سورۃ الواقعۃ — حصہ اوّل (آیات 1 تا 40)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تمہیدی تعارف**سورۃ الواقعۃ ایک ایسی سورۃ ہے جسے مفسرین نے **قیامت کی حقیقت کو سب سے شدید، سب سے مؤثر، اور نہایت بصیرت افروز انداز** میں بیان کرنے والی سورت قرار دیا ہے۔ یہ مکی دور کے اس حصے میں نازل ہوئی جب کفارِ قریش کے دلوں میں تکبّر، خود اعتمادی اور بے فکری حد سے بڑھ چکی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ: “قیامت؟ دوبارہ زندہ ہونا؟ یہ سب کہانیاں ہیں!” تو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں **ایسے مناظر، ایسی شدت، ایسی ہولناکی اور ایسا کھول کر بیان** کیا کہ انسان کی روح تک لرز جائے۔
🌙 **سورۃ الواقعۃ حصہ اوّل (آیات 1 تا 40) — تفصیلی بیان شروع**
⭐ **(آیت 1) “اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ”
جب وہ ہونے والی (قیامت) وقوع پذیر ہو جائے گی** یہاں لفظ **الواقعۃ** ایک ایسا نام ہے جس میں ہیبت بھی ہے، عظمت بھی، اور انجام کا اٹل اعلان بھی۔ * “الواقعۃ” یعنی ایسی حقیقت جو **ضرور** ہونی ہے جو **ٹھہر چکی ہے** جس کے آنے میں **کسی تاخیر یا تبدیلی کی گنجائش نہیں**۔ یہ آیت ایک دھماکہ خیز خبر کی طرح دل میں اترتی ہے— جیسے کسی نے اچانک کسی سوئے ہوئے انسان کے کان میں بگل بجا دیا ہو۔
اللہ فرما رہا ہے: *وہ گھڑی آ کر رہے گی، چاہے تمہارا یقین ہو یا نہ ہو۔*
⭐ **(آیت 2) “لَیْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ”
اس کے آنے میں کوئی جھوٹ یا شک کی گنجائش نہیں** یہاں قیامت کی **یقین دہانی** بیان ہوئی ہے۔ * نہ کوئی اسے روک سکتا ہے * نہ ٹال سکتا ہے * نہ اس کا انکار حقیقت کو بدل سکتا ہے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ جملہ ایسا ہے جیسے آسمان کی شہ رگ سے صدا آئے: *یہ فیصلہ اللہ نے لکھ دیا ہے—اس میں تبدیلی کا سوال ہی نہیں۔*
⭐ **(آیت 3) “خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ”
وہ (قیامت) کچھ کو نیچا کر دے گی اور کچھ کو اوپر اٹھائے گی** یہاں دو بڑے معنی ہیں:
1️⃣ دنیا میں عزت والے نیچے کر دیئے جائیں گے
دولت والے قبائل والے اثر و رسوخ والے طاقت والے غرور والے
قیامت سب کو **زمین پر دے مارے گی۔**
2️⃣ دنیا میں کمزور، دبے ہوئے، غریب، ایمان والے اوپر کر دیئے جائیں گے
جنہیں تم کمزور سمجھتے تھے جنہیں تم نے حقیر جانا جن پر ظلم کیا
جنہیں مسجد کے کونے میں دھکیلا
وہ سب **عرش کے قریب کھڑے ہوں گے۔** قیامت کا زلزلہ نہ صرف زمین کو الٹ پلٹ کرے گا— بلکہ **اقدار کو بھی الٹ دے گا۔**
⭐ **(آیات 4–6) پہاڑوں کی تباہی**
**“اِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا” (آیت 4)** جب زمین شدت سے ہلا دی جائے گی یہ وہ جھٹکا ہوگا جس سے: * سمندر خشک * پہاڑ ریزہ ریزہ * درخت جڑ سے اکھڑ * پہاڑ روئی بن کر اڑ جائیں گے
**“وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا” (آیت 5)**
اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے **“فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا” (آیت 6)**
اور وہ غبار کی طرح فضا میں بکھر جائیں گے
تصور کریں— جن پہاڑوں کو دیکھ کر انسان کہتا تھا: “یہ کبھی کیسے ٹوٹ سکتے ہیں؟” وہ اللہ کے ایک حکم سے **دھویں کی طرح** بکھر جائیں گے۔
⭐ **(آیات 7–10) انسان تین گروہوں میں تقسیم ہوگا**
**(آیت 7) “وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً”** تم تین گروہوں میں بانٹ دیئے جاؤ گے
یہ قیامت کی سب سے بڑی تقسیم ہے۔
