سائنسدانوں نے تاریخ میں پہلی بار مادے کی نایاب پانچویں قسم کو 6 منٹ کیلئے تخلیق کر لیا۔
ترجمہ و تلخیص۔۔۔ حمزہ زاہد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ترجمہ و تلخیص۔۔۔ حمزہ زاہد)سائنسدانوں نے خلا میں ایک حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے پانچویں قسم کے مادے کو صرف چھ منٹ کے لیے تخلیق کر لیا، اور یہ سب کچھ خلا میں ایک بہت ہی سرد جگہ پر ہوا جہاں کشش ثقل بھی انتہائی کمزور تھی، یہ ایسی جگہ تھی جو زمین پر کبھی نہیں مل سکتی تھی۔
یہ پانچواں مادہ کیا ہے؟
یہ مادہ Bose-Einstein Condensate (BEC) کہلاتا ہے۔ اردو میں اسے “بوس-این اسٹائن متراکم مادہ” کہا جا سکتا ہے۔ “بوس اور این اسٹائن” سائنسدانوں کے نام ہیں۔
ساتیندرا ناتھ بوس اور آلبرٹ آئنسٹائن کی تحقیق کی بدولت BEC کی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد ملی۔ یہ دونوں سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق کی بدولت ممکن ہوا کہ ہم اس مادے کو آج سمجھ سکیں اور اس پر تجربات کر سکیں۔
جب ایٹموں کو انتہائی سردی میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے، تقریباً صفر درجے کے قریب، تو وہ ایک عجیب و غریب حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں جسے BEC کہتے ہیں۔ اس حالت میں، ایٹم ایک “سپر ایٹم” کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ یہ اتنی باریک بینی سے اپنے ماحول کی تبدیلیوں کا پتہ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسی حالت ہے جس میں ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک واحد “سپر ایٹم” کی طرح عمل کرتے ہیں۔
ڈینس بیکر اور ان کی ٹیم نے لیبنز یونیورسٹی ہنور سے، ایک چھوٹے سے ایٹم چپ پر BEC تیار کیا۔ اس چپ کی جسامت ایک اسٹامپ کی طرح تھی۔ پہلے، BEC کا تجربہ زمین پر ہوتا تھا، لیکن وہاں یہ صرف چند سیکنڈ کے لیے برقرار رہ سکتا تھا۔ خلا کی کم کشش ثقل نے سائنسدانوں کو BEC کو چھ منٹ تک دیکھنے کا موقع دیا۔
خلا میں، درجہ حرارت تقریباً منفی 273.15 ڈگری سیلسیس (0 کلوین) کے قریب ہوتا ہے، جو کہ سب سے کم ممکنہ درجہ حرارت ہے۔ اس سطح پر، ایٹموں کی حرکت تقریباً رک جاتی ہے، اور وہ BEC کی حالت اختیار کر لیتے ہیں۔
سائنسدانوں نے ان چھ منٹوں کے دوران 110 مختلف تجربات کیے۔ وہ تجربات مندرجہ ذیل ہیں:
بی ای سی کو تقسیم کرنا اور دوبارہ جوڑنا: لیزر کی مدد سے، (BEC) کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر دوبارہ جوڑا گیا۔ اس عمل نے سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ایٹم کیسے آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور کیا کچھ مخصوص مداخلتیں ہیں جو ان کی حرکت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
کوانٹم مداخلت: یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹموں کے آپس میں ملنے اور دوبارہ جڑنے کے دوران کیا کوئی کوانٹم سطح کی مداخلتیں ہو رہی ہیں، جو ممکنہ طور پر کشش ثقل کی لہروں کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔
یہ کامیابی خلا میں BEC کے مطالعے کے لیے ایک نیا دور شروع کرتی ہے۔ NASA بھی ISS پر BEC پر تحقیق کر رہا ہے، جس میں Cloud Atom Lab شامل ہے۔ ان تجربات کا مقصد BEC کو خلا میں زیادہ دیر تک برقرار رکھنا ہے تاکہ اس کی خصوصیات اور ممکنہ استعمالات کو بہتر سمجھا جا سکے۔
بی ای سی (BEC) کا مطالعہ مستقبل میں کشش ثقل کی لہروں کی دریافت، جدید ٹیکنالوجیز، اور دیگر سائنسی تحقیقات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ کامیابی سائنس کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل ہے اور یہ ہمیں بتاتی ہے کہ خلا میں تحقیق کتنی دلچسپ اور متاثر کن ہو سکتی ہے۔
ترجمہ و تلخیص: حمزہ زاہد۔
نوٹ: اس طرح کی مزید معلوماتی پوسٹس کیلئے مجھے فالو کریں۔ براہِ مہربانی اگر اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کریں تو اصل لکھاری کا نام ساتھ ضرور لکھیں۔