Daily Roshni News

سورۃ المزّمّل — حصہ اوّل (آیات 1 تا 10)۔۔۔تمہیدی پس منظرِ نزول

سورۃ المزّمّل — حصہ اوّل (آیات 1 تا 10)

تمہیدی پس منظرِ نزول

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قیامُ اللیل، قرآن کی ترتیل، داعیِ حق کی روحانی تربیت اور صبر و توکل کا عظیم درس۔سورۃ المزّمّل مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی، جب نبوت کے آغاز کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ رسول اللہ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہو چکی تھی، آپ ﷺ کو اعلانِ نبوت کا حکم مل چکا تھا، لیکن دعوت ابھی ابتدائی، کمزور اور سخت مخالفت کے مرحلے میں داخل ہو رہی تھی۔ اہلِ مکہ کی طرف سے: * تمسخر کیا جا رہا تھا * جھٹلایا جا رہا تھا * سماجی دباؤ بڑھ رہا تھا * خاندان، برادری اور معیشت کے ذریعے رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں

ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے ﷺ کو سب سے پہلے **سیاسی طاقت، معاشرتی حکمتِ عملی یا ظاہری وسائل نہیں** بلکہ **روحانی طاقت** عطا فرمائی۔ اور یہ روحانی طاقت **قیامُ اللیل** اور **قرآن کی ترتیل** کے ذریعے عطا کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ المزّمّل کا آغاز کسی عسکری یا سماجی حکم سے نہیں بلکہ **رات کی عبادت** کے حکم سے ہوتا ہے، تاکہ دل مضبوط ہو، روح طاقت پکڑے، اور نفس کو اللہ کے حضور جھکا دیا جائے۔

✦ آیت 1: اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے

▣ خطاب کی لطافت اور محبت

یہ اندازِ خطاب انتہائی لطیف، محبت بھرا اور شفقت آمیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے: * نبی کریم ﷺ کو نام لے کر نہیں پکارا * بلکہ ایک نرم اور محبت بھرے انداز میں آپ کی موجودہ حالت کی طرف اشارہ فرمایا

یہ وہ زمانہ تھا جب وحی کے ابتدائی ثقل، ذمہ داری اور خوف نے آپ ﷺ کو باطنی طور پر جھنجھوڑ رکھا تھا۔ آپ کبھی چادر اوڑھتے، کبھی سوچ میں ڈوب جاتے، کبھی تنہائی اختیار کرتے، کبھی اللہ کی طرف رجوع کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی حالت میں فرمایا: اے چادر میں لپٹے ہوئے! یہ خطاب بتاتا ہے کہ: * اللہ اپنے بندے کی جسمانی اور نفسیاتی حالت سے بھی پوری طرح باخبر ہے * اللہ اپنے محبوب رسول ﷺ کو بےتکلف اور محبت سے مخاطب کر رہا ہے * دعوت کا آغاز سختی سے نہیں بلکہ شفقت سے ہوتا ہے

✦ آیت 2: رات کو قیام کرو مگر تھوڑا

▣ قیامُ اللیل کی پہلی بنیاد

یہ آیت قیامُ اللیل کے حکم کی بنیاد رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے: * پورا دن عبادت کا بوجھ نہیں رکھا * پوری رات جاگنے کا حکم نہیں دیا * بلکہ ابتدا میں صرف ’’تھوڑا‘‘ قیام رکھنے کا حکم دیا یہ دین کی حکمت ہے کہ: * ابتدا میں سختی نہیں کی جاتی * بلکہ تدریج کے ساتھ انسان کو عبادت کا خوگر بنایا جاتا ہے یہاں ایک اہم اصول یہ بھی سامنے آتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فطری کمزوریوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عبادات کا نظام بناتا ہے۔