1️⃣ **سابقون** — سبقت لے جانے والے، انتہائی نیک
2️⃣ **اصحاب الیمین** — نیکی والے (درمیانہ طبقۂ ایمان)
3️⃣ **اصحاب الشمال** — گمراہ، منکر، بدکار، مجرم
آگے ہر گروہ کی تفصیل آنے والی ہے۔
⭐ **(آیت 10–12) سابقون کی شان**
**“وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ” (آیت 10)** اور سبقت لے جانے والے ہی سبقت لے جانے والے ہیں یہ اعزاز دو مرتبہ دو وجہ سے آیا:
* یہ ان کی **اصل عظمت کی تکرار** ہے
* یہ بتانے کے لیے کہ یہ واقعی ممتاز لوگ ہیں
کون ہیں “سابقون”؟
* وہ جو اللہ کی عبادت میں آگے بڑھنے والے * راتوں کو رونے والے
* تقویٰ میں سب سے بڑھ کر * غریبوں کو سب سے زیادہ دینے والے
* حق کے لیے سب سے پہلے کھڑے ہونے والے * آزمائش میں سب سے مضبوط
یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں *اکثر نظر انداز* رہے— لیکن اللہ کے نزدیک **سب سے بلند** تھے۔
**(آیت 11)**
“اُولٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ” یہی لوگ اللہ کے مقرب ہوں گے
یعنی اللہ کے **انتہائی قریب**۔ سسکتے ہوئے سجدوں والے تنہائی میں روتے ہوئے ذکر کرنے والے جو کسی کو دکھ نا دیں جن کے دل کپکپاتے تھے جو نمایاں نہیں تھے— انہیں قیامت میں اللہ اپنے قریب بٹھائے گا۔
**(آیت 12)**
“فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ” نعمتوں سے بھرے باغات میں
یہ نعمتیں عام جنت نہیں— یہ سب سے اعلیٰ درجے کی نعمتیں ہیں۔
⭐ **(آیات 13–16) سابقون کی تعداد اور ان کا عظیم مقام**
**“ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ” (آیت 13)** ان میں بہت سے پہلے دور کے ہوں گے
**“وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ” (آیت 14)** اور تھوڑے بعد والوں میں سے
یعنی:
* پہلے دور میں ایمان لانے والے بہت مضبوط ہوتے تھے
* بعد والوں میں نیکی والے کم ہوں گے
* اس امت کے بھی کم لوگ اس درجے پر پہنچیں گے
(آیات 15–16)
وہ سب **آرام دہ، خوب بنے ہوئے تختوں پر** بیٹھے ہوں گے جہاں وہ **ایک دوسرے کے سامنے** ہوں گے تاکہ گفتگو میں محبت بڑھے۔
⭐ **(آیات 17–24) سابقون کے اعلیٰ ترین انعامات**
یہ آیات سابقون کی جنت کی محبوب ترین خصوصیات بیان کرتی ہیں:
1️⃣ **ہمیشہ جوان، ہمیشہ پاکیزہ خدمت گزار (آیت 17)**
ایسے نوجوان جو **هميشه یکساں** رہتے ہیں نہ بوڑھے نہ بیمار نہ تھکتے نہ ناپسندیدہ رویہ رکھتے
2️⃣ **نہ ختم ہونے والے پاک مشروبات (آیت 18–19)** پالے ہوئے مہر لگی پیالیاں
ایسی شراب جو: * سر نہیں چکراتی * باتیں بے ہودہ نہیں کراتی * نقصان نہیں دیتی
* شرمندگی نہیں لاتی
3️⃣ **پسندیدہ میوے (آیت 20–21)**
ایسے پھل جو انسان **چاہے** گا بس سوچے گا—سامنے حاضر۔
4️⃣ **پرندوں کا گوشت (آیت 21)** بالکل من پسند ذائقے کے ساتھ۔
5️⃣ **پاکیزہ ازواج (آیت 22–24)**
جو:
* نگاہیں نیچی رکھنے والی * اخلاق میں نرم * پاکیزہ * محبت سے بھرپور
* حسن میں بے مثال
⭐ **(آیات 25–26) سابقون کی اعلیٰ فضا**
وہاں:
* کوئی بے ہودگی نہیں * کوئی بری بات نہیں * صرف سلامتی، محبت، عزت، نور۔
ہر شخص دوسرے سے: “سلام علیکم” کہے گا — یعنی **امن اور محبت** ہر طرف ہوگی۔
⭐ **(آیات 27–34) اصحاب الیمین — جنت کا دوسرا عظیم گروہ**
اب اللہ دوسرا گروہ ذکر کرتا ہے:
**(آیت 27) “وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ”**
یہ لوگ کون ہیں؟ * عام مومن * نماز پڑھنے والے * گناہوں سے بچنے والے
* متوسط عمل والے * نیک اور پاکیزہ دل کے انسان
یہ لوگ سابقون کے مقابلے میں درجے میں کم لیکن پھر بھی **جنت والے** ہیں۔
(آیات 28–34)
