سچائی کا لباس پہننا آسان ہے، مگر اس کی عزت کو نبھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک دن ایک اجنبی شخص حاضر ہوا۔ وہ سادہ سا آدمی تھا، لیکن لہجے میں اعتماد اور آنکھوں میں چمک تھی۔ اس نے خود کو “کندن بہروپیا” کہہ کر تعارف کرایا اور کہا،
“جہاں پناہ! میں فنکار ہوں، بہروپ بدلتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں آپ کو بھی دھوکہ دے سکتا ہوں۔”
شہنشاہ نے بات کو معمولی سمجھا اور کہا،
“یہ سب لغویات میرے لیے اہم نہیں۔ میں تو شکار کو بھی فضول سمجھتا ہوں، بہروپ کیا چیز ہے!”
لیکن بہروپیا ضد پر اڑا رہا۔
“ایک شرط رکھیے، اگر میں بھیس بدل کر آؤں اور آپ مجھے پہچان نہ سکیں تو آپ کو پانچ سو روپے دینے ہوں گے۔ اگر پہچان لیا، تو میں خالی ہاتھ واپس چلا جاؤں گا۔”
شہنشاہ نے شرط قبول کر لی۔ معاملہ وہیں ختم ہو گیا… بظاہر۔
مہینے گزرے، موسم بدلے۔ شہنشاہ کا لشکر جنوبی ہندوستان میں مرہٹوں کے خلاف مہم پر روانہ ہوا۔ جب وہ دشمن کے قلعے کے قریب پہنچا، تو سخت مزاحمت نے اس کے قدم روک لیے۔ لشکر تھک گیا، حملے ناکام ہو گئے۔
مشورے پر اسے بتایا گیا کہ قریب ہی ایک درویش فقیر رہتے ہیں، ان کی دعا ضرور کام آئے گی۔
شہنشاہ عاجزی سے فقیر کے آستانے پر گیا۔
“حضرت! اسلام کی سر بلندی کی خاطر دعا فرمائیے، میں کل قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں۔”
فقیر نے نظر اٹھا کر کہا،
“کل نہیں، پرسوں حملہ کیجیے۔ وہ بھی نمازِ ظہر کے بعد۔”
شہنشاہ نے حکم مانا۔ اور جیسے ہی ظہر کے بعد حملہ ہوا، قلعہ ریت کی دیوار کی طرح گر پڑا۔ دشمن گھٹنے ٹیک گیا۔ جنگ جیت لی گئی۔
فتح کے بعد شہنشاہ شکر ادا کرنے درویش کے پاس دوبارہ پہنچا۔ وہ اب بھی سادہ لباس میں، خاموش بیٹھا تھا۔ شہنشاہ نے جھک کر کہا،
“یہ فتح آپ کی دعا کی بدولت ہے۔ میں آپ کو دو پرگنے عطا کرتا ہوں۔ اور آپ کی سات نسلوں کو بادشاہی معافیاں دیتا ہوں۔”
فقیر نے سر جھکا کر بس اتنا کہا،
“ہم فقیر لوگ ہیں، بادشاہوں کی زمینیں ہمارے کسی کام کی نہیں۔”
شہنشاہ نے بہت اصرار کیا، مگر فقیر نے کچھ نہ لیا۔ بادشاہ حیران تھا، لیکن خاموشی سے واپس آگیا۔
چند دن بعد جب شہنشاہ دربار میں بیٹھا فرامین جاری کر رہا تھا، دروازے پر وہی “کندن بہروپیا” نمودار ہوا۔
“جہاں پناہ! میں وہی ہوں جس نے آپ سے پانچ سو روپے کی شرط لگائی تھی۔ آج اپنا وعدہ پورا کرنے حاضر ہوا ہوں۔”
شہنشاہ چونک گیا۔
“تو وہ درویش تم تھے؟!”
کندن نے مسکرا کر سر ہلایا۔
“جی، وہی۔ میں نے اپنا وعدہ نبھایا۔ آپ اب اپنی شرط نبھائیے۔”
شہنشاہ نے نہ صرف پانچ سو روپے دیے بلکہ حیرانی سے پوچھا،
“جب میں نے تمہیں دو پرگنے دیے، سات پشتوں کی چھوٹ دی… تب تم نے انکار کیوں کیا؟ یہ پانچ سو روپے ان سب کے سامنے کچھ بھی نہیں۔”
بہروپیا خاموشی سے بولا،
“حضور! اس وقت میں نے کسی سچے درویش کا روپ دھارا تھا۔ اس لباس میں جھوٹ بولنا، لالچ کرنا، میری نظر میں خیانت تھی۔ میں جھوٹا ہوں، لیکن جس کا بھیس اپنایا تھا، وہ سچے لوگ تھے۔ میں ان کی توہین نہیں کر سکتا تھا۔”
سبق:
سچائی کا لباس پہننا آسان ہے، مگر اس کی عزت کو نبھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جو خود جھوٹا ہو، وہ بھی سچائی کے روپ میں ایمان داری کا مظاہرہ کر سکتا ہے… اگر نیت پاک ہو۔