ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سورہ آل عمران کی آیت نمبر 144 میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں
” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟ٮِٕنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡـــًٔا ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ 0
اور محمد صرف ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وصال کر جائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو کیا تم واپس پلٹ جاؤگے ؟اور جو واپس پلٹے گا تو وہ اللہ کی کسی شے کو نہیں بگاڑ کرسکتا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دیتا ہے “
اس آیت مبارکہ کے اندر تفکر کرنے سے اللہ تعالٰی کے معرفت و حکمت اور کائنات کے نظام کو چلانے والے طریقے کا انکشاف ہوتا ہے، اللہ تعالٰی کے احکامات و صفات کی ارسال وترسیل کرنےوالےکو”رسول” کہتے ہیں، اللہ اور اسکے بندوں کے درمیان میڈیم (medium ) رسول ہوتا ہے اور کائنات وسیلہ ، واسطہ یا میڈیم پر قائم ہے، اگر کائنات کے اندر سے میڈیم نکال دیا جائے تو کائنات کا نظام چل نہیں سکتا، جس طرح آللہ اور انسان کے درمیان میڈیم رسول ہیں
اسی طرح رسول اور اللہ کے درمیان میڈیم “جبریل علیہ السلام” ہیں
جبریل علیہ السلام اور اللہ کے درمیان میڈیم” وحی” ہے
وحی اور اللہ کے درمیان میڈیم “صفات” ہیں
صفات اور آللہ کے درمیان میڈیم “فیکون” ہے
فیکون آور اللہ کے درمیان میڈیم ” ” کن” ہے
کن اور اللہ کے درمیان میڈیم ” امر” ہے
امر اور اللہ کے درمیان میڈیم ” “ارادہ” ہے
اللہ کا ارادہ اسکی ذات ہے کیونکہ کسی بھی ارادے کا مظاہرہ صفات کو اجاگر کرتا ہے، صفات سے ذات کا عرفان و ادراک حاصل ہوتا ہے
روحانی علوم میں ” محمد ” اللہ تعالٰی کی صفات کے مجموعہ کو کہتے ہیں، مدینہ منورہ میں تشریف فرما حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم، خاتم النبیین و مرسلین نے معراج کی رات اللہ تعالٰی کی صفات کا مشاہدہ کیا، چونکہ اس پہلے اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کا مشاہدہ انتہائی حدوں اور گہرائیوں میں کسی نے نہیں کیا تھا اس لئے روحانی ہستیوں نے ان مشاہداتی صفات کو “محمد ” کے نام سے موسوم فرمایا، انہی صفات کا علم ” حقیقت محمدی ” کہلاتا ہے، اللہ تعالٰی کی صفات کے اندر کام کرنے والے روحانی ہستیوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، اس نسبت کی بنا پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے چار صفاتی نام درج ذیل ہیں
محمد
احمد
حامد
محمود
یہ تمام صفاتی نام اللہ تعالٰی کی تعریفوں ” حمد” سے جڑے ہوئے ہیں،
” محمد ” کے معنی صفات کا مجموعہ، منبع یا مرکز
“احمد” کے معنی صفات کو لاگو(implement) کرنے والا
“حامد” کے مطلب صفاتوں کو ملا کر نئی صفات بنانے والا
“محمود” کے معنی صفات کو اپنے اندر منتقل کرنے والا یا جذب کرنے والا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام پر اللہ تعالٰی کی صفات کو براہ راست اپنے اندر جذب کرتے ہیں اس کو ” مقام محمود ” کہتے ہیں، یہ مقام تکوینی نظام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آفس یا قیام گاہ ہے، اللہ تعالٰی کی ذات مبارکہ سے کائنات کو چلانے والی صفات سب سے پہلے مقام محمود پر ہی نزول کرتی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے ان کو ترسیل کرتے ہیں، اگر آللہ تعالٰی کی صفات کائنات کے اندر نزول نہ کرے تو کائنات کا وجود زیر بحث نہیں آسکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کائنات کے اندر اپنا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں،
اللہ اول ہے
اللہ آخر ہے
آللہ ظاہر ہے
آللہ باطن ہے
آللہ تعالٰی کی یہ چاروں صفات چار ڈوریوں یا دھاگوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح لپٹی ہوتی ہیں کہ رسی بن جاتی ہے یعنی کسی وجود کے گرد گھومتی پھرتی ہیں، یہی وہ رسی ہے جس کو قرآن مجید میں
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪- کہا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالٰی کی کسی بھی صفت میں کوئی فرق نہیں، روحانی سالکین کے لئے ذہن کو اللہ کی صفات پر مرکوز کرنا اللہ تعالٰی کی رسی کو پکڑنا ہے، اور ان صفات کو اپنے اندر جمع کرنا ہے جس سے سالک اپنے اوپر اللہ تعالٰی کو محیط ہونے کا مشاہدہ کرتا ہے ،