ان کے لیے: * بے کانٹے بیری * تہ بہ تہ کھجوریں * لمبا سایہ * جاری پانی
* بے موسمی پھل * بلند بستروں پر سکون
اللہ کہتا ہے کہ: *یہ سب کچھ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اپنا ایمان بچایا۔*
⭐ **(آیات 35–40) اصحاب الیمین کے ازواج اور ان کی صفات**
**(آیت 35) “إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً”** ہم نے اُن خواتین کو **ایک خاص تخلیقی انداز** سے پیدا کیا
**(آیت 36) “فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا”** ہم نے انہیں ہمیشہ **نوخیز** اور تازگی رکھنے والی بنایا
**(آیت 37) “عُرُبًا أَتْرَابًا”** محبت کرنے والی، نرم دل شوہر سے محبت رکھنے والی
عمر میں برابر لہجے میں نرم طبعیت میں اعلیٰ
**(آیات 38–40)**
یہ نعمتیں: * بہت سے پہلے دور کے لوگوں کے لیے * اور کچھ بعد والوں کے لیے
⭐ **سورۃ الواقعۃ — حصہ دوم (آیات 41 تا 74)
سورۃ الواقعۃ کے پہلے حصّے میں اللہ تعالیٰ نے دو بڑے گروہوں— **سابقون** اور **اصحاب الیمین**—کی نعمتوں اور عظمت کا ذکر فرمایا تھا۔ اب حصہ دوم میں کائناتی منظر یک دم بدل جاتا ہے۔ لہجے میں نورانی لطافت سے ہٹ کر ایک خوفناک شدت آ جاتی ہے۔ جہاں پہلے حصّے میں جنت کی خوشبو، آسائش، راحت اور نور تھا— یہاں **دوزخ کی جلتی ہوئی تپش، اندھیرا، ماتم، حسرتوں کی گرد اور محرومی کا دھواں** ہے۔ اس حصہ میں اللہ تعالیٰ **اصحاب الشمال** (گمراہ، منکر، سرکش، ظالم) کے انجام کو بیان کرتا ہے۔ پھر انسان کی پیدائش، زندگی، موت، اور دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت پر بہت عظیم دلائل بیان فرماتا ہے۔ یہ حصہ ایک مکمل روحانی سفر ہے— جس میں خوف، عبرت، نصیحت، منطق، فہم، اور اللہ کی قدرت کا بھرپور اظہار ہے۔
🌙 **(آیات 41–56) اصحابُ الشِّمال — بدبختوں کا انجام**
⭐ **(آیت 41) “وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ”**
یہ الفاظ نہایت ہیبت ناک ہیں۔ جیسے اللہ کہہ رہا ہو: *کیا تم جانتے بھی ہو کہ بائیں طرف والے کون ہیں؟*
یہ “کیا ہیں؟” والا سوال دراصل **تعجب اور خوف دلانے** کے لیے ہے۔ یعنی اُن کا انجام، اُن کی حالت، اُن کی کیفیت اتنی ہولناک ہے کہ تم اسے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اسی آیت کا لہجہ بتا دیتا ہے کہ آگے انتہائی لرزہ خیز منظر آنے والا ہے۔
⭐ **(آیت 42) “فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ”**
*وہ تیز جلانے والی ہوا اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔*
“سَمُوم” * ایسی ہوا جو **جلادینے والی** ہو * جس میں آگ کی لہریں ملی ہوں
* جس کا ایک جھونکا جسم کی کھال کو اتار دے * عرب میں زہریلی گرم ہوا کو بھی سموم کہتے ہیں یہاں اللہ اسی جہنمی ہوا کا ذکر کر رہا ہے— جس سے نہ سایہ چھپائے گا، نہ پانی بچائے گا۔
“حَمِيم” * ایسا کھولتا ہوا پانی * جس کا درجہ حرارت انسان برداشت نہیں کر سکتا
* جو پیٹ کے اندر آگ کی طرح شعلہ بن جاتا ہے * جس کا ایک گھونٹ سینے کو پھاڑ کر رکھ دے یہ دونوں عذاب **مسلسل، دائمی، ناقابل برداشت** ہیں۔
⭐ **(آیت 43) “وَظِلٍّ مِّن يَحْمُومٍ”**
*اور کالے دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔* یہاں “سایہ” لفظ آیا، مگر یہ سایہ ایسا نہیں جیسے دنیا میں راحت دیتا ہے۔
“يَحْمُوم” * کالا، بھاری، گھٹاٹوپ دھواں * کوئلے اور تارکول سے بھی زیادہ بدبو والا
* جو روشنی کو نگل جائے * جو سانس میں آگ کی طرح داخل ہو
یعنی وہاں روشنی نہیں، صرف **سیاہی + تپش + گندگی + بدبو + گھٹن** ہے۔
⭐ **(آیت 44) “لَا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ”**
