Daily Roshni News

سب خوبصورت یادوں کی طرح، اس یاد کا آغاز بھی بچپن ہی سے ہوتا ہے۔

سب خوبصورت یادوں کی طرح، اس یاد کا آغاز بھی بچپن ہی سے ہوتا ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو ز انٹرنیشنل)”دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام”

یہ الفاظ PTV پر نشر ہوتے، ایک خوبصورت نشریے کا آغاز ہوتا اور خوبصورت آواز والے خوبصورت ترین طارق عزیز صاحب سکرین پر ظاہر ہوتے، نیلام گھر کا آغاز ہو جاتا۔ معلومات، تفریح اور دلچسپیوں کا ایک طلسم ہوتا جو ایک گھنٹے بعد تب تھمتا جب پروگرام کا دورانیہ ختم ہوتا انعامات کا ایک سلسلہ ہوتا جو کہ آج کے پروگراموں بر عکس اپنی عزت و غیرت کو داو پر لگائے بغیر اور اپنی خواتین کو ٹی وی سکرین پر نچائے بغیر انجام پاتا۔ باوقار چہرہ، گرجدار آواز اور انتہائی خوش لباس انسان کہ جن کے ہر عمل  اور ہر لفظ سے نفاست کا احساس ہوتا۔ بہت کچھ سیکھا ان سے جو کہ تعلیمی زندگی میں کام آیا۔

اس دوران سیاسی حالات بدلے اور نیلام گھر جیسا پروگرام بند ہو گیا۔ میں بھی سکول سے کالج میں پہنچ گیا۔ پرائیویٹ چینلز کے نام پر جو غلاظت ٹی وی سکرین سے ابلنے لگی وہ دل اچاٹ کر دینے کے لئے کافی تھی لہذا اپنا تعلیمی رشتہ کلی طور پر کتاب سے ہی جوڑ لیا۔ اسی دوران اپنی افتاد طبع اور کالج سے ملی فراغت سے اکتا کر چچا جان سے (جو کہ PTV  سابق ٹی وی پروڈیوسر ہیں ،سونا چاندی، اندھیرا اجالا، اج دی کہانی اور ایک لمبی فہرست ہے ان پروگراموں کی جو وہ تخلیق کر چکے ہیں) فرمائش کی کہ مجھے کچھ مصروفیت تلاش کر دیں۔ چچا جان ان دنوں ایک مقبول کوئز پروگرام “فنگامہ” جس کے اینکر نورالحسن تھے، پروڈیوس کر رہے تھے سو مجھے بھی اس میں ایک چھوٹا سا کام مل گیا۔ سفر کا سفر رہتا، تفریح کی تفریح، زمانہ طالب علمی میں ہی چار پیسے ( در حقیقت کافی روپے) ہاتھ آجائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹی وی سکرین پر ہر ہفتے (یہی کوئی 2 سے 3 منٹ) ا جاتا اور یار دوستوں میں ذرا ٹوہر بڑھ جاتی۔ محلے دار، دوست اور کالج کے ساتھی “سلیبریٹی” سمجھنے اور TV پر آنے کے لئے فرمائشیں کرنے لگے تھے۔ حقیقت حال تو میں ہی جانتا تھا لیکن ذرا ٹہکا قائم رکھنے کے لئے ان کی بات پر غور کرنے کا وعدہ ضرور کر لیتا تھا۔

ایک دن سیٹ پر آنے سے پہلے میک اپ روم میں اپنے چہرے کی مرمت کروا رہا تھا کہ کمرے میں کوئی شخصیت داخل ہوئی۔ نظر کمزور ہونے کی وجہ سے عینک لگاتا ہوں اور میک اپ کرواتے ہونے کے سبب عینک اتار کر رکھی ہوئی تھی۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کون آیا ہے، عینک لگائی تو یہ سمجھ آتے ہی کہ ہوں ہے، میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ میرے سامنے طارق عزیز صاحب موجود تھے۔ جو کہ TV سکرین سے باہر با وقار تر، گرجدار تر آواز اور خوش لباس تر شخصیت ثابت ہو رہے تھے۔ چنٹوں والے کرتا شلوار میں ان کی شخصیت اور رعب دار تر محسوس ہو رہی تھی۔ بہت بڑا میک اپ روم ان کے آنے کے بعد جیسے بالکل بھر گیا تھا۔

ادھر میرا یہ حال کہ آدھے چہرے پر کی ہوئی Puffing کی وجہ سے میں مسخرہ لگ رہا تھا ( میک اپ کرنے والے خواتین و حضرات میری اس صورتحال کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں گے)  کیونکہ ابھی میک اپ آرٹسٹ درمیان میں ہی تھا کہ میں نشست سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور منمناتی آواز میں طارق صاحب کو سلام کر رہا تھا اور طارق صاحب مسکرا کر اپنی گرجدار آواز میں جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بیٹھ کر اپنا میک اپ مکمل کروانے کا اشارہ کیا اور میں میک اپ کے بعد سٹوڈیو تو پہنچ گیا لیکن دماغ وہیں میک اپ روم میں چھوڑ آیا۔ ریکارڈنگ کے دوران ایک موقع پر تو چچا جان سے وارننگ بھی ملی تو کچھ ہوش ٹھکانے آیا۔

اگرچہ ملاقات مختصر رہی لیکن پھر طارق عزیز صاحب کی شخصیت کے بارے میں جاننے کا تجسس بیدار ہو گیا تو علم ہوا کہ کتنی صابر، با وقار، عمدہ اور نفیس ترین شخصیت کا مالک تھا یہ انسان۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے کیریئر کے آغاز میں وہ وقت بھی تھا کہ جب طارق صاحب کو کئی کئی وقت کھانا نصیب نہ ہوتا، سونے کے لئے جگہ نہیں تھی تو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سونا پڑتا، محنت اور ایمانداری کو اپنا شعار بنا کر وہ مقام اور سٹیٹس حاصل کیا کہ جو بھوکے پیٹ سڑک پر سونے والا  کوئی عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا لیکن وہ عام انسان تھے کب؟ وہ تو طارق عزیز تھے۔ دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنی 5 کروڑ کی جائیداد اپنے ملک پاکستان کے نام کر گئے، وہی پاکستان جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا تھا۔ ہمارا طارق عزیز تو تھا ہی، عظیم بھی تھا در حقیقت عظمت کا فلک بوس مینار تھا۔ اپنے پیچھے ایسا خلاء چھوڑ گئے جس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔

آج اس عظیم انسان کی تیسری برسی ہے، اللہ ان کے درجات بلند ترین فرمائے۔

(آمین)

Loading