Daily Roshni News

سوال:-یہ کس طرح پتہ چلتا ہے کہ خدا بندے کی تلاش میں ہے؟۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت واصف علی واصف ؒ

سوال:-یہ کس طرح پتہ چلتا ہے کہ خدا بندے کی تلاش میں ہے؟

تحریر۔۔۔حضرت واصف علی واصف ؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جواب:-*رحمتِ حق انسانوں کا شکار کرتی ہے ، گناہ میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو شکار کر کے لاتی ہے اور وہ ان کی تلاش میں ہے ۔ کیسے تلاش میں ہے؟ اگر انسان غافل ہے تو اسے جگاتی ہے ۔ ہمارا حاصل دراصل اس کی عطا ہے اور یہ ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں ہے ۔ رحمتِ حق جو ہے وہ سورج کی کرنوں کی طرح اندھیروں کے تعاقب میں جاتی ہے اور روشنی فراہم کرتی ہے ۔ رحمتِ حق جو ہے یہ گناہ گاروں کے تعاقب میں جاتی ہے کہ کدھر غافل پھرتے ہو ، ادھر آوء ۔ پھر کوئی نہ کوئی جلوہ خود یا کوئی جلوہ دینے والا بندہ پہنچ جائے گا اور آپ کا احساس بدل جائے گا ۔ یہ ہے رحمتِ حق ۔ رحمتِ حق وہ واقعہ ہے جو آپ کو حق کی طرف رجوع کرائے ، وہ واقعہ حادثہ بھی ہو سکتا ہے اور تکلیف بھی ہو سکتی ہے ، پریشانی بھی ہو سکتی ہے ، وہ غریبی بھی ہو سکتی ہے ، وہ مہربانی بھی ہو سکتی ہے ، وہ عنایت بھی ہو سکتی ہے ۔ اس لیے ہر وہ چیز جو آپ کو اللہ کی طرف رجوع کرائے وہ رحمتِ حق ہے ۔ تو اللہ اپنے بندوں کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ ٹھیک بات ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ اس نے ہمارے لئے خزانے مقرر کر رکھے ہیں ، خزانے نیکی کے اور عرفان کے ۔ جو اِدھر اُدھر پھر رہا ہے وہ اسے کہے گا کہ واپس آ جا ۔ وہاں آگے کوئی بندہ ملے گا کیونکہ رحمتِ حق کو بندے ، بندوں کے پیچھے لے کے پھرتے ہیں اور اس کو گناہ سے نکالتے ہیں ۔ انسان خدا کی تلاش کرتے کرتے ، خدا کے بندے تک پہنچ جاتا ہے اور خدا کا بندہ اس کو خدا کی راہ دکھاتا ہے ۔ یہ یاد رکھنا کہ سارے بندے فانی ہیں ، بتانے والا بھی اور سننے والا بھی ، چل سو چل ، میلہ ختم ہو جاتا ہے ، جب تک میلہ ہے تب تک رونقیں ہیں ۔ آپ میلہ انجوائے کرو اور اپنا رخ صحیح رکھو ۔ رخ یہ ہے کہ ہم ہر وقت اللہ کی طرف دیکھیں ”انا لله وانا الیہ راجعون“ ہم اللہ کے ہیں اسی کے نام سے یہاں ہیں اور ہم اس کی طرف جانے کے لیے تیار ہیں ۔ ہم یہاں صرف میلہ دیکھ رہے ہیں اور میلہ تو اسی نے دکھایا ہوا ہے ۔ ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ شکر ادا کرنے والوں کے لیے یہ کائنات بڑا راز ہے اور یہ کائنات بڑا جلوہ ہے ۔ گلہ کرنے والے کے لیے یہ کائنات آزمائش ہے ۔ یہ یاد رکھنا کہ گلہ کرنے والا آزمائش سے بچ نہیں سکتا اور شکر کرنے والا لطف سے بچ نہیں سکتا ۔ شکر کرنے والے کو لطف مل کے رہے گا ۔ گلہ نہ کرو تو زندگی بھی لطف بن جائے گی اور اگر تم گلہ کرو گے تو یہ زندگی آزمائش بن جائے گی ۔ آزمائش سے بچنا بڑا مشکل ہے ۔ زندگی کو ہم خود ایسے آزمائش بناتے ہیں کہ یہ کوئی حالات ہیں ، یہ کوئی واقعات ہیں ، یہ سب کیا ہو رہا ہے اگر دیکھیں تو دن اچھا گزر رہا ہے اور وقت اچھا گزر رہا ہے یعنی جو ہوا ، جو ہو رہا ہے اچھا ہو رہا ہے اور جو ہو گا اچھا ہو گا ۔ صرف اتنا کہنے سے حالات بدل جائیں گے ، اتنا کہنے سے حالات درست ہو جائیں گے کیونکہ وہ سب جانتا ہے ۔ ایک غریب سائل ایک جگہ پر آیا ، وہاں اونچا اونچا بول رہا ہے ، ان سب کو Openly Address کر رہا ہے کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس پیسے لینے آتے ہیں ، ہم خود ہی آپ کو دے دیں ۔ جیب میں ہاتھ مارا مگر جیب خالی تھی ۔ پھر کہتا ہے کہ پیسے ہیں ہی نہیں ، ہم دیں کیا ، اگر ہوتے تو میں آپ کو کئی دفعہ دے دیتا ۔ اس کی بات کا لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ لوگوں نے اس کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگا دیا ۔ پھر اس نے کہا کہ یااللہ پیسے نہیں دینے تھے مگر تو دینے سے باز نہیں آتا ، تو ہی تو دیتا ہے اور ہمیشہ تو ہی دیتا ہے ۔ اس نے آدھے پیسے رکھ لئے اور آدھے پیسے پھر لٹا دیئے ۔کہتا ہے بس مجھے جتنی ضرورت ہے میں لے چلا ہوں اور باقی تیرے فقیروں کو دے چلا ہوں ۔ مدعا یہ ہے کہ خوشگوار خیال والوں کے لیے یہ کائنات خوشگوار ہے ، ظريف کو ظرافت مل جائے گی ، رونے والے کو رونے کا وقت مل جائے گا ، وہ قبرستان میں گیا تو اس کے پاؤں کے نیچے کھوپڑی آ گئ تو اس نے رو رو کر یہ شعر کہا

