زندگی کا امیدوار
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ زندگی کا امیدوار۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم)کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا کہیں کسی دور دراز سیارے پر کوئی اور مخلوق بھی موجود ہے جس سے ہم اور وہ ہم سے بے خبر جی رہے ہیں؟۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے صدیوں سے انسان کو اپنی جانب متوجہ رکھا ہے اور خلائی تحقیق کا ایک بہت بڑا حصہ اسی سوال کے جواب کی تلاش کے لئے وقف رہا ہے۔
حال ہی میں انسانی تاریخ کے سب سے مہنگے اور اہم خلائی آلے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی بدولت سائنسدانوں نے ہمارے نظام شمسی سے باہر موجود K2-18b نامی ایک غیر شمسی سیارے (Exoplanet) کی فضا میں ایسے کیمیائی مادے دریافت کئے ہیں جو زندگی کے آثار کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں اور یہ سیارہ زندگی کی تلاش کے حوالے سے اب تک کا سب سے مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔
لیکن آخر ایسا کیوں ہے اور اگر واقعی یہاں زندگی کے امکانات موجود ہیں تو ہم اس کا پتا کیسے لگائیں گے؟۔
آئیے! اس حیرت انگیز دریافت کی تفصیلات جانتے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ سیارہ خاص کیوں ہے؟
سیارہ K2-18b ہماری زمین سے تقریباً 124 نوری سال دور برج اسد (Leo Constellation) میں ایک سرخ بونے ستارے K2-18 کے گرد گردش کر رہا ہے اور ایک “بڑی زمین” یا سپر ارتھ (Super Earth) قسم کا سیارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اس کی کمیت زمین سے زیادہ لیکن گیسی سیاروں یعنی نیپچون وغیرہ سے کم ہے۔ یہ کمیت میں زمین سے تقریباً 8.92 گنا زیادہ بڑا ہے اور اپنے ستارے کا ایک چکر مکمل کرنے میں 32.9 دن لگاتا ہے یعنی اس کا ایک سال صرف 33 زمینی دنوں کے برابر ہے۔
یہ ممکنہ طور پر ایک ہائیسین دنیا (Hycean World) ہے جس کا مطلب ایسا سیارہ ہے جہاں ہائیڈروجن سے بھرپور فضا اور مائع پانی کے وسیع سمندر موجود ہو سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ K2-18b اپنے ستارے کے گرد قابل رہائش علاقے (Habitable Zone) میں واقع ہے اور وہاں کا درجہ حرارت زندگی کے لئے سازگار ہو سکتا ہے۔ گویا اگر واقعی وہاں پانی کے سمندر موجود ہیں تو ان کے نیچے وہ تمام کیمیائی لوازمات اور توانائی دستیاب ہو سکتے ہیں جو زندگی کے پروان چڑھنے کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
کیا واقعی وہاں زندگی ہو سکتی ہے؟
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے K2-18b کی فضا میں ڈائی میتھائل سلفائیڈ (DMS) کے ممکنہ آثار دریافت کیے ہیں۔ یہ ایک حیران کن دریافت ہے کیونکہ زمین پر یہ گیس صرف زندہ جانداروں اور خاص طور پر سمندری خوردبینی جانداروں کے ذریعے بنتی ہے۔
صرد یہی نہیں بلکہ سائنسدانوں نے وہاں میھین (Methane) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO₂) بھی دیکھی ہے جو عام طور پر حیاتیاتی یا بائیو اور جیو کیمیکل تعاملات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو زمین کے ماحول میں زندگی کے موجود ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔
یہ سوال ابھی باقی ہے کہ K2-18b پر یہ کیمیکل کسی جاندار کی وجہ سے بن رہے ہیں یا پھر کسی قدرتی عمل کا نتیجہ ہیں اور اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے مزید تحقیق درکار ہے لیکن اس سے پہلے ہم ایک اور اہم سوال پر بات کرتے ہیں اور وہ ہے کہ سائنسدان نظام شمسی سے باہر سیارے کیسے دریافت کرتے ہیں؟۔
