Daily Roshni News

ساس لچکتی کرسی پہ بیٹھی تھی

ساس لچکتی کرسی پہ بیٹھی تھی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ارے بہوں ذرا چاۓ کا کپ تو کچن سے لائوں۔۔۔۔۔

بہوں ۔۔چھوٹی بالٹی میں پونچی ڈالتے ہوۓ۔۔۔میرے ہاتھ

گندے ہیں امی ذرا صبر کر لے۔۔۔۔۔۔

ساس۔۔۔ہاتھ گندے ہیں تو کیا ہوا اوٹھ  کے دھولے۔۔۔۔۔۔

بہوں۔۔۔نہیں نہیں کام بہت ہے آپ تھوڑا صبر کرلے۔۔۔۔

ساس۔۔۔کام بعد میں کر لینا مجھے چاۓ دےدو۔۔۔۔

امی آپ اوٹھ کے کچن سے چاۓ لےلو میں فارغ نہیں ہوں۔۔

ساس۔۔حد ہے گھر میں بڑوں کی تو کوئ عزت ہی نہیں رہی

یہ آجکل کی لڑکیاں ہے۔۔۔ہوں۔۔۔

ارے امی ایسی تو کوئ بات نہیں میرے ہاتھ گندے تھے

آپ تو خواں مخواں بات کو کھیچ رہی ہو۔۔۔

ساس ۔۔ہاں ہاں مجھے تو لڑائ جگھڑے کا بڑا شوق ہے

بہوں ۔۔۔بس آپ کو تو بہانا مل گیا میری برائی کرنے کا۔۔۔۔ساس ۔۔اچھا اب زبان چلاتی ہو۔۔۔کچھ شرم نام کی

کوئ چیز ہے تمہیں  بس ماں باپ نے یہ سیکھایا ہے۔۔

بہوں۔۔۔آپ ذراسی بات پہ میرےماں باپ کو بھیچ میں

کیوں لاتی ہو۔۔۔

ساس ۔۔بس مجھے تم سے بحث کرنی نہیں۔۔

 آنے دو آفتاب

کو بڑا پسند کر کے تجھے لایا تھا۔

میں تو پہلے دن ہی سمجھ گئی تھی یہ لڑکی منہ زور ہے

میری بات کوئ مانے تو۔۔۔۔

بہوں ۔۔۔بس بہت ہوگیا اب مجھے اس گھر میں رہنا نہیں ہے

ساس۔۔۔ہاں ہاں چلی جائوں مجھے کیا فرق پڑے گا۔۔

آج تو فیصلا ایک طرف کر کےہی دم لوں گی۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

آفتاب گھر کے اندر داخل ہوا۔۔۔

ماں اپنے کمرے کے دروازے پہ منہ بنائ کھڑی تھی۔۔

اور بیوی اپنے کمرے کے دروازے پہ کھڑی تھی۔

دونوں عورتوں کے تیورکچھ ٹھیک نہیں تھے۔۔

آفتاب نے سلام کیا۔۔۔

ماں بیٹا ادھر آنا۔۔۔

بیوی۔۔جانو ادھر آنا۔۔

آفتاب گردن گھوماگھوما کر دنوں اطراف دیکھنے لگا۔۔

بلاآخر۔۔

ماں کی طرف قدم بڑھا دیے۔

بیوی۔۔تیزی سے دروازہ بند کر کے کمرے میں چلی گئی۔۔

آفتاب ۔۔ہاں ماں کیا ہوا۔۔

ماں بیٹا مجھے اب اس گھر میں رہنا نہیں میری کوئ عزت

ہی نہیں اس گھر میں تو رہ کر کیا کرونگی۔۔

کیوں ماں میری بیوی نے کچھ کہہ دیا۔۔۔

ماں کچھ کیا کہہ دیا اس کا بس چلے تو میری سانس  ہی روک لے۔۔

نہیں ماں ایسی بات مت کرو یہ گھر تیرا ہے۔

ایسی بیوی کو اس گھر  میں رہنے کا کوئ حق نہیں ۔۔۔

بس اب ماں  آپ نے بہت برداشت کر لیا اب اسے اس کے گھر سے

جانا ہی پڑیگا۔۔

میں اسے طلاق دے دونگا زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا آدھی

جائداد جاۓ گی جانے دو۔۔

اور آجاۓ گی

میں کل ہی اس اپنے ماں باپ کے گھر چھوڑ آئونگاں

جو میری ماں کی  عزت نہیں کرتی  اس کو اس گھر میں رہنے کا کوئ حق نہیں۔۔

ماں کے چھرے پہ ایک دم خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔

مگر فورا چھرا لٹک گیا۔۔

کیا آدھی جائداد دینے پڑے گئی۔۔

ہاں ماں اور وہ گاڑی  بھی سسرنے دی تھی چھپاکے۔کوئ بات نہیں میں بس سے نوکری پہ چلا جائونگا۔۔

ماں نہیں بیٹا۔۔یہ ساس بہوں میں تھوڑی میں میں توں توں

ہوتی رہتی ہے گھر نہیں  توڑنے چاھیۓ لوگ کیا کہیں گے۔۔

کوئی بات نہیں میں بہوں کو خود منالونگی۔۔

ماں توں کہتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں آج کام تمام کر دیتا۔

ماں جابیٹا بہوں کے پاس جا۔۔۔۔

آفتاب ہنسی کو روکتے ہوۓ بیوی کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔

آگئے اپنی ماں کی باتیں سن کر

چلو بیگم سامان باندھ لوہم یہ گھر چھوڑ کر جارہیں ہے

کیا ہوگا ایک گھر کرایہ  کا لے لونگا۔۔ویسے سیلری کم ہے پر

گذارا کر لےگے۔۔

بعد کچھ پیسے بنا کر بائیک بھی لے لونگا۔روکھی سوکھی

کھاکر گذار کر لے گے۔۔یہ محل یہ عیش و آرام یہ گاڑی ماں جانے اماں کا کام جانے مجھے تو اپنی بیوی عزیز ہے۔

بیوی کے چھرے کا ذرا رنگ اڑگیا۔۔نہیں نہیں آفتتاب

یہ تو ساس بہوں میں میں توں توں ہوتی رہتی ہے

لوگ کیا کہے گے۔۔

میں ساسوں ماں کو خود منا لونگی تم ہمارے بھیچ میں

مت آئوں جائوں اپنے کام کی کرو۔۔

پھر آفتاب ہنسی کو زبدستی روکتا ہوا باھر چلا گیا۔۔

Loading