سقراط کا ایک مکالمہ: “سچائی کیا ہے؟”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )منظر: ایتھنز کا ایک چوک۔ لوگ مختلف موضوعات پر بحث کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان سقراط کے پاس آتا ہے۔
👦 نوجوان: اے سقراط! مجھے بتاؤ، سچائی کیا ہے؟ کیا یہ وہی ہے جو سب لوگ مانتے ہیں؟
👴 سقراط: (مسکرا کر) تو کہتا ہے جو سب مانیں، وہی سچ ہے؟
👦 نوجوان: جی ہاں، کیونکہ اکثریت کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔
👴 سقراط: اچھا، اگر کل سب لوگ یہ مان لیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، تو کیا یہ حقیقت بن جائے گی؟
👦 نوجوان: (چونک کر) نہیں… حقیقت تو اپنی جگہ قائم رہتی ہے، چاہے لوگ کچھ بھی مانیں۔
👴 سقراط: تو پھر اکثریت کا ماننا سچائی کی ضمانت کیسے ہو سکتا ہے؟
👦 نوجوان: (خاموش ہو کر سوچنے لگتا ہے) پھر سچائی کہاں ہے؟
👴 سقراط: سچائی وہ ہے جو عقل اور تجربے کے کسوٹی پر پرکھی جائے۔
لیکن یاد رکھو، سچائی تک پہنچنے کے لیے سوال کرنا ضروری ہے۔
جو سوال نہیں کرتا، وہ اندھیروں میں رہتا ہے۔
سقراط آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور آہستہ کہتا ہے:
“میں کچھ نہیں جانتا، لیکن یہی نہ جاننا ہی میری اصل دانائی ہے۔”
👦 نوجوان: (احترام سے) اے استاد! آج آپ نے جواب نہیں دیا، مگر میرا دل سوالات سے روشن ہو گیا ہے۔
👴 سقراط: یہی تو علم کی پہلی روشنی ہے، میرے دوست۔
سقراط کا طریقہ یہی تھا: وہ براہِ راست “جواب” نہیں دیتا تھا بلکہ سوالات کے ذریعے ذہن کو جھنجھوڑ کر سوچنے پر مجبور کرتا۔ اسی لیے اُس کی تعلیم آج بھی فلسفے کی بنیاد ہے۔