✦ آیت 3: آدھی رات یا اس سے کچھ کم

یہاں قیام کی مقدار مزید واضح کی گئی: * کبھی آدھی رات * کبھی اس سے کچھ کم    یہ اس بات کی دلیل ہے کہ: * عبادت کو انسان کی طبیعت، صحت اور حالات کے مطابق رکھا گیا * عبادت میں یکسانیت لازم نہیں بلکہ توازن مطلوب ہے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ: * دعوتِ دین کے لیے صرف وقتی جوش نہیں * بلکہ مستقل روحانی مشق درکار ہوتی ہے

✦ آیت 4: یا اس سے کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو

▣ ترتیلِ قرآن کا جامع مفہوم

یہ آیت پورے قرآن کی تلاوت کا ایک بنیادی قاعدہ بیان کرتی ہے: **”ورتل القرآن ترتیلا”** ترتیل کا مطلب ہے: * حروف کو صحیح ادا کرنا * الفاظ کو واضح کرنا * آواز میں اعتدال رکھنا * معانی پر غور کرنا * دل کو حاضر رکھنا * دماغ کو بیدار رکھنا

یہ محض تیز رفتاری سے پڑھنا نہیں بلکہ: * دل کی گہرائی سے پڑھنا * فکر کے ساتھ پڑھنا * عمل کے ارادے سے پڑھنا   ہے۔ یہی وہ قرآن تھا جو صحابہ کے دلوں کو بدلنے والا بنا، قوموں کے مزاج کو بدلنے والا بنا، اور پوری دنیا کا رخ موڑ دینے والا بنا۔

✦ آیت 5: ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں

▣ قرآن کی عظمت اور ذمہ داری

یہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کو: * بوجھ کے لحاظ سے بھی بھاری قرار دیا * ذمہ داری کے لحاظ سے بھی بھاری قرار دیا * اثر کے لحاظ سے بھی بھاری قرار دیا یہ وہ کلام ہے جو: * دل کو ہلا دیتا ہے * باطل نظاموں کو گرا دیتا ہے * غرور کو خاک میں ملا دیتا ہے * انسان کو اللہ کے سامنے جھکا دیتا ہے اسی لیے اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے:

* مضبوط روح درکار ہے * مستحکم ایمان درکار ہے * مسلسل عبادت درکار ہے

✦ آیت 6: رات کا اٹھنا نفس کو قابو میں رکھنے میں زیادہ مضبوط اور بات میں زیادہ درست ہے

▣ رات کی عبادت کا نفسیاتی اور روحانی اثر

یہ آیت قیامُ اللیل کا سائنسی اور روحانی راز کھول دیتی ہے:

  1. رات کا سکوت 2. دنیا کی خاموشی 3. نگاہوں کا سونا 4. فضا کا پاکیزہ ہونا

ان سب کے درمیان اللہ کے سامنے کھڑا ہونا: * دل کو انتہائی نرم کر دیتا ہے * نفس کو توڑ دیتا ہے * غرور کو ختم کر دیتا ہے * زبان میں تاثیر پیدا کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ: * جو لوگ رات کو اللہ کے سامنے جھکتے ہیں * ان کی بات دن میں زیادہ اثر رکھتی ہے * ان کی دعا میں زیادہ قبولیت ہوتی ہے

✦ آیت 7: دن میں تمہارے لیے طویل مصروفیات ہیں

یہ آیت نبی کریم ﷺ کی روز مرہ زندگی کی حقیقت بیان کرتی ہے: * دعوت * تبلیغ

* تکذیب کا سامنا * ایذا * معاشرتی معاملات * اہلِ خانہ کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ: * دن تمہیں بہت تھکا دے گا * اس کے لیے تمہیں رات کی طاقت درکار ہو گی یہی وجہ ہے کہ رات کی عبادت کو دن کی دعوت کے لیے **روحانی ایندھن** قرار دیا گیا۔

✦ آیت 8: اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اور اسی کے ہو رہو

▣ کامل انقطاع اور توکل

یہاں اللہ تعالیٰ نے دو عظیم روحانی اصول جمع کر دیے: 1. ذکر 2. انقطاع

ذکر کا مطلب: * دل سے اللہ کو یاد کرنا * زبان سے اللہ کا نام لینا * عمل میں اللہ کی اطاعت کرنا اور انقطاع کا مطلب: * دل کو غیر اللہ سے کاٹ لینا * خوف، امید، بھروسا سب اللہ کے ساتھ جوڑ دینا      یہ ہے حقیقی توکل۔

