Daily Roshni News

سلسلہ عظیمیہ اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر3

سلسلہ عظیمیہ

اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ

تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ اُس کی علمی و سماجی خدمات کا تحقیقی جائزہ ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹروقار یوسف عظیمی ) کی۔ 18 سال کی عمر میں فوج میں ملازمت اختیار کی۔ پھر طبیعت میں جذب و استغراق بڑھتا چلا گیا۔ آپ سے اکثر اوقات کشف و کرامات کا صدور ہوتا رہتا تھا۔ 26 محرم 1344ھ مطابق 17 اگست 1925ء کو آپ نے وصال فرمایا۔ [135]

حضرت بابا تاج الدین ؒرشتہ میں سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت قلندر بابا اولیاء کے نانا تھے۔ قلندر بابا اولیان بابا تاج الدین ناگپوری کے پاس نو سال تک مقیم رہے۔ نو سال کے عرصہ میں بابا تاج الدین نے قلندر بابا اولیانہ کی روحانی تربیت فرمائی۔

حضرت قلندر بابا اولیاء کے مرشد کریم ابو الفيض قلندر علی سہروری (1313ه-1377ھ) بھی اس صدی کے اہم بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کا مزار ہنجروال لاہور میں مرجع خلائق ہے۔ [136] حضرت ذوقی شاہ (وصال 1370ھ) کبھی چودہویں ہجری کے ایک صوفی بزرگ ہیں۔ آپ نے صوفیانہ افکار کو لوگوں میں آسان اور عام فہم انداز میں پہنچانے کے لئے تحریر و تقریر دونوں سے کام لیا۔ حضرت ذوقی شاہ کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں: مضامین ذوقی، سر دلبراں، برزخ، Sufism اور

-New Searchlight on Vedic Aryansاسی صدی کے ایک معروف صوفی پروفیسر غلام مصطفی خان (1330ھ۔ 1426ھ ) بھی ہیں۔ آپ نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور عرصہ دراز تک تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔ آپ نقشبندیہ سلسلہ کے مجاز بزرگ تھے۔ سندھ یونیورسٹی حیدر آباد میں واقع آپ کی رہائش گاہ طریقت نقشبندیہ کا ایک اہم مرکز کبھی جاتی تھی جہاں دور دور سے لوگ علم و معرفت کےموتی اکھٹا کرنے آتے۔

چودہویں صدی کے ایک اور روحانی بزرگ ابدال حق قلندر بابا اولیات (1315ه-1399ه) ہیں۔ قلندر بابا اولیاء سلسلہ عظیمیہ کے امام ہیں۔ آپ کی تعلیمات کوئی نئی تعلیمات نہیں بلکہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ملی لی نام اور ان کے وارث اولیاء ا اللہ کی تعلیمات کا تسلسل ہیں۔ قلندر بابا اولیانا کا تفصیلی تعارف باب سوم میں بیان کریں گے۔

ماحاصل:ہم نے صوفیائے کرام کی بیان کی ہوئی تعریف اور تشریح کی مدد سے یہ تحقیق پیش کی کہ

تزکیہ نفس کے ذریعے خود کو اللہ تعالی کی پسندیدہ طرزوں میں ڈھال لینے کا نام تصوف ہے۔ حضرت داتا گنج بخش کے مطابق تصوف کی لفظی تشریح کرنا ست نہیں ہے۔ تصوف اپنی معنوی حیثیت میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے یعنی خدا کو پانے کی طلب اور اس طلب کو پورا کرنے کے لئے تزکیہ کے عمل سے گزرنا۔ قرآن پاک میں تزکیہ نفس پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ تزکیہ یا ذہنی و روحانی تربیت روحانی علوم کے حصول کی ابتدائی سیڑھی ہے۔ جس پر ایک ایک کر کے آدمی چڑھتا جاتا ہے اور نفس کی آلائشوں سے پاک ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور

احادیث نبوی ﷺ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام اور ایمان دو علیحدہ کیفیات ہیں۔ اسلام کے زریں اصولوں پر چل کر قلب ، روح اور ذہن کا تزکیہ کرنا ایمان کے زمرے میں آتا ہے۔

ی صوفیانہ تعلیمات بھی قلب و روح کی پاکیزگی اور طہارت پر زور دیتی ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں که تصوف یا روحانیت در حقیقت ایمان کی جامع طرزوں کے حصول کا ہی دوسرا نام ہے۔

ه شریعت در حقیقت قواعد و ضوابط جبکہ طریقت ان قوائد و ضوابط کے مثبت روحانی نتائج کو کہتے ہیں۔ یہ دونوں ایک ورق کے دو صفحات یا ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ ان دونوں میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مطابق دین کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ۔ تصوف در حقیقت اسی باطنی رخ کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔

تصوف اس ذوق کا نام ہے جو کسی انسان کے دل و دماغ میں خدا سے ملنے کے لئے موجزن ہوتا ہے چنانچہ یہ طلب ابتدائے آفرینش سے حق کے متلاشی افراد میں موجود رہی ہے، آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ یہ سائنس اورائے حواس اور اک Extra Sensory Perception یا E.S.P کی تلاش میں مصروف ہے

یعنی ایسے وقوعات کی تلاش جو عام حواس خمسہ کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ اس سائنسی تلاش میں متعدد ممالک میں پیراسائیکالوجی کے موضوع پر ریسرچ کی جارہی ہے لیکن ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو ر ہنمائی فراہم کر دی ہے ۔ جدید تحقیق اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2017

Loading