آللہ کی یہی چار صفات ملکر کسی بھی شئے کو وجود عطا کرتی ہیں، ان صفات سے بننے والے وجود کی بنا پر تصوف کے نظریات وحدت الوجود اور وحدت الشہود زیر بحث آتے ہیں جبکہ امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ اور خانوادہ سلسلہ عظیمیہ، امام مبین، محبت اللعالمین، خواجہ شمس الدین عظیمی رحمتہ اللہ علیہ نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود سے اوپر کے مشاہدات بیان فرمائیں ہیں اور ان مشاہدات کو ” نظریہ رنگ و نور ” کا نام دیا ہے، دربار رسالت میں حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کو ” حسن اخری ” اور حضور خواجہ شمس الدین عظیمی رحمتہ اللہ علیہ کو ” احمد ” کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے، حسن اخری کے معنی مرتبہ احسان کے ذریعے اللہ تعالٰی کی صفات کا انتہائی حدوں میں مشاہدہ کرنے والا اور احمد ” کا مطلب اللہ تعالٰی کی صفات کو لاگو کرنے والا ہے، ان دونوں ہستیوں نے اپنے مشاہدے میں اللہ تعالٰی کی ذات سے لیکر مادی دنیا کے وجود تک کے تمام مراحل اور مادے کا واپس اللہ تعالٰی کی ذات تک کے نزول و صعود کے سفر کو بیان فرمایا ہے اس لئے ان کا بیان کردہ نظریہ رنگ و نور اگلے کئی سو سال تک نوع انسانی کی رہنمائی کرتا رہے گا، آئندہ آنے والے نئے نئے علوم وایجادات اور روحانی نظریات اسی نظریہ رنگ و نور کے اندر سے ظاہر ہونگے، انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کی تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء و مرسلین کو قتل کیا گیا یا آن کی طبعی موت واقع ہوئی لیکن اللہ تعالٰی کا نظام کبھی بھی نہیں رکا، مندرجہ بالا سورہ آل عمران کی آیت میں اسی بات کو دہرایا گیا ہے کہ نظام کو چلانے والوں کے قتل، شہادت یا موت سے اللہ تعالٰی کی صفات کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر کوئی اس نظام کو کو چھوڑ دیتا یا پیچھے ہٹ جاتا ہے تو اللہ کے نظام کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ شکر کے ساتھ اللہ کے نظام کے ساتھ جڑے رہنے سے اللہ اپنی صفات کی شکل میں آجر و جزا عطا فرماتے ہیں، جس طرح ڈاکٹر کے مرنے سے ڈاکٹری کو کوئی فرق نہیں پڑتا، انجینئر کے مرنے سے انجینئرنگ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، وکیل کے قتل یا مرنے سے عدالتی نظام میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسی طرح روحانی ہستیوں کے دنیا سے پردہ فرمانے سے روحانی نظام میں کوئی بگاڑ یا خلاء پیدا نہیں ہوتا، بلکہ روحانی سالکین کی اس نظام سے وابستگی سے صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، مرشد عالم ناسوت میں زندہ رہ کر طالب صادق، مرید یا سالک کو فیض منتقل کرتے ہیں، اگر طالب صادق مرید یا شاگرد مادی دنیا سے عالم اعراف می چلا جائے تو اس کے روحانی منازل بہت جلدی طے ہوجاتے ہیں کیونکہ اعراف روشنیوں کا عالم ہے اس لئے مرشد کو مرید کے اندر اعراف کے انوارت و روشنیوں کو منتقل کرنے میں زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی، جبکہ مادی دنیا میں طرز فکر اور روشنیوں کو منتقل کرنا مرشد کے لئے صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے، مرید سے پہلے مرشد عالم اعراف میں منتقل ہوجائے تو مرشد براہ راست اللہ تعالٰی کی صفات وتجلیات کے اندر داخل ہوجاتا ہے، طالب صادق مرید ناسوتی دنیا میں مرشد کے بتائے ہوئے اسباق پر باقاعدگی سے عمل کرتا ہے تو اس کے اندر مرشد کے علوم اور انوارات وتجلیات کا ہجوم اور اس کی رفتار میں اضافہ، تیزی اور وسعت بڑھ جاتی ہے، مرشد کے اللہ تعالٰی کے قرب کی وجہ سے مرید کے ناسوتی دنیا میں رہنے کے باوجود باقی منازل جلد طے یو جاتے ہیں، روحانی علوم میں اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کا حصول ہی حرف آخر ہوتا ہے ، مرشد اور مرید کے درمیان اللہ کی صفات بطور میڈیم کام کرتی ہیں، اگر دونوں فریقین یا مرشد مرید کے درمیان اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کا عرفان مقصود نہیں ہے تو کسی بھی طرح یہ روحانی رشتہ یا سلسلہ نہیں کہلاسکتا، روحانی سلاسل میں موت آگلے عالم میں منتقل ہونے کا ایک مرحلہ کہلاتا ہے مرشد یا مرید کے ناسوتی دنیا سے چلے جانے سے اللہ تعالٰی کی صفات کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