نہ یہ سایہ ٹھنڈا ہوگا نہ عزت و سکون دینے والا۔
یعنی: * نہ آرام * نہ سکون * نہ راحت * نہ سایہ * نہ کوئی امید
وہاں “سایہ بھی عذاب” ہے۔
🌙 **اصحاب الشمال کے گناہ — کیوں پکڑے جائیں گے؟** (آیات 45–47)
⭐ **(آیت 45) “إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُتْرَفِينَ”**
*وہ دنیا میں عیش کرنے والے تھے۔*
یہ “عیش” وہ عیش نہیں جس میں اللہ شکر ادا کیا جائے— بلکہ وہ عیش جس میں:
* غرور * تکبر * فخر * گناہ * شہوت * ظلم * بے فکری * غفلت * بگاڑ شامل ہو۔
مفسرین کہتے ہیں: “مترف” وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں دنیا کی نعمتیں ملتی ہیں، مگر وہ ان نعمتوں کے شکر کے بجائے **فساد میں لگ جاتے ہیں**۔
⭐ **(آیت 46) “وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنثِ الْعَظِيمِ”**
*وہ بہت بڑے گناہ پر اصرار کرتے تھے۔* یہ آیت بہت خوف ناک ہے۔
“اصرار” کا مطلب: * گناہ کو چھوڑنا نہ چاہنا * اس پر جمے رہنا * اسے معمول بنانا
* توبہ نہ کرنا * نصیحت نہ ماننا
“الحنث العظیم”: * شرک * کفر * نبی ﷺ کی تکذیب * وعدوں کا توڑنا * دوسروں کو گمراہ کرنا * کھلی نافرمانی * اخلاقی بگاڑ * اللہ کے احکام کی ہنسی
یہ آیت اُن لوگوں کے لیے ہے جو **گناہ چھوڑنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے**۔
⭐ **(آیت 47) “وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ؟”**
*وہ کہتے تھے: کیا جب ہم مر جائیں گے، مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے، تو دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟* یہ انکار دو وجوہ سے تھا:
-
**تکبر** 2. **عقل پر غلط بھروسہ**
وہ سمجھتے تھے: “لاکھوں لوگ مر گئے، ہم بھی مٹی ہو جائیں گے، پھر زندہ ہونا کیسا؟” یہ دنیا کا سب سے عام سوال، مگر سب سے گہری جہالت ہے۔
⭐ **(آیت 48) “أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ”**
*اور کیا ہمارے باپ دادا بھی دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟* یہ مذاق تھا۔ طنز تھا۔ کہنا چاہتے تھے: “اچھا! تو ہمارے ہزاروں سال پرانے آباء بھی مٹی سے پھر اٹھیں گے؟” ان باتوں میں **تکبر + انکار + ضد** تھی۔
🌙 **قیامت کے جواب میں اللہ کا اعلان** (آیات 49–50)
⭐ (آیت 49) “قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ”*کہہ دیجئے: یقیناً پہلے اور بعد کے سب لوگ*
⭐ **(آیت 50) “لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ”** *ایک مقرر دن کے لیے جمع کیے جانے والے ہیں۔* یہ آیت قیامت کو **ریاضی کی قطعی حقیقت** کی طرح بیان کرتی ہے۔ * نہ آگے * نہ پیچھے * نہ بدلنے والا * نہ ٹلنے والا
ہر انسان، چاہے پہلے زمانے کا ہو یا آخری، اُس دن **جمع** ہوگا۔
یہ جمع ہونا: * جسمانی بھی * روحانی بھی * حسابی بھی ہے۔
🌙 **(آیات 51–56) اصحاب الشمال کا دردناک انجام**
⭐ **(آیت 51) “ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ”**
یہ خطاب انتہائی سخت ہے۔ *اے گمراہ کرنے والو اور جھٹلانے والو!* یہاں دو جرم ہیں: 1. خود گمراہ ہونا 2. دوسروں کو گمراہ کرنا
⭐ *(آیت 52) “لَآكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ”* *تم یقینا زقوم کے درخت سے کھاؤ گے۔*
“زقوم” کیا ہے؟ * جہنم کی تہہ میں اگنے والا * انتہائی بدبو والا * انتہائی تلخ * جسم کو اندر سے چھلنی کرنے والا * کھانے سے پیاس بڑھانے والا * چہرے کو بھیانک بنا دینے والا یہ کوئی پھل نہیں— یہ **عذاب کی ایک شکل** ہے۔
⭐ **(آیت 53) “فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ”**