             کل   پاؤں  ایک   کاسہِ سر    جو   پڑ  گیا

            یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

            کہنے   لگا  کہ  دیکھ  کے  چل راہ  بے خبر

            میں  بھی  کبھو  کسی کا سرِ پُر غرور تھا

یعنی کہ اس کے پاؤں سے مردے کی ہڈی ٹوٹ گئ ، کھوپڑی ٹوٹ گئ اور اس کھوپڑی نے آواز دی کہ اے بے خبر دیکھ کے چل ، میں بھی کبھی کسی پر غرور انسان کا سر ہوتا تھا اور آج میں اس حالت میں پہنچا ہوا ہوں ۔ ایک جگہ دو آدمی تھے ۔ ایک ہنس رہا تھا اور دوسرا رو رہا تھا ۔ اس نے پوچھا تو ہنس کیوں رہا ہے ۔ کہتا ہے مجھے تیرے رونے پہ ہنسی آ رہی ہے ۔ اور تُو کیوں رو رہا ہے؟ تیری ہنسی پہ تو مجھے رونا آ رہا ہے ۔ رونے والا رو رہا ہے اور ہنسے والا ہنس رہا ہے ۔ یہ کائنات دونوں کے لیے ایک الگ جلوہ ہے ۔ جو فانی ہے اس کو اس کائنات میں فنا نظر آئے گی ، وہ کہتا ہے کہ چار دن کا میلہ ہے ، بس سب گئے ، ہر شے فنا ہو گئ ۔ اور جو باقی کے ساتھ متعلق ہو جائے گا وہ کہتا ہے کہ شے باقی ہے ، ہر چیز موجود ہے ، اس کا جلوہ عین موجود ہے اور ہر جا عین ظہور ہے ۔ تو یہ آپ کا اپنا خیال ہے ۔ لہٰذا آپ اپنے خیال کی اصلاح کرو ، اپنا نام آپ خود رکھو ، اپنے گلے آپ بند کرو ، کچھ فیصلے اللہ کی طرف سے خود کر لو ۔ پہلا فیصلہ یہ کرو کہ تم نے راضی رہنا ہے کہ نہیں رہنا ۔ راضی وہ ہے جو تقاضا نہ کرے ۔ جو سائل ہوتا ہے وہ آواز لگاتا ہے ، سوال پورا ہوا اور وہ جائے اپنا کام کرے مگر طالب ہوتا ہے دروازے پر بیٹھنے والا اور وہ سوال نہیں کرتا ۔ بس طالب ہونا جو ہے وہ بہت بہتر ہے کہ وہیں کے ہو رہو ، جو وہ عطا کرتا ہے اس میں راضی ہو جاوء ۔ وہ ضرور عطا فرماتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گفتگو 9……. صفحہ نمبر 238، 239 ، 240 ، 241 ، 244

حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ

Loading