بسم اللہ الرحمن الرحیم
بانگ درا حصہ اول
نمبر شمار 37
*سرگزشتِ آدم*
سُنے کوئی مِری غربت کی داستاں مجھ سے
بھُلایا قصّۂ پیمانِ اوّلیں میں نے
لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنّت میں
پیا شعُور کا جب جامِ آتشیں میں نے
رہی حقیقتِ عالم کی جُستجو مجھ کو
دِکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں میں نے
مِلا مزاج تغیّر پسند کچھ ایسا
کِیا قرار نہ زیرِ فلک کہیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھّر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بُتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی میں ذوقِ تکلّم میں طور پر پہنچا
چھُپایا نورِ ازل زیرِ آستیں میں نے
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کِیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے
کبھی میں غارِ حرا میں چھُپا رہا برسوں
دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے
سُنایا ہند میں آ کر سرودِ ربّانی
پسند کی کبھی یُوناں کی سر زمیں میں نے
دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سُنی
بسایا خطّۂ جاپان و مُلکِ چیں میں نے
بنایا ذرّوں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلافِ معنیِ تعلیمِ اہلِ دیں میں نے
لہُو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
ڈرا سکِیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سِکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے
کشش کا راز ہوَیدا کِیا زمانے پر
لگا کے آئنۂ عقلِ دُور بیں میں نے
کِیا اسیر شعاعوں کو، برقِ مُضطر کو
بنادی غیرتِ جنّت یہ سرزمیں میں نے
مگر خبر نہ مِلی آہ! رازِ ہستی کی
کِیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے
ہُوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر
تو پایا خانۂ دل میں اُسے مکیں میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفہیم و تشریح
اس نظم میں حضرت آدم کی تخلیق سے لے کر حضور اکرم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے تمام اہم حالات کو نظم کیا گیا ہے اور اس بنا پر اس میں خاصی تلمیحات آگئی ہیں
-1 مجھ سے کوئی میری مسافرت کی کہانی سنے کہ کس طرح میں نے اپنے پہلے ہی عہد کی داستان بھلا دی۔ میں نے شیطان کے بہکانے پر شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور یوں مجھے جنت سے زمین کی طرف بھیج دیا گیا ۔
2 جب میں نے فہم و شعور کی تند و تیز شراب کا جام پی لیا تو میری طبیعت جنت کے باغ میں نہ لگی ۔ گویا اگر چہ مذکورہ پھل کھانے سے مجھ میں شعور ضرور پیدا ہوا لیکن اس کے نتیجے میں میری طبیعت بیقرار و مضطرب رہنے لگی ۔ یہ بیقراری میرا مقدر بن گئی ۔
3 زمین پر اتر کر اسے اپنا مستقل مقام بنا لیا اور یہاں مجھے کائنات کی حقیقت کی جستجو رہی ۔ اس بات کا بے حد شوق رہا کہ میں یہ جانوں اس کا ئنات کی اصلیت اور اس کا راز کیا ہے ۔ یه ( یہ شوق قدرت قدرت نے نے انسان کی کی فطرت میں میں رکھ رکھ دیا دیا اور یوں میرے -( انسان کے ) آسمان تک پہنچنے والے بلند خیل نے اپنی بلند پروازی کا مظاہرہ کیا۔
4مجھے قدرت کی طرف سے کچھ ایسا تغیر پسند مزاج ملا کہ مجھے آسمان کے نیچے ( دنیا میں ) کہیں بھی قرار نہ آیا۔ اس مزاج کی بنا پر میں ہمیشہ سفر میں رہا اور سفر کی تکالیف برداشت کرے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام کو ہجرت کرتا رہا۔
5کبھی تو میں نے کعبہ سے پتھر کی مورتوں / بتوں کو نکالا یعنی تو ڑا یعنی میں حضرت ابراہیم کی صورت میں ظاہر ہوا اور میں نے کعبہ میں رکھے ہوئے بت توڑ ڈالے اور کبھی بتوں کو میں نے حرم میں بٹھا دیا کبھی میں نے کافروں کی صورت اختیار کر کے کعبہ میں بت سجا دیئے۔
6کبھی میں اس ذات حق سے گفتگو کرنے کے ذوق شوق میں کو و طور پر پہنچا۔ یعنی حضرت موسی کی صورت میں خدا سے بات کرنے کے لیے طور پر پہنچا اور اسے رب ارنی کہا (اے رب ! مجھے اپنا جلوہ دکھا ) چنانچہ مجھے کلیم اللہ کہا گیا اور یوں میں نے اللہ تعالیٰ کا نور اپنی آستین میں چھپا لیا ۔ حضرت موسی کے اس معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ اپنا ہاتھ اپنی آستین سے باہر نکالتے تو وہ روشن ہو جاتا ۔