*اور تم اس سے اپنے پیٹ بھرو گے۔* یہ بھوک کی وجہ سے نہیں— یہ **عذاب کی مجبوری** کی وجہ سے کھلایا جائے گا۔ کوئی دوسرا کھانا نہیں ہوگا۔ کھانے سے رُک نہیں سکیں گے۔ اور کھانے کے بعد عذاب مزید بڑھ جائے گا۔
⭐ **(آیت 54) “فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ”**
*پھر تم اس پر کھولتے ہوئے پانی پیو گے۔* زقوم کا پھل پیاس کو کئی درجے بڑھا دے گا— اور اُس بڑھتی ہوئی پیاس کے لیے جو پانی دیا جائے گا وہ “حمیم” ہے: * شدید کھولتا ہوا * لوہے کو پگھلا دے * گلے کو آگ بنا دے
⭐ **(آیت 55) “فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ”**
*تم اس پانی کو پیو گے جیسے “ہیم” اونٹ پیتے ہیں۔*
“ہیم” کیا ہے؟ * ایک بیماری جس میں اونٹ جتنا پانی پئے پیاس بجھتی نہیں * وہ بار بار، بہت زیادہ پانی پیتا ہے * مگر مرض بڑھتا جاتا ہے
یہ مثال جہنمیوں کی **حد سے زیادہ پیاس** بیان کرتی ہے۔
⭐ **(آیت 56) “هَٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ”**
*یہ ہے ان کی ابتدائی مہمان نوازی قیامت کے دن۔* “نُزُل” یعنی **ابتدائی کھانا** جو مہمان کو دیا جاتا ہے۔ یعنی:
یہ تو صرف *ابتداء* ہے۔ اصل عذاب ابھی باقی ہے۔
یہ جملہ مکمل روح کانپ دینے والا ہے۔
🌙 **(آیات 57–74) اللہ کی قدرت — انسان کی پیدائش، زمین، پانی، آگ**
اس حصے میں اللہ تعالیٰ ایسے دلائل دیتا ہے جو پوری انسانیت کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔
اللہ سوال در سوال پوچھتا ہے— اور ہر سوال کا جواب عقل خود دیتی ہے۔ جیسے کوئی استاد شاگرد کو کہہ رہا ہو: “بتاؤ، سوچو، دیکھو، سمجھو!” یہ حصہ قرآن کے سب سے عظیم سائنسی—روحانی—فلسفی—تخلیقی دلائل میں سے ہے۔
⭐ **(آیت 57) “نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ”**
*ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم کیوں نہیں مانتے؟* یہ آیت انسان کی اصل حقیقت بے نقاب کرتی ہے۔ تم کیسے کہہ سکتے ہو: “دوبارہ پیدا کیسے ہوں گے؟” جب پہلی بار تمہیں **عدم سے وجود** دیا؟ تمہاری ہڈی، گوشت، خون، عقل، آنکھیں—سب کس نے بنائے؟
یہ سوال انسان کی گردن پکڑ کر اسے دکھاتا ہے کہ: *جو پہلی بار پیدا کرے، اس کے لیے دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں۔*
⭐ **(آیات 58–59) نطفہ — سب سے بڑی دلیل**
**(آیت 58) “أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ”** *کیا تم نے اس قطرے کو دیکھا جو تم ٹپکاتے ہو؟*
**(آیت 59) “أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ؟”** *کیا تم اس سے بچہ بنا لیتے ہو یا ہم؟*
یہاں انسان کی اوقات کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایک قطرہ جو چند لمحوں میں بہہ بھی جائے جس میں کوئی طاقت نہیں کوئی اختیار نہیں اسی سے:
* آنکھ * دل * اعصاب * دماغ * شعور * روح * شکل * جسم
سب وجود میں آتے ہیں۔ یہ کام کس نے کیا؟ انسان؟ ڈاکٹر؟ سائنسدان؟ نہیں—
یہ صرف اللہ کی تخلیق ہے۔
⭐ **(آیات 60–62) موت — ایک مقرر فیصلہ**
**(آیت 60) “نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ”** *ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقرر کیا ہے۔*
یہ بھی انسان کے اختیار میں نہیں۔ تم روک سکتے ہو؟ طول دے سکتے ہو؟ بدل سکتے ہو؟ نہیں۔
**(آیت 61) “وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ”**
*ہم پسپا نہیں کیے جا سکتے۔* کوئی موت کو روک نہیں سکتا۔ کوئی پہل نہیں لے سکتا۔
کوئی اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
