رحمانی طرز فکر
تحریر۔۔۔۔زاہد تبسم (MSCزولوجی)
(قسط نمبر 2)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔رحمانی طرز فکر۔۔۔تحریر۔۔۔زاہد تبسم) نہیں ہے بلکہ اپنے سامنے موجود کامیابی کے بے شمار امکانات سے کسی ایک کو دلچسپی اور صلاحیتوں کی بنا پر اختیار کرنا ہے۔
مائنڈ سائنسز کے رہنمائی صلاحیت کے حصول کے لئے ایک باطنی وجود کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ہرفردکو اپنے انر میں موجود ایک ریسیور بیا تر جمان کا ادراک ضرور ہوتا ہے جو ذہنی ساخت کے مطابق خیالات کا مفہوم سامنے لے آتا ہے۔
NLP کے کوآرڈینیٹرز کے مطابق ابتدائی مشقوں – میں اس ترجمان کو کچھ دیر کے لئے صرف Positive ہم Convertor یا روشن خیال بنادیا جائے تو منفی خیالات کو Re – Direct کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل میں اسی طرح ہے جیسے ہم دھوپ سے چھاؤں میں جاتے ہیں یعنی آمادگی اور ارادہ کا استعمال…..اس مشن کی تکرار سد سے ہماراشعور صرف خیر پرمبنی سوچ کوقبول کرتا ہے۔
جب ہم شعوری طور پر ذہن کو اچھے اور پاکیزہ خیالات فراہم کرتے ہیں تو تحقیقی پر وسس کے تحت طرزعمل شعور میں نیکی کے تصورات منعکس اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ اور وہ ایک ماتحت کی طرح ایسی فائلز اور رپورٹس تیار کرتا ہے جن سے ہمیں حوصلہ افزاء اور خوش گوار اعداد وشمار ملتے ہیں۔اس سلسلے میں خوردتر عینی سے مدد لی جاتی ہے اس کے گہرے حصے کومحسوں کر یں اور یکسوئی کے ساتھ اپنے ذہن کو اچھائی کی طرف آمادہ کر یں خاص طور پرتیل کے ذریع مثلا کوئی نا گوار واقعہ ہمارے اندر منفی سوچ میں اضافہ کر سکتا ہے کیوں کہ شعور کی عادت ہے کہ وہ محفوظ معلومات کو دہراتا رہتا ہے خاص طور پر ناپسندیدہ واقعات کو …………. اس کے برعکس اگر ہم کسی نا خوشگوار واقعات کی تکرار تخیل کی سطح پر کر یں تو منفی تخیل آہستہ آہستہ مثبت تصورات میں تبدیل ہو جائے گا اور ہم اسے فراموش کر دیں گے۔
اسی طرح سماعت بھی برے الفاظ دہراتی ہے۔ نتیجہ میں ہم سخت ردعمل پر مبنی الفاظ کہنا چاہتے ہیں ……. محسوسات ، نفرت اور غصہ پرمشتمل ہوتے ہیں اس کا سد باب ہم خیر خواہی کے جذبات اور دعا کے ذریعے کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے اندر واقعتا نیک خواہشات ابھریں گی اور ہمارا ذہن آزادی اور خوشگوار طرزعمل پرآمادہ ہوگا۔
اللہ تعالی کی پسندیدہ اقدار نہ صرف ایک فرد کی فلاح کے لئے ضروری ہیں بلکہ ایک مستحکم اور متوازن معاشرے کے قیام کے لئے لازمی ہیں ۔ خیالات کا تعمیری رخ معاشرت کو اجتماعی حیثیت میں ایک طرز فکر فراہم کرتا ہے۔
معاشرتی اداروں میں مختلف افراد کے درمیان موثر ابلاغ (Cummunication) فروغ پاتا ہے مثلا استاد اور طالب علم ، والدین اور اولاد، افسران اور ماتحت وغیرہ Progressive Thinking اور حوصلہ افزائی کا تعلق صرف ظاہری رویوں اور الفاظ سے نہیں ہوتا بلکہ توانائی کے ایسے قابل قدر قیمتی اور انمول ذخائر ہیں جوکسی فرد میں وقت کی نفی کر کے بتدریج منتقل ہو جاتے ہیں اور اس کے اعتماد اور دیگر صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
کسی معاشرے میں جرم کی خواہش رکھنے والے افراد کے لئے اگرمنفی خیالات و اعمال کے ، ہولناک اثرات کے بارے میں مناسب اور پرحکمت انداز سے تر و یج کا انتظام کیا جا ئے خصوصا ًجیلوں میں ایسے اصلاحی پروگرام دوستانہ انداز میں منعقد کئے جائیں تو یہ ناممکن نہیں ہے کہ اس کا ذہن تبدیل کیا جا سکے کیوں کہ ہرفرد میں فطری عناصر موجود ہیں خواہ وہ کتنے ہی پس پردہ چلےجائیں اپنا اظہار ضرور چاہتے ہیں۔
الله تعالی نے ہر شے دو رخوں پر تخلیق کی ہے مثلا دن رات ، سردی وگرمی ، سیاه و سفید محبت ونفرت اوراسی طرح خیر و شر اعمال کے دورخ ، اللہ کی حکمت کے دو اظہار ہیں ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔
