودھ کو وہی میں تبدیل کرنے والا بیکٹر یا ذہنی تناو سے کمی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن اور اسٹریس سے نجات پانے کے لیے مہنگی ادویات کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا حل صرف ایک پیالہ دہی میں بھی موجود ہے۔
فائبر والی غذا اور قدرتی طریقوں سے کاشت کی ہوئی غذا لیں۔ جس میں پھل، سبزیاں، دلیے، دالیں اور پھلیاں زیادہ ہوں جبکہ شکر، نمک، چکنائی، گوشت، چکنائی سے بنی اشیاء، اور بازار کے تیار شدہ کھانے کم ہوں۔
زیادہ مقدار میں چائے کافی اور کولڈ ڈرنکس بھی ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتے ہیں ایسے مشروب کم مقدار میں استعمال کیجئے۔ کافی اور چائے کے بجائے پانی اور سبز چائے پیجئے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ زود۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2017