**(آیت 62) “عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ”**
*ہم چاہیں تو تمہیں بدل دیں اور نئی مخلوق پیدا کر دیں۔* یہ انسان کی کمزوری کا اعلان ہے۔
⭐ **(آیات 63–67) کھیتی — موت و حیات کا سب سے بڑا مشاہدہ**
**(آیت 63) “أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ”** *کیا تم نے اس کھیتی پر غور کیا جسے تم بوتے ہو؟*
**(آیت 64) “أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ؟”** *کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم؟*
انسان صرف: * بیج ڈالتا ہے * پانی دیتا ہے لیکن بیج میں جان کون ڈالتا ہے؟
اس کا اگنا پھوٹنا پتہ بننا پھل آنا باریک نظام یہ سب اللہ کا کام ہے۔
**(آیت 65)**
*اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر دیں۔* ایک خشک ہوا ایک بیماری ایک آفت
ایک ٹڈی دل اور پوری کھیتی ختم۔
⭐ **(آیات 68–70) پانی — سب سے عظیم نعمت**
**(آیت 68) “أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ”** *کیا اس پانی کو دیکھا جو تم پیتے ہو؟*
**(آیت 69) “أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ؟”** *کیا تم نے اسے بادلوں سے اتارا یا ہم؟*
**(آیت 70)** *اگر ہم چاہیں اسے کڑوا بنا دیں۔* سوچو:
سمندر کھارا بادل میٹھے بارش صاف پہاڑ فلٹر ندیوں میں روانی
یہ نظام کس نے بنایا؟ اگر پانی چند دن کھارا ہو جائے؟ زندگی ختم۔
⭐ **(آیات 71–73) آگ — انسان کا بنیادی سہارا**
**(آیت 71) “أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ”** *اس آگ پر غور کیا جو تم روشن کرتے ہو؟*
**(آیت 72) “أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ؟”** *اس کی لکڑی کس نے پیدا کی؟*
یہ: * حرارت * توانائی * روشنی * زندگی سب اللہ کی نعمتیں ہیں۔
⭐ **(آیت 73) “نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً”**
*ہم نے اسے تمہارے لیے یاد دہانی بنایا ہے۔* یعنی: دنیا کی آگ دیکھ کر اصل آتشِ جہنم کو یاد کرو۔
⭐ **(آیت 74) نتیجہ**
*اللہ کی عظیم قدرت کو پہچانو۔* یہ ساری مخلوق یہ سارا نظام یہ پیدائش یہ موت یہ اگانا یہ جلانا یہ پانی یہ زندگی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
**سورۃ الواقعۃ — حصہ سوم (آیات 41 تا 96)
**آیت 41 — 48
اَصحابُ الشِّمال کا انجام۔ روحانی و اخلاقی زاویوں سے تفصیلی بیان**
**آیت 41:** **“وَاَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا اَصْحَابُ الشِّمَالِ”** (اور بائیں طرف والے، کیا ہی برے ہیں بائیں طرف والے!)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا اسلوب اختیار کیا ہے جو *ہول*، *سختی* اور *انجام کی دہشت* کو ایک جملے میں کھول دیتا ہے۔ “ما اَصحابُ الشِّمال” کا تکراری انداز اس اُلجھی ہوئی تباہی کو ظاہر کرتا ہے جو ان لوگوں کا مقدر ہے جنہوں نے دنیا میں اللہ کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ یہاں “شمال” بائیں طرف ہے، جو عربی میں ناقدری، ناکامی، خسارے اور بدبختی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ گویا یہ آیت صرف ان کے مقام کی نہیں بلکہ **ان کی پوری زندگی کے انجام کا اعلان ہے۔**
**آیت 42:** **“فِی سَمُومٍ وَحَمِیمٍ”** (وہ جھلسا دینے والی آندھی اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔)
یہاں “سموم” وہ گرم لُو ہے جو جسم کو نہ صرف باہر سے جلاتی ہے بلکہ اندر تک داخل ہوتی ہے۔ گویا یہ عذاب صرف جسم پر نہیں بلکہ روح کے لب لباب پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ “حمیم” کھولتا ہوا پانی… وہ پانی جو پیاس کو بجھانے کے لیے نہیں بلکہ تکلیف کو کئی گنا بڑھانے کے لیے ہو گا۔