7کبھی ایسی صورت حال ہوئی کہ اپنوں ( دوسرے انسانوں ) ہی نے مجھے سولی پر لٹکا دیا چنانچہ میں نے زمین کو چھوڑ کر آسمان کا سفر کیا ۔ حضرت عیسی کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام دوسروں تک پہنچایا جس پر انہیں حاکم وقت نے سولی پر لٹکا دیا لیکن اللہ تعالی نے انہیں چوتھے آسمان پر اٹھالیا۔
8کبھی میں غار حرا میں برسوں چھپا رہا اور کبھی میں نے دنیا والوں کو آخری جام دیا۔ حضور اکرم کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ جام آخری یعنی شراب معرفت جو اسلام کے روپ میں آئی، حضور ا کرم کا دین ۔
9کبھی میں نے ہند میں آ کر سرو دربانی سنایا ( کرشن جی کی بانسری کا نغمہ یعنی کرشن نے ہند میں نغمہ توحید سنایا توحید کا پیغام سنایا ) اور کبھی میں نے یونان کی سرزمین کو پسند کیا ۔ افلاطون کے پیغام توحید کی طرف اشارہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بقیہ تفہیم و تشریح نظم سرگزشت آدم
*دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی*
*بسایا خطہَ جاپان و ملکِ چیں میں نے*
ہندوستان میں جب مہاتما بدھ کی حیثیت سے وہاں کے باشندوں نے میری صدا پر لبیک نہ کہا تو پھر میں نے جاپان اور چین جا کر وہاں کے لوگوں کو اپنی تعلیم سے آراستہ کیا ۔
*بنایا ذروں کو ترکیب سے کبھی عالم*
*خلافِ معنیِ تعلیم اہلِ دیں میں نے*
حضرت عیسی سے چار صدی قبل کی فلسفی دیم قراطیس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کائنات مادے کے ذروں سے مل کر بنی ہے اور خدا نہیں ہے ۔کبھی میں نے ایک سائنسدان کی حیثیت سے اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کائنات کا وجود مادہ کے ذریعے عمل میں آیا اور روح کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ نظریہ ان لوگوں کے نظریات کی نفی کرتا ہے جو مذہب اور دین پر عقیدہ رکھتے تھے ۔
*لہو سے لال کیا سیکڑوں زمینوں کو*
*جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے
اس کے بعد صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ تعقل پرست اور مذاہب پر یقین رکھنے والے لوگوں میں جنگ و جدل کا بازار ایسا گرم ہوا جس میں لا تعداد لوگوں کے خون سے زمین سرخ ہو گئی ۔
*سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی*
*اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے*
پھر یوں بھی ہوا کہ میں نے ستارہ شناسی اور اس کی حقیقت کے ادراک کے لیے نہ جانے کتنی راتوں تک بیدار رہ کر ریا ضت کی ۔
*ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں*
*سکھایا مسَلہ گردشِ زمیں میں نے*
برنیکس نے جب زمین کی گردش کا انکشاف کیا تو مسیحی پادریوں نے اس کا گھیراوَ کر لیا ۔ اس لیے اکثر مذاہب کی طرح عیسائی بھی اس عقیدے کے حامل تھے کہ زمین ساکن ہے لیکن برنیکس نے اپنی تحقیقات سے یہ ثابت کر دکھایا کہ زمین ساکن نہیں بلکہ متحرک ہے ۔ پھر جب اس نظریے کی مخالفت میں تلواریں نکل آئیں پھر بھی برنیکس نے مزید تحقیقات جاری رکھیں اور وہ اس نوع کی مخالفت کے روبرو ڈٹ گیا ۔
*کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر*
*لگا کے آئنہ عقلِ دوربیں میں نے*
انسان کہتا ہے کہ اس کے بعد میں نے بحیثیت سائنس دان اپنی دانش و جستجو سے یہ راز آشکارا کیا کہ اشیا جو فضا میں موجود ہیں وہ اوپر کی طرف جانے کی بجائے زمین کی طرف ہی کیوں راغب ہوتی ہیں
*کیا اسیر شعاعوں کو، برقِ مضطر کو*
*بنا دی غیرتِ جنت یہ سرزمیں میں نے*
یہی نہیں بلکہ دنیا کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے میں نے شعاعوں اور برق سے سبق حاصل کر کے بجلی پیدا کی جو ہر طرف روشنی کا ذریعہ بنی ۔
*مگر خبر نہ ملی آہ! رازِ ہستی کی*
*کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے*
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے فہم و ادراک سے میں نے ساری دنیا کو تسخیر تو کر لیا لیکن یہ راز نہ پا سکا کہ ہستی کیا شے ہے
*ہوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر*
*تو پایا خانہَ دل میں اُسے مکیں میں نے*
لیکن میری ظاہر پرست آنکھ جب حقیقت کو پانے کے قابل ہو سکی تو پتہ چلا کہ حسن ازل اور حقیقت زندگی تو خود میرے دل کے اندر مقام کیے ہوئے ہے۔
شارح ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی