ستاروں کی کیمیا گری
تحریر ۔۔۔محمد سلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ستاروں کی کیمیا گری۔۔۔ تحریر ۔۔۔ محمد سلیم)ستاروں کی کہانی ایک سرد گیس کے بادل سے شروع ہوتی ہے، جو کشش ثقل کی نرم مگر ناقابل مزاحمت گرفت میں آ کر سکڑنے لگتا ہے۔ جیسے جیسے یہ بادل سمٹتا ہے، اس کا مرکز گرم ہوتا جاتا ہے، اور درجہ حرارت اور دباؤ کی شدت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ہائیڈروجن کے پروٹان ایک دوسرے سے قریب آنے لگتے ہیں۔ یہ قریب آنا کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ایک خوبصورت جوہری رقص ہے جو ستاروں کو روشن رکھتا ہے۔ پروٹان پروٹان چین کے ذریعے دو پروٹان مل کر، ایک کمزور جوہری قوت کے تحت، ایک پروٹان کو نیوٹران میں بدلتے ہیں۔ نتیجہ؟ ایک ڈیوٹیریئم کا نیوکلئیس، جو پھر ایک اور پروٹان کو اپنے ساتھ ملا کر ہیلیئم-3 بناتا ہے، اور آخر میں دو ہیلیئم-3 مل کر ہیلیئم-4 تخلیق کرتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے سورج جیسے ستاروں کی جان ہے، جو اربوں سال تک توانائی کی صورت میں روشنی اور حرارت بکھیرتا رہتا ہے۔
بڑے اور گرم ستاروں میں یہ پراسس تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ یہاں کاربن نائٹروجن آکسیجن (سی این او) سائیکل کام کرتا ہے، جو ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں تبدیل کرنے کا ایک تیز تر راستہ ہے۔ لیکن نتیجہ ایک ہی ہے: ہائیڈروجن آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے، اور مرکز میں ہیلیئم کا ڈھیر لگتا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی کا پہلا باب ہے جو ستارے کی زندگی کو مرحلہ در مرحلہ تبدیل کرتا ہے۔ جب مرکز میں ہائیڈروجن کی کمی ہوتی ہے، تو فیوژن کی آگ مدھم پڑنے لگتی ہے۔ کشش ثقل پھر سے غالب آتی ہے، اور مرکز مزید سمٹنے لگتا ہے۔ یہ سمٹاؤ ایک نئی زندگی کی نوید ہے، کیونکہ اب درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ ہیلیئم خود ایندھن بن جاتی ہے۔ یہ مرحلہ تین الفا پروسیس کہلاتا ہے، جہاں تین ہیلیئم-4 کے نیوکلئیس مرحلہ وار جڑ کر کاربن تخلیق کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ایک اضافی ہیلیئم شامل ہو کر آکسیجن بھی بن جاتی ہے، اور ستارہ اپنے حجم میں پھیل کر ایک سرخ دیو کا روپ دھارتا ہے۔
بڑے ستاروں کی کہانی یہاں نہیں رکتی، یہ ایک مسلسل سفر ہے جو جوہری بھٹی کو مزید گرم کرتا جاتا ہے۔ کاربن جلنے کا مرحلہ آتا ہے، جہاں کاربن کاربن کے ملاپ سے نیون، سوڈیم، اور میگنیشیئم جیسے عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ عمل ستارے کے مرکز کو مزید گرم کرتا ہے، اور اب نیون کی باری آتی ہے۔ نیون جلنے کے دوران توانائی اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ نیون کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں، اور یہ ٹکڑے دوبارہ جڑ کر آکسیجن اور میگنیشیئم بناتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جوہری الکیمی ہے جو ستارے کو نئی طاقت دیتی ہے، مگر یہ بھی عارضی ہے۔ پھر آکسیجن جلتی ہے، جو سلیکن، سلفر، اور دیگر الفا عناصر کو جنم دیتی ہے۔ آخر میں سلیکن کا مرحلہ آتا ہے، اب سب سے زیادہ پیدا ہونے والے عناصر نکل-56 اور اس کے قریبی آئرن گروپ کے نیوکلئیس ہوتے ہیں، جو تابکاری زنجیر کے ذریعے کوبالٹ-56 اور بالآخر آئرن-56 میں بدل جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ ستارے کی بھٹی کو ایک بنیادی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے۔ آئرن گروپ کے نیوکلئیس فی نیوکلیون بندھن توانائی کے اعتبار سے چوٹی پر ہوتے ہیں، یعنی ان سے آگے فیوژن توانائی پیدا کرنے کی بجائے جذب کرتی ہے۔
یہاں ستارے کی بھٹی خاموش ہو جاتی ہے۔ مرکز اب آئرن کے انبار سے بھرا ہوتا ہے، جو مزید حرارت پیدا نہیں کرتا۔ چند لمحوں میں مرکز کی کمیت بڑھ جاتی ہے، اور پریشر جو کہ کور کو سہارا دیتا ہےناکافی ہو جاتا ہے۔ دباؤ اتنا بڑھتا ہے کہ الیکٹران پروٹانوں میں دھنس کر انہیں نیوٹران میں تبدیل کر دیتے ہیں، ایک عمل جسے الیکٹران کیپچر یا معکوس بیٹا ڈیکی کہتے ہیں۔ اس سے نیوٹرینو خارج ہوتے ہیں، اور مرکز میں آزاد الیکٹران ختم ہونے لگتے ہیں۔ برقی دباؤ ٹوٹتا ہے، اور کور بلا روک ٹوک اندر کی طرف گرنے لگتا ہے۔ یہ گراؤٹ سپرنووا کے دھماکے کی تمہید ہے، ایک ایسا تماشا جو کائنات کو نئی روشنی سے بھر دیتا ہے۔
یہ گراؤٹ ایک زبردست جھٹکے کا باعث بنتا ہے۔ باہر سے گرتی ہوئی تہیں اس سخت نیوٹرونی مرکز سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں۔ اسی وقت اربوں کھربوں نیوٹرینو مرکز سے نکل کر مادے میں تعامل کرتے ہیں، جو اس جھٹکے کو مزید طاقت دیتے ہیں۔ نتیجہ ایک سپرنووا، جو ستارے کی بیرونی پرتوں کو اڑا دیتا ہے۔ یہ روشنی اتنی شدید ہوتی ہے کہ یہ ایک پوری کہکشاں کی مانند چمک اٹھتی ہے، اور یہ دھماکہ نئی کیمیاگری بھی کرتا ہے۔ جھٹکے کی لہریں پہلے سے موجود تہوں کو گرم کر کے الفا عناصر کو مزید پھیلاتی ہیں، جیسے آکسیجن، نیون، میگنیشیئم، سلیکن، سلفر، کیلشیم، اور آئرن گروپ کی فراوانی بڑھ جاتی ہے۔ اس ماحول میں نیوٹرانوں کی بارش تیز رفتار آر پروسیس کو جنم دیتی ہے، جہاں بھاری عناصر جیسے سونا، پلاٹینم، ایریڈیم، اور یورینیم بنتے ہیں۔ یوں ہماری زمین کے زیور سے لے کر خون کا آئرن تک، سب اسی دھماکوں کی دین ہیں۔
(کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ بھاری عناصر سپر نوا سے نہیں بلکہ دو نیوٹران ستاروں کے تصادم سے بنتے ہیں۔2017 میں دو نیوٹران ستاروں کے ٹکراؤ کا مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔)
اب سوال ستارے کی ابتدائی کمیت کا ہے، جو اس کے انجام کا تعین کرتی ہے۔ اگر ابتدائی کمیت تقریباً آٹھ سے بیس پچیس سولر ماس کے درمیان ہو، تو عام طور پر دھماکے کے بعد باقی رہنے والا مرکز نیوٹران ستارہ بنتا ہے۔ اس سے زیادہ ماس ہو تو بلیک ہول بنتا ہے۔
ستارے کی اندرونی کہانی آئرن پر رک جاتی ہے، مگر اس کی موت سپرنووا کی صورت میں نئی زندگیاں جنم دیتی ہے، نیوٹران ستارے جو کائنات کے سب سے کثیف ہیرے کی طرح چمکتے ہیں، یا بلیک ہول جو اسرار کی گہرائیوں کو چھپاتے ہیں۔ ہمارے جسم کا آکسیجن، خون کا آئرن، اور زمین کے گہرے خزانوں کا سونا، سب اسی جوہری رقص کے روشن ابواب ہیں۔
#سپرنووا #ستاروں_کی_کیمیا #آئرن_گروہ #آر_عمل #نیوٹران_ستارہ #بلیک_ہول #سولر_ماس #فلکیات #سپیس_سائنس #محمد_سلیم #SaleemWrites