✦ آیت 9: وہی مشرق اور مغرب کا رب ہے

▣ کائناتی توحید کا اعلان

یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو پوری کائنات پر پھیلا دیا: * مشرق بھی اس کا * مغرب بھی اس کا * روشنی بھی اس کی * اندھیرا بھی اس کا جب وہی سب کا رب ہے تو:

* عبادت بھی اسی کی * دعا بھی اسی سے * سہارا بھی اسی کا یہی وہ بنیاد ہے جس پر پورا دین قائم ہے۔

✦ آیت 10: لوگ جو کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور خوبصورتی سے کنارہ کشی اختیار کرو

▣ دعوت کا اخلاقی اصول

یہ آیت دعوتِ اسلامی کا وہ عظیم اصول ہے جس پر پوری سیرت قائم ہے: 1. طعنہ سنو

  1. صبر کرو 3. بدلہ نہ لو 4. گالی کا جواب گالی سے نہ دو 5. بدسلوکی کے بدلے بدسلوکی نہ کرو 6. وقار کے ساتھ دور ہو جاؤ

یہی اخلاق بعد میں مکہ کو فتح کروانے کا سبب بنا۔

✦ حصہ اوّل کے عظیم روحانی، فکری اور عملی نتائج

  1. دعوت سے پہلے روحانی تیاری لازم ہے

  2. قیامُ اللیل داعی کا سب سے بڑا ہتھیار ہے

  3. ترتیل کے بغیر قرآن مکمل اثر نہیں دکھاتا

  4. قرآن بھاری ذمہ داری ہے، صرف تلاوت نہیں

  5. رات کی عبادت دن کے کاموں کو مضبوط کرتی ہے

  6. اللہ سے سچا تعلق دعوت کی کامیابی کی بنیاد ہے

  7. توکل اور ذکر کے بغیر صبر ممکن نہیں

  8. ربوبیتِ الٰہی کائناتی حقیقت ہے

  9. صبر دعوت کا اولین اخلاق ہے

  10. خوبصورتی سے کنارہ کشی بہت بڑی طاقت ہے

✦ حصہ دوم (آیات 11 تا 15) منکرینِ حق کو مہلت، فرعون کی مثال، دنیا کی ناپائیداری، عذابِ الٰہی کا نقشہ اور قیامت کی ہیبت ناکی

✦ تمہیدی گفتگو

سورۃ المزّمّل کا پہلا حصہ روحانی تربیت، قیامُ اللیل، ترتیلِ قرآن، صبر، توکل اور ذکرِ الٰہی کی بلندیوں پر مشتمل تھا۔ یعنی **داخلی دنیا کی اصلاح**۔ لیکن اب دوسرا حصہ **بیرونی دنیا کے تقاضوں** کی طرف آتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ: * منکرینِ مکہ کو مہلت دیتا ہے * ان کے انجام کا خاکہ کھینچتا ہے * تاریخی مثال (فرعون) پیش کرتا ہے

* قیامت کا عظیم منظر سامنے لاتا ہے * دنیا کی ناقدری اور ناپائیداری دکھاتا ہے یہ حصہ دعوتِ اسلامی کا **اخلاقی، تاریخی، نفسیاتی اور عبرتی** پہلو واضح کرتا ہے۔

✦ آیت 11 **وَذَرْنِی وَالْمُکَذِّبِینَ أُولِی النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِیلًا**

▣ جھٹلانے والوں کو چھوڑ دینے کا حکم

یہ آیت ایک عظیم اصول بیان کرتی ہے: جھٹلانے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دو۔ اس میں کئی حکمتیں ہیں:

  1. **دعوت کے آغاز میں ردّعمل دینے کا وقت نہیں ہوتا** نبی ﷺ کو کہا گیا کہ آپ اپنا کام کریں، مخالفت کرنے والوں کا حساب **اللہ کرے گا**۔

  2. **اخلاقی بلندی** جھٹلانے والوں سے بحث، لڑائی، گالی، ردّعمل—یہ سب اخلاقی مقام کو گراتا ہے۔ اللہ نے فرمایا:    *اُنہیں میرے حوالے کر دو۔*

  3. **نفسیاتی سکون** داعی کا دل اگر مخالفین کی اذیتوں میں الجھ جائے، تو وہ اپنی روحانی قوت کھو دیتا ہے۔ اللہ نے نبی ﷺ کے دل کو آزاد کیا:    *اُن کی فکر مجھے کرنے دو۔*

▣ “اولی النعمة” — اہلِ مکہ کا امیر طبقہ

یہ لفظ بہت معنی خیز ہے: * وہ لوگ جن کو اللہ نے مال دیا * عزت دی * طاقت دی

* اولاد دی * سوسائٹی میں مقام دیا لیکن: یہ سب کچھ ملنے کے باوجود یہ لوگ اللہ کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ دراصل **دنیا پرست طبقے** کا نقشہ ہے: * مال ہے مگر شکر نہیں

* طاقت ہے مگر عدل نہیں * زبان ہے مگر حق کے لیے نہیں * دل ہے مگر اللہ کے لیے نرم نہیں     یہ کردار ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے۔

▣ “قَلِیلًا” — تھوڑی مہلت

یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک اہم سنت بیان کی: ❖ اللہ ظالموں کو فوراً نہیں پکڑتا بلکہ: * پہلے موقع دیتا ہے * پھر سمجھاتا ہے * پھر دلیل دیتا ہے * پھر وقت دیتا ہے یہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے: * ظالم کو موقع ملتا ہے * وہ سمجھتا ہے کہ شاید سب کچھ اس کے ہاتھ میں  ہے * لیکن جب اللہ پکڑتا ہے تو دیر سے نہیں پاتا مہلت کا لفظ بتاتا ہے کہ: اللہ کی رسی ڈھیلی ضرور ہوتی ہے، لیکن ٹوٹتی کبھی نہیں۔

✦ آیت 12 **إِنَّ لَدَیْنَا أَنكَالًا وَجَحِیمًا**

▣ “أنکال” — وہ زنجیریں جو روح کو ہلا دیں

یہ لفظ صرف عام زنجیروں کے لیے نہیں آتا بلکہ ایسی بیڑیوں کے لیے آتا ہے: * جو انتہائی بھاری ہوں * جن میں حرکت کرنا ناممکن ہو * جو انسان کو جکڑ کر رکھ دیں یہ وہ بیڑیاں ہیں جو: * ہاتھوں کو باندھ دیں * پیروں کو قید کر دیں * سینے کو بند کر دیں

* آزادی کی امید چھین لیں یعنی: جس طرح وہ دنیا میں اپنے نفس کے غلام تھے آخرت میں وہ زنجیروں کے غلام بنیں گے۔

▣ “جحیم” — بھڑکتی ہوئی آگ     “جحیم” کا تصور:

* آگ کی انتہائی شدت * بھڑکتی ہوئی لپٹ * دور سے بھی تپش محسوس ہونا * نہ بجھنے والی آگ یہ چیز انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے: * دنیا کی آگ چند درجہ حرارت کی ہے * لیکن انسان اس سے بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا * تو پھر جہنم کی آگ کیا ہوگی؟ اور یہ سزا کیوں؟ * حق کو جھٹلانا * ظلم کرنا * غرور کرنا * اللہ کی نعمتوں کو بھول جانا