**آیت 43:** **“وَظِلٍّ مِنْ یَحْمُومٍ”** (اور یحموم کے سائے میں ہوں گے۔)
یہ “سایہ” سایہ نہیں… یہ **دھوئیں کا سیاہ، گھٹا ٹوپ اور بے قرار کر دینے والا دھواں** ہے۔ یہاں سایہ بھی راحت نہیں بلکہ مزید گھٹن ہے۔ دنیا کی دھوپ سے بھاگ کر سایہ تلاش کیا جاتا ہے، مگر جہنم کے بائیں طرف والوں کے لیے سایہ بھی عذاب ہے۔
یہاں اللہ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ **جن کی زندگی ظلمت، تکبر، انکار، بےحیائی اور خودغرضی میں گزری… اُن کے لیے ظلمت ہی ظلمت مقدر ہے۔**
**آیت 44:** **“لَا بَارِدٍ وَلَا کَرِیمٍ”** (نہ ٹھنڈا، نہ کسی عزت والا۔)
یہاں دو لفظ پورے جہنمی ماحول کی تعریف مکمل کر دیتے ہیں: **نہ راحت، نہ عزت۔** حرارت بھی مستقل، ذلت بھی مستقل۔ ایسی جگہ جہاں “کرامت” یعنی عزت، سکون، راحت، خوشی کا کوئی تصور بھی موجود نہ ہو۔ یہاں یہ بھی لطیف نکتہ ہے کہ دنیا میں عزت کو سب سے زیادہ لیا جاتا ہے… جو لوگ دنیا میں ظلم کر کے، دوسروں کو دبا کر، اپنی خود بینی میں عزت ڈھونڈتے ہیں… آخرت میں وہ سب سے زیادہ ذلیل کیے جائیں گے۔
**آیت 45—46:** **“إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُتْرَفِينَ۔ وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنثِ الْعَظِيمِ”** (وہ دنیا میں عیش کرنے والے تھے۔ اور بڑے گناہ پر اصرار کرنے والے تھے۔)
“مترفین” — وہ لوگ جو نعمتوں میں غرق ہو کر اپنی ناقدری میں اندھے ہو جاتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے “گناہ کرنے” کا لفظ نہیں فرمایا… بلکہ فرمایا: **اصرار کرتے تھے!** یعنی:
✔ طبیعت سے گناہ جاتا نہیں تھا
✔ نصیحت اثر نہیں کرتی تھی
✔ ملامت فائدہ نہیں دیتی تھی
✔ دل میں خوفِ خدا نہیں تھا
یہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑی بغاوت ہے۔
**آیت 47:** **“وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ؟”** (وہ کہتے تھے: کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟) یہ آیت آج کے جدید مادّی ذہن رکھنے والوں پر بھی لاگو ہوتی ہے— جنہیں “آخرت” ایک فلسفہ لگتی ہے، حقیقت نہیں۔
**آیت 48:** **“أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ؟”** (اور کیا ہمارے باپ دادا بھی؟)
یہ آیت انسان کی اُس ضد کو بیان کرتی ہے جس میں وہ حقیقت کو مذاق بنا دیتا ہے۔
**آیت 49—50 جوابِ الٰہی — ایک فیصلہ کن اعلان**
**آیت 49:** **“قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ”** (کہہ دو: یقیناً اگوالین اور آخرین سب…)
**آیت 50:** **“لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ”** (ایک مقرر دن کی میعاد پر جمع کیے جائیں گے۔) یہاں اللہ نے آخرت کے پورے نظام کو صرف دو آیات میں بند کر دیا۔ نہ جبر، نہ اختیارات کی نفی— بس اعلان: **ہر انسان واپس آئے گا۔**
**آیات 51 تا 56 جہنمی خوراک— “زقّوم” کی حقیقت**
**آیت 51:** **“ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُكَذِّبُونَ”** (پھر تم گمراہ اور جھٹلانے والوں!)
یہاں خطاب تیز اور سخت ہے۔ یہاں جملے کی تیزی سنائی دیتی ہے۔
**آیت 52—53:** **“لَآكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ۔ فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ”**
زقّوم… وہ درخت جو جہنم کی گہرائیوں میں اگتا ہے۔ جس کے پھل کے بارے میں حدیث میں ہے کہ اگر دنیا میں اُس کا ایک قطرہ ٹپک جائے تو دنیا کی ساری زندگی تباہ ہو جائے۔ مگر… جہنمی اسے کھانے پر مجبور ہوں گے!
**آیت 54:** **“فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ”** (پھر اُس پر کھولتا پانی پئیں گے۔)
**آیت 55:** **“فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ”** (اونٹوں کی شدتِ پیاس کے ساتھ پئیں گے۔)
یہ آیت پیاس کی شدت بیان کرتی ہے— ایسی پیاس جو بجھتی نہیں۔
**آیت 56:** **“هَٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ”** (یہ ان کی پہلی تواضع ہے روزِ جزا کے دن۔)
گویا یہ تو صرف ابتدا ہے۔
**آیات 57 تا 74 انسان کی تخلیق، موت، زندگی، معیشت اور کائنات کے راز**
یہ حصہ سورۃ الواقعہ کا سب سے عظیم فکری حصہ ہے۔
**آیت 57:** **“نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ؟”** (ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم کیوں نہیں مانتے؟) یہ اللہ کا براہِ راست چیلنج ہے۔ وجود کو دیکھو— نظام کو دیکھو— پیدائش کو دیکھو— یہ سب کچھ حادثہ کیسے ہو سکتا ہے؟
**آیت 58—59:** نطفہ… پھر رحم میں ترتیب… پھر شکل… اللہ نے پوچھا: **“کیا تم ہی اُسے ٹھہراتے ہو یا ہم ٹھہراتے ہیں؟”** یہ آیت انسان کے غرور کی جڑ کو کاٹ دیتی ہے۔
**آیت 63—67:** کھیتی، بیج، بارش، بڑھوتری، ہریالی… ہر قدم پر اللہ سوال کرتا ہے: **“اے انسان! تم کیا کرتے ہو؟ کس چیز کا مالک ہو؟ کس بات پر مغرور ہو؟”**
**آیت 68—70:** پانی… وہی پانی جس پر دنیا کھڑی ہے۔ اللہ کہتا ہے: “اگر ہم اُسے کھارا کر دیں؟ تو کون ہے جو اسے میٹھا کرے گا؟”
**آیات 71 تا 76 آگ— انسان کی تاریخ کی سب سے اولین نعمت** اللہ نے انسان کو یاد دلایا: **جس آگ سے تم کھانا پکاتے ہو اور دنیا کے نظام چلاتے ہو وہ آگ بھی ہم نے پیدا کی۔** یہاں “آگ” علامت ہے — علم کی، تہذیب کی، صنعت کی۔
**آیت 77 تا 96 قرآن کی عظمت کا اعلان — سورۃ الواقعہ کا عروج** یہ حصہ اُس تاج کی طرح ہے جو پوری سورت کے سر پر رکھا جاتا ہے۔
**آیت 77:** **“إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ”** یعنی یہ قرآن عزت والا ہے، بلند مقام والا ہے، کسی مذاق یا افسانے کا مجموعہ نہیں۔
**آیت 78:** **“فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ”** (ایک محفوظ کتاب میں درج ہے۔)
یہ قرآن کا **اصل مقام لوحِ محفوظ** ہے۔
**آیت 79:** **“لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ”** (اس کو چھوتے نہیں مگر پاک لوگ۔)
یہ آیت ظاہر و باطن دونوں کی پاکیزگی کا اعلان ہے۔
**آیت 80:** **“تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ”** یہ کسی انسان کا کلام نہیں— یہ ربّ العالمین کی نازل کردہ روشنی ہے۔
**آیت 81—82:** **“اَفَبِهٰذَا الْحَدِيثِ اَنْتُمْ مُدْهِنُونَ؟ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ!”**
یہاں اللہ نے سخت ترین جملہ فرمایا: **کیا تم قرآن کے ساتھ نرمی اور بےتوجہی کر رہے ہو؟ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ تم جھٹلاؤ؟**
**آیات 83 تا 87:** موت کے وقت انسان کی بےبسی… نہ کوئی مددگار نہ کوئی طاقت
نہ کوئی راستہ۔ “روح” جب گلے تک آ جائے… تو انسان صرف انتظار کرتا ہے۔
**آیات 88 تا 96:** یہ حصہ سورت کا اختتام ہے— جس میں تین بار پھر تین درجے یاد کروائے گئے:
✔ **مقربین** — سب سے اوپر
✔ **اصحاب الیمین** — کامیاب
✔ **اصحاب الشمال** — ناکام
اور آخر میں دوبارہ اعلان: **یہ قرآن یقینِ کامل ہے۔ یہ شک سے پاک ہے۔ یہ فیصلہ ہے۔*
![]()