جب ہم خبروں میں سنتے ہیں کہ کسی دوسرے ستارے کے گرد نیا سیارہ دریافت ہوا ہے تو یہ سن کر لگتا ہے جیسے یہ ایک عام اور آسان عمل ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ دوسرے ستاروں کے گرد سیارے تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ یہ سیارے نہ صرف اپنے ستاروں کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں بلکہ ان کی روشنی بھی اتنی مدھم ہوتی ہے کہ وہ براہ راست نظر نہیں آتے۔ عام طور پر ہم کسی غیر شمسی سیارے کو براہ راست نہیں دیکھتے بلکہ اس کے ستارے پر پڑنے والے اثرات جیسے روشنی میں معمولی تبدیلیاں یا کشش ثقل کی ہلکی سی جنبش جیسے عوامل کا مشاہدہ کر کے اس کی موجودگی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ مزید برآں، چونکہ یہ ستارے زمین سے سینکڑوں یا ہزاروں نوری سال دور ہوتے ہیں اس لیے انتہائی حساس آلات اور پیچیدہ سائنسی تجزیئے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے گرد موجود سیاروں کو دریافت کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی دریافت درحقیقت کئی سالوں کی محنت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے وسیع استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔
سائنسدان دوسرے ستاروں کے گرد پائے جانے والے سیاروں یا ایکزوپلانیٹس کی تلاش کے لئے کئی جدید طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں سے اہم ترین جو مختصراً یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔
سب سے اہم طریقہ ٹرانزٹ میتھڈ کہلاتا ہے جس کا اصول یہ ہے کہ جب کوئی سیارہ اپنے ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے تو اس کی روشنی میں معمولی سی کمی آتی ہے جسے خلائی دوربینیں جیسے جیمز ویب اور کیپلر ریکارڈ کر لیتی ہیں۔ دوسرا طریقہ ریڈیل ویلاسٹی میتھڈ ہے جس میں ستارے کی ہلکی سی ڈگمگاہٹ کو دیکھا جاتا ہے جو کسی سیارے کی کشش ثقل کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ گریویٹیشنل مائیکرولینسنگ ایک اور تکنیک ہے، جس میں جب ایک سیارہ اور اس کا ستارہ کسی دور دراز ستارے کے سامنے آتے ہیں تو وہ اس کی روشنی کو ذرا سا موڑ دیتے ہیں جس سے ان کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ ڈائریکٹ امیجنگ کے ذریعے کچھ بڑے اور زیادہ روشن سیارے براہ راست تلاش کئے جا سکتے ہیں لیکن بشرطیکہ اگر وہ اپنے ستارے سے زیادہ فاصلے پر ہوں۔ ایسٹرو میٹری میتھڈ میں ستارے کی ایسی معمولی مگر متوقع راستے سے منحرف حرکت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے جو اس کے گرد گردش کرنے والے سیارے کے اثرات کا سراغ دیتی ہے۔ بعض اوقات کئی طریقوں کو مشترکہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے سائنسدان کائنات میں دیگر ستاروں کے گرد ممکنہ سیاروں کو تلاش کرتے ہیں۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر اس سیارے پر زندگی موجود ہے تو یہ کیسی ہو سکتی ہے؟۔
اگر K2-18b پر واقعی زندگی موجود ہے تو یہ زمین کی زندگی سے کافی مختلف ہو سکتی ہے۔ ہمارا سورج ایک جوان مین سیکوئنس (Main Sequence) ستارہ ہے لیکن چونکہ سیارہ K2-18b ایک سرخ بونے (Red Dwarf) ستارے کے گرد گردش کر رہا ہے اس لئے وہاں پہنچنے والی روشنی اور توانائی کی مقدار اور نوعیت زمین کے مقابلے میں مختلف ہوگی جو ممکنہ طور پر زیادہ سرخ یا انفراریڈ لہروں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اگر یہاں کوئی جاندار ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو انفرا ریڈ روشنی کے مطابق ڈھال چکے ہوں اور ان کے جسم بھی روشنی کو جذب کر کے یا توانائی حاصل کر کے خوراک بنانے کے مختلف طریقے اپنا چکے ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں سمندری مخلوق کسی گرم پانی کے چشمے کے آس پاس پنپ رہی ہو جیسا کہ زمین کے گہرے سمندروں میں ہوتا ہے جہاں وافر روشنی نہ ہونے کے باوجود زندگی موجود ہو سکتی ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی زندگی کی تصدیق کر سکتے ہیں اور اگر ہاں تو کیسے؟۔
کسی دوسرے سیارے پر زندگی کی حتمی تصدیق کے لئے وہاں کسی جاندار کی موجودگی کے براہ راست مشاہداتی ثبوت یا پھر کچھ ایسے واضح اور ناقابلِ تردید کیمیائی شواہد درکار ہوں گے جو صرف حیاتیاتی سرگرمیوں کا ہی نتیجہ ہو سکتے ہیں اور اس تناظر میں ہم درج ذیل راستوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تحقیق کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