✦ آیت 13 **وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِیمًا**

▣ “طعاماً ذا غصة” — گھٹن پیدا کرنے والا کھانا

یہ تصویر بہت ہولناک ہے: * بھوک ہو گی * کھانا دیا جائے گا * لیکن وہ کھانا نگلا نہیں جا سکے گا * وہ گلے میں اٹک جائے گا * پانی پینا چاہیں گے تو وہ بھی نہ اترے گا مفسرین کے مطابق یہ کھانا: * زقوم * ضریع * خار دار جھاڑیاں * بدبو دار مواد اور سب سے بڑھ کر: وہ کھانا **عبرت کے لیے ہوگا، تسکین کے لیے نہیں۔** یہ دنیا کے مقابلہ میں ہے: * یہاں لوگ لذیذ کھانے کھاتے ہیں * وہاں وہ چیز بھی نہیں نگل سکیں گے جو زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے

▣ “عذاباً ألیماً” — ایسا درد جس کی کوئی مثال نہیں

یہ عذاب: * ذہنی بھی * جسمانی بھی * روحانی بھی ہو گا۔ یہ سزا اس لیے نہیں کہ اللہ ظالم ہے—نعوذ باللہ—بلکہ اس لیے: * انہوں نے انبیاء کو جھٹلایا * اللہ کی آیات کو ٹھکرایا * غرور کیا * کمزوروں پر ظلم کیا * آخرت کا انکار کیا

✦ آیت 14 **یَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیبًا مَّهِیلًا**

▣ قیامت کے دن زمین کا ہل جانا

یہاں “ترجف” کا لفظ بہت طاقتور ہے: * مسلسل لرزہ * بند نہ ہونے والی جنبش * زمین کا بنیادوں سے ہل جانا * پہاڑوں کا توازن جاتی رہنا یہ وہ دن ہوگا جب: * زمین کا غرور ٹوٹ جائے گا * پہاڑوں کا فخر خاک میں مل جائے گا * کائنات کی بنیادیں ڈول جائیں گی

▣ پہاڑوں کا “کثیباً مہیلاً” بن جانا

یہ بہت حیرت انگیز منظر ہے: * پہاڑ جنہیں انسان مضبوط سمجھتا ہے * بلندی، سختی اور وزن کی علامت سمجھتا ہے * وہ اس دن **ریت کے ٹیلوں کی طرح ڈھیر** ہو جائیں گے * اور یہ ٹیلے **بہنے لگیں گے** * جیسے ریت ہوا کے ساتھ اڑتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ: اللہ کی قدرت کے سامنے پہاڑ بھی کچھ نہیں۔ تو انسان کا غرور تو لمحے میں مٹ سکتا ہے۔

✦ آیت 15 **إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَیْکُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا أَرْسَلْنَا إِلَیٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا**

▣ رسول کا بھیجا جانا اللہ کی سب سے بڑی حجت

اللہ فرما رہا ہے کہ: * تمہارے پاس بھی رسول آیا * ایسے ہی جیسے فرعون کے پاس آیا تھا * رسول کی آمد دلیل ہے کہ اللہ پکڑنے سے پہلے سمجھاتا ہے یہاں رسول ﷺ کی عظمت بیان ہوئی ہے: * وہ گواہ ہیں * وہ دیکھنے والے ہیں * وہ سننے والے ہیں * وہ امت کے حالات سے باخبر ہیں

▣ فرعون کی مثال — تاریخ کا آئینہ

فرعون: * انتہائی طاقتور * دنیا کا سپر پاور * بے شمار خزانے * ہزاروں فوجیں

* تعمیرات کی عظمت * خدائی کا دعویٰ * ظلم کی حدیں لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی: * وہ سمندر میں غرق کر دیا گیا * لاش کو عبرت کے لیے محفوظ کر دیا گیا * شاہی تخت مٹی کا ڈھیر بنا * خزانے چھن گئے * غرور مٹ گیا اور اللہ فرما رہا ہے: مکہ والو! تم فرعون سے بڑے نہیں ہو۔ اگر وہ بچ نہیں سکا تو تم بھی نہیں بچو گے۔

✦ حصہ دوم — فکری، روحانی، اخلاقی اور تاریخی نکات

  1. جھٹلانے والوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں، اللہ کافی ہے