سو جس نے کی ہوگئی ذرہ برابر نیکی دیکھ لے گا وہ اسے اور جس نے کی ہوگی ذرہ برابر بدی دیکھ لے گا وہ اسے(۹۹ : ۔۸)
انبیائے کرام نے نوع انسانی کو بدی اور شیطنت کے مقابلے میں رحمانی طرز فکر اور نیکی کی طرف مائل کیا۔ شرانگیز اور مشرکانہ ماحول کے خلاف خیر بھلائی اور توحید کی تلقین فرمائی۔
چونکہ ہر عمل کا محرک خیال ہے اس لئے پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق کر دار اپنانے کے لئے رحمانی خیالات کی قبولیت ضروری ہے۔ قرآن مجید کے احکامات پرغور وفکر کرنا بھی دراصل اسی قبولیت کی مشق ہے تا کہ تم صحیح سمت میں تکرار خیال مستحکم اور پائیدارعمل میں تبدیل ہو جائے۔
فطرت سے متعلق وہ اصول و قوانین ہیں جن میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی مثلا الہامی تعلیمات کے مطابق خیر و شر ہمیشہ دو متضاد راستے ہیں جن سے انسان از لی طور پر واقف ہے۔
ایک شیر خوار بچے جوفطرت سے بے حد قریب ہے۔ وہ بھی خوشبو ٹھنڈک ، سکون اور محبت بھر المس پسند کرتا ہے
شور اور بے سکونی پر ناگواری کا اظہار کرتا ہے۔
انسانی فطرت کی ایک صفت تجسس ہے۔ نوع انسانی کا کوئی فرد پانی سے اپنی پیاس بجھانے کے بعداس کے متعلق مزید غور وفکر کرے گا۔ جب تجسس میں مرکزیت پیدا ہوئی ہے وہ اس کے مزید استعمال وفوائد ، صلاحیتیں اور سورس جاننے کی خواہش کرتا ہے اب اس مرحلے پر مقصد وہ اہم رہنما ہے جو اس تجس کو خیر با شر کا رخ دے سکتا ہے۔
مقصد جتنا اعلیٰ و ارفع ہو گا خیالات کا لیول بھی اسی کے مطابق ہوگا ۔ زندگی کومنفی پہلو سے دیکھنے اور برتنے کا بنیادی سبب مقصد حیات کے تصور سے محرومی ہے۔
اللہ کی فرمانبرداری اور خوشنودی انسانی فطرت ہے۔ یہ ایسی زبردست قوت محرکہ ہے جو انسانی ذہن کے تمام عقائد، اعمال، تصورات و خیالات کو ایک صحیح رخ اوربہترین جہت عطا کرتی ہے۔
روح کا اطمینان و سکون دراصل اللہ کی خوشنودی میں مخفی ہے۔ انسان کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہےکہ وہ یہ جان لے اس نے اللہ کے سامنے عہد کیا ہے کہ اللہ اس کا خالق اور رب ہے ۔ علماء باطن کہتے ہیں کہ انسان ستر ہزارپرت کا مجموعہ ہے اللہ تعالی کے قانون کے مطابق انسان جب عالم ناسوت میں آتا ہے تو اس کے اوپر ایک پرت ایسا غالب آجاتا ہے جس میں سرکشی بغاوت ، عدم تحفظ ، عدم تعمیل ، کفران نعمت ، ناشکری جلد بازی ، شک، بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتاہے یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کو قرآن پاک اسفل سافلین کہا ہے۔
انبیائے کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ پوری کائنات میں دوطرز یں کام کر رہی ہیں۔ ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز اللہ کے لئے نا پسندیدہ ہے وہ نا پسندیدہ طرز جو بندے کو اللہ سے دور کر تی ہے اس کا نام شیطنت ہے اور وہ پسندیدہ طرزفکر جو اللہ سے بندے کوقریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے۔
یعنی شیطنت اور رحمت دو راستے ہیں ۔ اللہ تعالی کی پسندیدہ طرزفکر رحمت روح کی بھی پسندیدہ پروگرامنگ ہے۔ اگر انسانی ذہن کا انتخاب فرمانبرداری ، یقین اور مخلوق کی فلاح ہے وہ رحمانی خیالات کا حامل ہے۔
یہ پاکیزہ طرزفکر ہی وہ پروگرام ہے جو ہمیں روح کے ذریعے بھر پور توانائی فراہم کرتا ہے اور روحانی شعورسے آگاہی عطا کرتا ہے۔ تا کہ انسان اپنے کمزور، ناقص اور ناتواں شعور کا سہارا لینے کے بجائے روح کی پسندیده پروگرامنگ سے ہم آہنگ ہوجائے اور اس خوبصورت منظم کائنات کے ایک کار آمد اور فرمانبردار رکن کی حیثیت سے اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے سکے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013