سورج: دیوتا سے ایک عام ستارے کی کہانی
تحریر ۔۔۔ محمد سلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ سورج: دیوتا سے ایک عام ستارے کی کہانی ۔۔۔ تحریر ۔۔۔ محمد سلیم) صدیوں پہلے جب انسان نے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کیا، تو دن کے اجالے میں سورج ایک زندہ خدا، ایک دہکتا دیوتا، یا مقدس چراغ سمجھا گیا، اور رات کے اندھیرے میں ستارے محض زینت یا قسمت کے اشارے۔ اُس دور میں یہ سوال ہی بے معنی ہوتا کہ سورج اور ستارے ایک جیسے ہو سکتے ہیں، کیونکہ ایک تو دن کا بادشاہ تھا، دوسرا رات کا غلام۔ ایک روشن اور قریب، دوسرا مدھم اور دور۔
مگر ہر دور میں کچھ ایسے دماغ ہوتے ہیں جو وقت سے آگے دیکھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ذہن یونان کا اینکزاگورس (Anaxagoras) تھا، جس نے تقریباً 450 قبل مسیح میں پہلی بار یہ چونکا دینے والا نظریہ پیش کیا کہ سورج ایک دہکتی ہوئی چٹان ہے، جو کم دوری کی وجہ سے ہمیں اتنا بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چاند سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے۔ اس وقت ان خیالات کو نہ صرف دیوانگی بلکہ مذہب سے بغاوت تصور کیا گیا۔ اینکزاگورس کو قید کیا گیا اور وہ بچا صرف اس لیے کہ اُس کے اثر و رسوخ والے دوستوں نے اسے بچا لیا۔
اسی کے کچھ عرصے بعد، 220 قبل مسیح میں، ایک اور یونانی مفکر “ایرسٹارکس آف ساموس” (Aristarchus of Samos) نے دو خطرناک خیالات پیش کیے: پہلا یہ کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے، اور دوسرا یہ کہ سورج بھی دوسرے ستاروں کی مانند ایک اجرامِ فلکی ہے۔ یہ نظریات اس قدر انقلابی تھے کہ سائنسی دنیا نے انہیں نظرانداز کر دیا، اور چرچ نے ان پر کفر کا گمان کیا۔ دو ہزار سال تک یہ خیالات دبا دیے گئے۔
وقت گزرتا گیا۔ 1543 میں نیکولس کوپرنیکس نے “heliocentric” ماڈل متعارف کرایا، کہ زمین نہیں بلکہ سورج مرکز ہے۔ لیکن اُس نے بھی سورج کو دوسرے ستاروں سے الگ ہی مانا۔ پھر سولہویں صدی کے آخر میں ایک ناقابلِ یقین شخص، جیورڈانو برونو، سامنے آیا، جس نے اعلان کیا کہ سورج محض ایک ستارہ ہے، اور تمام ستارے بھی سورج جیسے ہیں جن کے گرد سیارے گردش کرتے ہوں گے۔ برونو نے صرف یہ ہی نہیں کہا بلکہ یہ بھی کہ کائنات لامتناہی ہے، اور زمین اس میں کوئی مرکز نہیں۔ کلیسا نے اسے زندہ جلا دیا۔ کیونکہ وہ سچ بولنے کے قابل تھا، مگر وقت سچ سننے کے قابل نہیں تھا۔
اس کے کچھ ہی بعد گلیلیو گلیلی نے دوربین سے آسمان کو دیکھا۔ اُس نے دیکھا کہ سورج پر دھبے ہیں، چاند پر پہاڑ ہیں، مشتری کے چاند ہیں۔ اس نے برونو کی باتوں کو عملی مشاہدات سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اُس پر بھی کلیسا کا دباؤ آیا، مگر اسے معافی کی درخواست لکھوا کر چھوڑ دیا گیا۔
سترہویں صدی میں کیپلر اور نیوٹن نے آسمانی حرکات کے قوانین بنائے، اور دنیا کو بتایا کہ سورج کی کششِ ثقل ستاروں جیسے جسم کی ہی ایک خاصیت ہے۔ پھر، 1838 میں ایک تاریخی لمحہ آیا، جب فریڈرک بیسل (Friedrich Bessel) نے پہلی بار کسی ستارے کا فاصلہ ناپا، اور ثابت کیا کہ اگر ستارے دور ہیں، تو ان کی روشنی اور ساخت سورج سے ملتی جلتی ہے۔
انیسویں صدی کے آخر میں طیف بینی (spectroscopy) نے یہ بھی واضح کر دیا کہ سورج اور ستاروں کے طیف ایک جیسے ہیں، ان میں ہائیڈروجن، ہیلیم اور دیگر گیسیں پائی جاتی ہیں۔ یعنی کیمیائی ساخت بھی وہی ہے۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ سورج کی سطحی درجہ حرارت تقریباً 5700 کیلون ہے، جو کئی ستاروں کے قریب ترین تخمینے سے مطابقت رکھتی ہے۔
بیسویں صدی میں جب ایڈون ہبل نے کہکشاؤں کی وسعت دریافت کی، تو سورج کا معمولی ہونا اور زیادہ واضح ہو گیا۔ سورج صرف ملکی وے کہکشاں کے 100 ارب ستاروں میں سے ایک ہے۔ نہ سب سے بڑا، نہ سب سے چھوٹا۔ نہ سب سے روشن، نہ سب سے مدھم۔ ایک درمیانی “G-type main-sequence star”۔ یعنی وہ تمام خصوصیات جو پہلے اسے خاص بناتی تھیں، اب عام ہو چکی تھیں۔
یوں ایک ایسا سچ جو کسی زمانے میں زندہ جلنے کی سزا دیتا تھا، اب سائنسی نصاب کا بنیادی نکتہ بن چکا ہے۔ سورج واقعی ایک ستارہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ ہمیں قریب ہے۔ اور یہی قربت اسے دیوتا بناتی رہی۔
#سورج_کا_راز #سائنس_کی_تاریخ #ستارے_اور_سچائی #فلکیات #محمد_سلیم #SaleemWrites