  2. دنیا میں مہلت مل جانا اللہ کی ناراضی نہیں بلکہ امتحان ہے

  3. آخرت کی بیڑیاں دنیا کی غلامی کا نتیجہ ہوتی ہیں

  4. جہنم کا کھانا انسان کی نفسیات کو توڑنے کے لیے ہو گا

  5. قیامت کی شدت پہاڑوں کو پگھلا دے گی

  6. رسول کی آمد اللہ کا بہت بڑا احسان ہے

  7. فرعون کی مثال ہر مغرور انسان کے لیے کافی ہے

  8. طاقت، دولت اور حکومت ہمیشہ نہیں رہتی

  9. اللہ ظالم کو چھوڑتا ضرور ہے، پکڑتا بہرحال ہے

  10. تاریخ کے عدالتی فیصلے کبھی غلط نہیں ہوتے

✦ حصہ دوم کا مجموعی پیغام

یہ حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ: * اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے * دنیا کی نعمتیں انسان کو بہکا دیتی ہیں * تاریخ ہمیشہ ظالم کے خلاف فیصلہ کرتی ہے * رسول کی بات ماننا نجات ہے

* قیامت کا دن بہت قریب ہے * غرور انسان کا اصل دشمن ہے

✦ حصہ سوم (آیات 16 تا 20) اللہ کی پکڑ، رسول کی نافرمانی کا انجام، قیامت کی شدید ہیبت، دین کی آسانی، قیامُ اللیل میں تخفیف، جہاد و انفاق، اور مغفرتِ الٰہی کی بشارت

✦ تمہیدی خلاصہ

پہلے حصے میں **داعی کی باطنی تربیت** دوسرے حصے میں **منکرین کی وعید اور قیامت کی ہولناکی** اور اب تیسرے حصے میں: * اللہ کی حتمی گرفت * رسول کی نافرمانی کا انجام * دنیا و آخرت کا تقابل * دین کا توازن * عبادت میں آسانی * انفاق فی سبیل اللہ * جہاد، صبر اور استغفار * اور سب سے بڑھ کر **اللہ کی رحمت اور مغفرت** کا جامع نظام سامنے آتا ہے۔ یہ حصہ دراصل **اسلام کے “دینِ توازن” ہونے کا اعلان** ہے۔

✦ آیت 16 **فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِیلًا**

▣ نافرمانی کی اصل حقیقت

یہ صرف ایک تاریخی جملہ نہیں بلکہ **ایک ابدی قانون** ہے: رسول کی نافرمانی دراصل اللہ کی نافرمانی ہے۔ فرعون نے: * موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا * دعوت کو جھٹلایا * معجزات کو جادو کہا * بنی اسرائیل پر ظلم بڑھایا * خدائی کا دعویٰ کیا * اور رسول کے مقابل کھڑا ہو گیا  یہی وہ جرم تھا جس پر اللہ کی گرفت آئی۔

▣ “أَخْذًا وَبِيلًا” — نہایت سخت پکڑ    یہ گرفت ایک لمحے میں ہوئی: * نہ فرعون کی فوج کام آئی * نہ اس کے خزانے * نہ اس کے بت * نہ اس کی سیاست * نہ اس کی چالاکی    سمندر کے لہروں نے وہ فیصلہ کر دیا جو:* زمین کے کسی تخت پر ہو نہیں سکتا تھا یہ اس آیت کا زندہ ثبوت ہے کہ: جب اللہ پکڑتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔

✦ آیت 17 **فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا**

▣ قیامت کا ایک ہولناک نفسیاتی منظر

یہاں قیامت کے دن کی شدت کو ایک انتہائی **نفسیاتی مثال** سے واضح کیا گیا ہے:

* وہ دن اتنا سخت ہو گا * کہ معصوم بچے بھی گھبراہٹ سے بوڑھے دکھائی دیں گے

* آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی * زبانیں گنگ ہو جائیں گی * دل کانپنے لگیں گے یہ منظر بتاتا ہے کہ: قیامت صرف جسمانی تباہی نہیں، نفسیاتی قیامت بھی ہے۔

▣ “تَتَّقُونَ” — بچنے کا سوال     یہ آیت انسان سے سوال کرتی ہے: تم اس دن سے کیسے بچو گے؟ نہ مال بچے گا نہ اولاد نہ نسب نہ اقتدار نہ شہرت نہ عہدہ نہ طاقت

بچائے گا تو صرف: * ایمان * عمل صالح * خشیتِ الٰہی * تقویٰ

✦ آیت 18 **السَّمَاءُ مُنفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا**

▣ آسمان کا پھٹ جانا — کائناتی نظام کی شکست

آسمان جسے ہم مضبوط سمجھتے ہیں: * وہ پھٹ جائے گا * اس کے نظام بکھر جائیں گے

* ستارے جھڑ جائیں گے * اجرام آسمانی اپنی ترتیب کھو دیں گے * روشنی کا نظام ٹوٹ جائے گا یہ سب اس لیے ہوگا کیونکہ: یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ کا وعدہ ٹلتا نہیں۔

▣ وعدۂ الٰہی کی قطعیت

یہ آیت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ: * قیامت کوئی مفروضہ نہیں * کوئی فلسفیانہ تصور نہیں * کوئی ڈراؤنی کہانی نہیں * بلکہ ایک **قطعی حقیقت** ہے اللہ نے فرمایا: یہ وعدہ ہو کر رہنے والا ہے۔

✦ آیت 19 **إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا**

▣ قرآن — نصیحت، جبر نہیں

یہ آیت اسلام کے مزاج کو واضح کرتی ہے: * اسلام جبر کا دین نہیں * اسلام زبردستی کا نظام نہیں * اسلام دعوت ہے * سمجھانا ہے * راستہ دکھانا ہے * فیصلہ انسان پر چھوڑ دینا ہے قرآن کہتا ہے: جو چاہے راستہ اختیار کر لے۔ یہی اسلام کی عظمت ہے۔

▣ اللہ تک جانے کا راستہ

یہ راستہ کیا ہے؟ * ایمان * نماز * صبر * شکر * حلال کمائی * والدین کی خدمت * ظلم سے بچاو * عدل و احسان * سچائی * امانت  یہ سب **اللہ تک پہنچنے کی سڑکیں** ہیں۔

✦ آیت 20 (سورۃ کا جامع اختتامی حکم)

یہ آیت سورۃ المزّمّل کا سب سے طویل، جامع اور انتہائی رحمت سے بھرپور حکم ہے۔ اس میں: * قیامُ اللیل کی تخفیف * انسان کی کمزوریوں کا اعتراف * سفر، بیماری، جہاد کی رعایت * نماز، زکوٰۃ، قرضِ حسن * اور آخر میں مغفرت کی بشارت سب کچھ ایک ہی آیت میں سمو دیا گیا ہے۔

▣ قیامُ اللیل میں تخفیف — اللہ کی رحمت

ابتدا میں حکم تھا: * آدھی رات * دو تہائی رات * یا کم از کم تہائی رات قیام لیکن یہاں اللہ فرماتا ہے: اللہ جانتا ہے کہ تم پورا حساب نہیں رکھ سکتے، پس اس نے تم پر آسانی کر دی۔ یہ اعلان ہے کہ: اسلام سختی کا نہیں، سہولت کا دین ہے۔

▣ انسان کی کمزوریاں

اللہ خود بیان فرما رہا ہے: * کچھ لوگ بیمار ہوں گے * کچھ سفر میں ہوں گے * کچھ جہاد میں مصروف ہوں گے یہ سب انسان کی فطری حالتیں ہیں۔ لہٰذا عبادت ایسا نظام نہیں جس سے زندگی ٹوٹ جائے، بلکہ عبادت: زندگی کے ساتھ چلنے والا نظام ہے۔