ہمیں حیاتیاتی ساختوں کی دریافت کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اگر ہم K2-18b کی فضا یا سطح پر خوردبینی جانداروں کے خول، بایوفلمز یا کسی اور پیچیدہ حیاتیاتی ڈھانچے کے نشانات دیکھ سکیں تو یہ براہ راست ثبوت ہوگا کہ وہاں زندگی موجود ہے۔ مستقبل میں زیادہ حساس اسپیکٹروسکوپک آلات ایسے پیچیدہ نامیاتی مالیکیولز یا حیاتیاتی باقیات کو دریافت کر سکتے ہیں جو صرف جانداروں کے ذریعے بنتے ہیں۔
ہمیں متعلقہ سیارے کے موسمیاتی تبدیلیوں اور کیمیائی عدم توازن کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ اپنے سیارے زمین کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہاں زندگی ماحول کو ایک مخصوص توازن میں رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر آکسیجن اور میتھین ایک ساتھ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتے جب تک کہ انہیں کوئی حیاتیاتی عمل مسلسل پیدا نہ کر رہا ہو۔ اگر K2-18b پر ایسی گیسوں کے غیر متوقع امتزاج مل جائیں تو یہ ایک مضبوط اشارہ ہوگا کہ کوئی جاندار ان گیسوں کو پیدا کر رہا ہے۔
ہم بائیو فلوروسینس اور روشنی کے حیاتیاتی تعاملات یا اثرات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ جاندار روشنی جذب یا منعکس کرنے کے منفرد طریقے رکھتے ہیں اور اگر K2-18b پر حیاتیاتی فلوروسینس جیسے اثرات دیکھے جائیں یعنی کہ مخصوص طولِ موج کی روشنی کا غیر متوقع طور پر اخراج یا انعکاس ظاہر ہو رہا ہو تو یہ کسی زندہ جاندار کے ہونے کا واضح اشارہ ہو سکتا ہے۔
ہم ریڈیو یا دیگر ٹیکنولوجیکل سگنلز پر غور کر سکتے ہیں۔ اگر وہاں کوئی ذہین مخلوق موجود ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کے دوران برقی مقناطیسی لہریں خارج کر رہی ہو۔ ہماری جدید ریڈیو ٹیلی اسکوپس ایسے سگنلز کو تلاش کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں جیسا کہ SETI (Search for Extraterrestrial Intelligence) کے پروگرام میں کیا جاتا ہے اور اگر ایسا کوئی خاص سگنل مسلسل موصول ہو رہا ہو تو یہ کسی ترقی یافتہ تہذیب کی موجودگی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔
سب سے جدید طریقہ مستقبل کے خلائی مشنز ہو سکتے ہیں جو کہ سب سے براہ راست طریقہ بھی ہوگا۔ اگرچہ فی الحال ہماری ٹیکنالوجی اس قابل نہیں کہ ہم اتنے وقت میں سو نوری سال سے زیادہ کا سفر کر سکیں جو تحقیقی مقاصد کے لئے مفید ثابت ہو سکے لیکن ایک تصوراتی مشن میں اگر کوئی خلائی جہاز یا پروب K2-18b کی فضا میں داخل ہو کر وہاں موجود ذرات اور حیاتیاتی سرگرمیوں کا تجزیہ کرے تو وہاں موجود مخلوق کا براہ راست ثبوت مل سکتا ہے اور خصوصاً خوردبینی جاندار ہمارے اس پروب پر چپک سکتے ہیں اور پھر ان کی جینیاتی یا کیمیائی ساخت کا زمین پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ فی الحال ہماری ٹیکنالوجی غیر شمسی سیاروں پر براہ راست کسی جاندار کو دیکھنے کے قابل نہیں ہے لیکن جیسے جیسے آلات مزید حساس ہوتے جائیں گے ہم ممکنہ طور پر کسی غیر زمینی مخلوق کو براہ راست دریافت کرنے کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔
آخری سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کائناتی پڑوسیوں سے ملنے والے ہیں؟
دراصل K2-18bپر ہونے والی یہ تحقیق ہمیں کائنات میں زندگی کی تلاش میں ایک نیا راستہ دکھا رہی ہے۔ ابھی بہت کچھ معلوم کرنا باقی ہے لیکن اس سیارے سمیت دیگر غیر شمسی سیاروں سے جو معلومات ہمارے پاس آ رہی ہیں وہ یہ اشارہ دے رہی ہیں کہ کسی غیر زمینی زندگی کی دریافت اب بہت زیادہ دور نہیں ہے۔
کیا K2-18b پر واقعی زندگی موجود ہے اور
کیا جیمز ویب وہ آلہ ہوگا جو ہمیں ہمارے کائناتی پڑوسیوں تک لے جائے گا، ان سوالوں کے جواب جلد ہی ہمارے سامنے ہوں گے اور اگر جواب “ہاں” میں آیا تو یقیناً انسانی تاریخ میں ایک حیران کن نیا باب رقم ہو جائے گا۔
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)