Daily Roshni News

زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ضرور ہوں

زندگی کی نعمتوں سے

لطف اندوز ضرور ہوں ۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ضرور ہوں )ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو زندگی کی ساری آسائشوں تک رسائی ہوتے ہوئے بھی اپنی ذات پر کچھ خرچ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے بلکہ ہر پائی کو جمع کرنا ان کی زندگی کا مقصد ٹھہرتا ہے.  اگر ان سے پوچھا جائے تو جواب ہو گا کہ ہم اپنی اولاد کے لیے جمع کر رہے ہیں یا مستقبل کے لیے سیونگ ہو رہی ہے. اولا د کو اچھی تعلیم دلوانے سے بڑی کوئی سیونگ نہیں اور اس کے علاوہ آپ ان کے لیے جو بھی جمع کریں گے اس کی کوئی ویلیو نہیں ہو گی.

اگر آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو اپنی ذات پر خرچ کرنا بھی سیکھیں کیونکہ آپ کی محنت کی کمائی پر آپ کی اولاد کے علاوہ آپ کا بھی حق ہے.  نمود و نمائش کی بجائے اچھا پہننے اور سیر و سیاحت وغیرہ کرنے کی کوشش کریں.  اگر بچے چھوٹے ہیں تو ان کو ساتھ لے کر کسی قریبی ملک کا وزٹ کریں یا کم از کم کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھا نا کھائیں، کسی اچھے ہوٹل میں قیام کریں.

ہم میں سے کسی کو نہیں پتا کہ کل کیا ہونا ہے اس لیے پائی پائی کو جوڑ کر خود ترسنے کی بجائے آج جو کچھ میسر ہے اس سے لطف اندوز ہوں. اگر آپ کے بچے اٹھارہ بیس سال کے ہیں تو بجائے ان کے لیے جمع کرنے یا جائیدادیں بنانے کے ان کو اپنا بوجھ خود اٹھانے دیں تا کہ انہیں زندگی کی مشکلات کا اندازہ ہو. اچھا اور بہترین کھانا کھائیں تاکہ پیسے بچا کر ڈاکٹر وں کو دینے کی نوبت نہ آئے.

میں یا مجھ جیسے لاکھوں سیلف میڈ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ماں باپ کے آگے ہاتھ پھیلانے، رشتے داروں کو طرف امداد طلب نظروں سے دیکھنے یا ملک و حالات کو قصو وار ٹھہرانے کی بجائے جو ہے جیسا ہے بنیاد پر اپنی سڑگل شروع کی تھی اور سبھی کسی نہ کسی اچھی جگہ پر ہیں اس لیے بچوں کے لیے جائیدادیں اور آگے ان کے بچوں کے لیے اپنی جان مارناصرف اور صرف ایک پاگل پن ہے جس کا صلہ خود اذیتی اور خود ترسی کی صورت میں ملتا ہے. اگر آپ بچوں کو اچھی تعلیم دلا کر ان کوایک معمولی سی رقم یا کچھ نہ د بھی یں تو بھی وہ اپنی زندگی کے ساتھ کچھ نہ کچھ اچھا کر لیں گے اگر وہ اس قابل ہوئے تو،، اور اگر وہ اس قابل نہ ہوئے تو آپ ان کو اربوں بھی دے دیں تو بھی ان کے لیے کم ہوں گے.

میں ایک عرصے سے پاکستان سے باہر ہوں اور کوئی ایک دہائی پہلے سے اس قابل ہوا ہوں کہ زندگی کی چند چھوٹی موٹی نعمتوں سے اپنی توفیق کے مطابق اپنا حصہ وصول کر سکوں اور اپنے ارد گرد دیکھا بھی یہی ہے کہ سوائے پاکستانی، انڈین، بنگالی یا افریقن وغیرہ کے دنیا کی تقریبا تمام قوموں کے لوگ زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی سال میں کم از کم دو دفع کہیں گھومنے ضرور جاتے ہیں جو بمشکل اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں.  دوسری ایک بیماری ہمارے ہاں بڑی زیادہ ہے کہ اگر کوئی عزیز رشتے دار کسی اچھے مقام پر چلا گیا ہے تو ہر بندہ یہ خیال کرتا ہے اس رشتے دار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ایک کی  مدد کرے حالانکہ اگر کوئی آپ کی مدد کر دیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کسی پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ آپ کا بوجھ اٹھائے یا آپ کو سیٹل کرے. اپنا بوجھ خود اٹھانا آپ کی اپنی ذمہ داری  ہے اس لیے دوسروں سے اس لیے نفرت مت کریں کہ وہ زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں لیکن آپ کی مدد نہیں کرتے بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنا شروع کریں.

وہ دنیا کے بد نصیب ترین لوگ ہیں جو خود ترس ترس کر کماتے ہوئے سب کچھ افورڈ کرنے کے باوجود اپنی ذات پر خرچنے کا حوصلہ نہیں رکھتے.  اگر ایک آدمی یہ ساری آ سائشیں افورڈ نہیں کر سکتا تو وہ اس آدمی سے لاکھ خوش نصیب ہے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ پر خرچنے کا حوصلہ نہیں رکھتا.

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب کچھ اڑا دینا چاہیے صرف انجوائے منٹ کے لیے تو اس کا جواب ہے سوچ سمجھ کر اچھے طریقے سے خرچ کریں لیکن اس ایک زندگی میں اس زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ضرور ہوں اور اپنی فیملی کو بھی اس تفریح کا حصہ بنائیں

Loading