▣ نماز قائم کرو

اس آیت میں واضح حکم دیا گیا: * نماز قائم کرو * اس میں پابندی پیدا کرو * اسے زندگی کا محور بناو نماز: * دل کو زندہ رکھتی ہے * گناہوں سے روکتی ہے * گھمنڈ توڑتی ہے

* اللہ سے جوڑتی ہے

▣ زکوٰۃ اور انفاق

صرف عبادت نہیں، **سماجی عدل** بھی لازم ہے: * زکوٰۃ ادا کرو * محتاجوں کا خیال رکھو * دولت کو گردش میں رکھو * غریب کی سانس کو مت روکو یہی حقیقی دینداری ہے۔

▣ “قرضِ حسن” — اللہ کو قرض دینا

اللہ فرماتا ہے: اللہ کو اچھا قرض دو۔ یہ کتنا عظیم جملہ ہے کہ: * انسان بندہ * اور اللہ اس سے قرض مانگ رہا ہے یہ قرض دراصل: * غرباء کی مدد * دینی کام * مساجد

* مدارس * مسافر * یتیم * بیوہ   پر خرچ کرنے کا نام ہے۔ اور اللہ وعدہ فرماتا ہے: جو تم دو گے، وہ کئی گنا بڑھا کر واپس ملے گا۔

▣ استغفار کا حکم

آخر میں فرمایا: اللہ سے مغفرت مانگو۔ یعنی: * غلطیاں ہوں گی * کوتاہیاں ہوں گی

* خامیاں ہوں گی لیکن: اللہ غفور بھی ہے، رحیم بھی ہے۔

✦ حصہ سوم کے عقلی و عملی نکات

  1. رسول کی نافرمانی دراصل اللہ کی نافرمانی ہے

  2. اللہ کی پکڑ ناگہانی اور یقینی ہوتی ہے

  3. قیامت نفسیاتی اور جسمانی دونوں عذاب لے کر آئے گی

  4. آسمان کا پھٹنا اللہ کی قدرت کی آخری نشانی ہو گا

  5. قرآن ہدایت دیتا ہے، مجبوری نہیں کرتا

  6. اسلام میں عبادت کے ساتھ سہولت کا اصول موجود ہے

  7. جہاد، سفر اور بیماری عبادت میں رعایت کا سبب ہیں

  8. نماز دین کا ستون ہے

  9. زکوٰۃ سماجی انصاف کی بنیاد ہے

  10. قرضِ حسن اللہ سے نفع بخش کاروبار ہے

  11. استغفار بندے کو اللہ سے جوڑے رکھتا ہے

  12. دین کا اصل مقصد اللہ تک رسائی ہے

✦ سورۃ المزّمّل کا مجموعی خلاصہ (تینوں حصوں کا نچوڑ)

  1. دین کا آغاز **رات کی خاموشی میں اللہ سے تعلق** سے ہوتا ہے

  2. دعوت بغیر روحانی طاقت کے نہیں چل سکتی

  3. دنیا کی دولت، طاقت اور غرور عارضی ہیں

  4. منکرین کو مہلت ملتی ہے مگر نجات نہیں

  5. قیامت ایک یقینی حقیقت ہے

  6. قرآن زبردستی نہیں بلکہ راستہ دکھاتا ہے

  7. اسلام توازن، سہولت اور رحمت کا دین ہے

  8. عبادت کے ساتھ معاشرت، معیشت اور اخلاق لازم ہیں

  9. اللہ کو دیا گیا ہر مال ضائع نہیں جاتا

  10. استغفار انسان کی اصل پناہ گاہ ہے

✦ اختتامی روحانی پیغام

سورۃ المزّمّل ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ: * رات کا سکون بندے کو اللہ سے جوڑتا ہے

* دن کی جدوجہد اسی روحانی طاقت سے مضبوط ہوتی ہے * غرور انسان کو تباہ کرتا ہے * عاجزی انسان کو بچاتی ہے * دنیا فانی اور آخرت باقی ہے * اور سب سے بڑھ کر:  اللہ کی رحمت انسان کی ہر کمزوری سے بڑی ہے۔

Loading