Daily Roshni News

سقراط کا طریقۂ کار (Socratic Method)

* سقراط کا طریقۂ کار (Socratic Method)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سقراط کہتا تھا:”Doubt is the origin of truth.”

یعنی شک اور سوال کرنا ہی آپ کو سچائی کے راستے پر لے جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جب آپ شک کریں گے تو سوال کریں گے، سوال کریں گے تو جواب تلاش کریں گے، اور ان جوابات سے مزید سوال جنم لیں گے۔ یوں یہ عمل (Process) جاری رہے گا اور آپ مسلسل سچائی کی جستجو میں رہیں گے۔ یعنی ہر فلسفی کا بنیادی کام یہی ہے کہ وہ سوالات اٹھائے۔

سقراط کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہمیں صرف دوسروں سے سوال نہیں پوچھنے چاہییں، بلکہ سب سے اہم یہ ہے کہ سب سے پہلے سوالات خود سے کیے جائیں۔ سقراط کے نزدیک خود احتسابی (Self-examination) بہت ضروری ہے۔

یعنی ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، اور جو کام ہم کر رہے ہیں، کیا وہ درست ہے یا نہیں؟

یونان کے قدیم فلسفے میں کہا جاتا تھا:

“Know thyself.”

جس کا مطلب وہ اپنی تقدیر کو پہچاننے کے طور پر لیتے تھے۔ مگر سقراط کے مطابق “Know thyself” کا مطلب تھا کہ انسان خود سے یہ سوال کرے کہ؛

۱) اچھائی کیا ہے؟

۲) برائی کیا ہے؟

۳) اور ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

سقراط سے منسوب ایک مشہور قول ہے؛

“The unexamined life is not worth living.”

یعنی اگر آپ نے اپنی زندگی کے حوالے سے سوالات ہی نہیں اٹھائے، تو آپ کی زندگی مکمل طور پر بے معنی ہے۔

سقراط اپنے بارے میں بھی کہتا تھا کہ؛

“What I do not know, I do not think I know.”

یعنی جو چیز میں نہیں جانتا، اس کے بارے میں یہ گمان بھی نہیں کرتا کہ میں اسے جانتا ہوں۔ لہٰذا میں اس کے بارے میں سوال کرتا ہوں اور مسلسل اس کی سچائی اور گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔

سقراط نے اپنے زمانے کی بنیادی چیزوں پر سوال اٹھانا شروع کیے، جیسے:

۱) اچھائی اور برائی کیا ہے؟

۲) علم کیا ہے؟

۳) بہادری کیا ہے؟

۴) اور عدل و انصاف کیا ہے؟ وغیرہ

* سقراطی مکالمہ (Socratic Dialectics)

سقراط کے طریقۂ کار کو سقراطی مکالمہ یا جدلیاتی مکالمہ کہا جاتا ہے۔ Dialectics یعنی؛

* Di: دو

* Lectics: الفاظ

یعنی دو نقطہ نظر کا ٹکراؤ۔ یہ تصور (concept) سقراط نے انیکسی مینڈر (Anaximander) اخذ کیا تھا۔

جب دو نقطۂ نظر میں ٹکراؤ ہوتا ہے؛ ایک دعویٰ اور دوسرا اس پر سوال، تو سقراط یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ہر دعویٰ کی بنیاد میں مزید کئی دعوے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم اصل بنیاد تک پہنچیں، اور دیکھیں کہ کہیں اس بنیاد میں ایسا کوئی دعویٰ تو نہیں جو دوسرے دعوے سے متضاد ہو۔

یہی وجہ ہے کہ سقراطی مکالمہ کی بنیاد ایک اصول پر ہے جسے ہم کہتے ہیں؛

“Principle of Non-Contradiction”

یعنی کوئی بھی شے اپنے مخالف کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتی، اور کوئی بھی دعویٰ اگر دوسرے دعوے سے متضاد ہو تو دونوں ایک ساتھ درست نہیں ہو سکتے۔ اگر سوالات و جوابات کے سلسلے میں ہمیں دو متضاد دعوے نظر آئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سوچ میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہے، اور اسی غلطی کو تلاش کرنے کے لیے سقراط جدلیات (Dialectics) کا استعمال کرتا تھا۔

سقراط اپنے بارے میں بھی کہتا تھا، حالانکہ وہ نہایت ذہین تھا:

“I know only one thing, that I know nothing.”

یعنی میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

وہ دوسروں کو یہ نہیں کہتا تھا کہ میں تمہیں جواب دیتا ہوں، بلکہ کہتا تھا: “مجھے تو کچھ نہیں معلوم، آپ بتائیں کیا درست ہے اور کیا غلط؟” اور پھر وہ ان باتوں پر سوال اٹھاتا تھا۔

یعنی وہ ظاہر کرتا تھا کہ اسے کچھ معلوم نہیں، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ یہ اس کے فلسفیانہ طریقۂ کار کا حصہ تھا۔

سقراط کو یہ شوق نہیں تھا کہ وہ کسی کمرے کے کونے میں بیٹھ کر یا پہاڑ کی چوٹی پر جا کر فلسفہ کرے، بلکہ وہ بازار میں جاتا تھا اور لوگوں سے سوالات کرتا تھا۔

یعنی اس کا فلسفہ سکھانے کا انداز یہ نہیں تھا کہ وہ استاد ہو اور لوگ شاگرد، بلکہ جس سے وہ سوال کرتا تھا، اسے استاد مانتا تھا، اور خود کو شاگرد۔

سقراط اس خیال کو یوں بیان کرتا تھا کہ: “میں کوئی استاد نہیں ہوں، میرا کام صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں جو خیال یا تصور ہے، اسے پیدا کرنے اور صحیح رخ دینے میں مدد کروں۔”

یعنی وہ دوسرے کے اندر چھپے علم کو ظاہر کرنے میں مدد دیتا تھا۔

* سقراط بمقابلہ لیچس (Socrates vs Laches)

۰ سقراط: میرا ایک سوال ہے، بہادری کیا چیز ہے؟

۰ لیچس: بہادری یعنی ڈٹ جانا۔

۰ سقراط: یعنی بہادری ایک اچھی چیز ہے، ہے نا؟

۰ لیچس: جی، ہم کہہ سکتے ہیں۔

۰ سقراط: تو کیا ہم کسی غلط چیز پر بھی ڈٹ سکتے ہیں؟

۰ لیچس: جی، یہ بھی ممکن ہے۔

۰ سقراط: اگر ہم غلط چیز پر ڈٹ جائیں، تو پھر یہ اچھی چیز نہیں رہی نا؟

۰ لیچس: جی، درست ہے۔

۰ سقراط: تو بہادری وہ ہوگی جب کوئی شخص کسی اچھی چیز پر ڈٹ جائے؟

۰ لیچس: ہاں، یہ بات مناسب ہے۔

۰ سقراط: تو بہادری ڈٹنے کا نام نہیں، بلکہ علم ہے؟ اور علم ایک وسیع چیز ہے۔ بہادری علم کا ایک حصہ ہو سکتی ہے، مگر مکمل علم بہادری نہیں؟

۰ لیچس: جی، بالکل درست فرمایا۔

۰ سقراط: اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ بہادری دراصل ہے کیا چیز!

Loading