Daily Roshni News

سچا علم وہی ہے جو انسان  کو آسانی پیدا کرنے والا بنا دے۔

سچا علم وہی ہے جو انسان  کو آسانی پیدا کرنے والا بنا دے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسانی زندگی میں مطالعہ ہمیشہ سے روشنی کی مانند سمجھا گیا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ کئی بار یہی مطالعہ انسان کو ایسی غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے جو جہالت سے بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کوئی شخص چند کتابیں پڑھ کر یہ سمجھنے لگے کہ اس نے کائنات کے سارے راز پا لیے ہیں۔ حالانکہ حقیقی دانش وہی ہے جو قاری کو یہ احساس دلائے کہ اس کی معلومات کتنی محدود ہیں اور سیکھنے کا سفر کتنا طویل ہے۔ علم کی پہلی سیڑھی انسان کو انکساری اور نرم مزاجی کی طرف لے جانی چاہیے مگر جب مطالعہ گھمنڈ کا ذریعہ بن جائے تو وہی علم زہر بن جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو تھوڑی بہت معلومات اکٹھی کر کے خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں اور دوسروں کو کم تر ثابت کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا پڑھنے لکھنے کا مقصد دوسروں پر برتری جتانا ہے یا خود کو ایسا انسان بنانا جو دوسروں کی رہنمائی کر سکے۔ اگر مطالعہ واقعی شعور پیدا کرتا تو پھر زیادہ پڑھنے والے دوسروں کو ناسمجھ قرار دینے کے بجائے ان کے مسائل حل کرنے میں مددگار ہوتے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ لوگ مطالعہ نہیں کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علم کے ذرائع بدل گئے ہیں۔ آج کا نوجوان شاید وہ کتابیں نہ پڑھتا ہو جو ہم چاہتے ہیں مگر وہ اپنے سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے مختلف راستے اختیار کرتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نئی نسل کو ان کی پیاس کے مطابق علم فراہم کر رہے ہیں یا صرف اپنی مرضی کی باتیں ان پر تھوپنے کی ضد کر رہے ہیں۔ اگر کوئی پیاسا ہے تو اسے پانی دیا جاتا ہے نہ کہ طعنے۔ اسی طرح مطالعے کا فروغ بھی سختی یا تنقید سے نہیں بلکہ رہنمائی اور مثبت مثال سے ممکن ہے۔ اصل دشمن جہالت نہیں بلکہ وہ تکبر ہے جو علم کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ جو کچھ ہم پڑھیں وہ ہمیں نرم دل اور وسیع النظر بنائے۔ اگر علم انسان کو صبر، برداشت اور وسعتِ فکر نہیں دے رہا تو وہ محض الفاظ کا بوجھ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنا آسان ہے مگر حقیقی دانش یہ ہے کہ اپنے اندر روشنی پیدا کر کے اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ جب چراغ جلتا ہے تو اندھیرا خود بخود چھٹ جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں مطالعے کی عادت بڑھے تو لوگوں کو جاہل کہنے کے بجائے ان کے ذہنوں میں سوال پیدا کریں۔ یہی سوال ایک دن انہیں علم کے سفر پر لے جائیں گے۔ اصل پیمانہ یہی ہے کہ آپ نے جو کچھ پڑھا کیا اس نے آپ کو دوسروں کے لیے سہولت کا ذریعہ بنایا یا آپ کو مزید سخت کر دیا۔ اگر مطالعہ عاجزی کا سبق نہیں دیتا تو وہ علم نہیں بلکہ مغالطہ ہے۔ سچا علم وہی ہے جو انسان کو دوسروں پر اپنی ذہانت جتانے کے بجائے ان کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے والا بنا دے۔ یہی روشنی ہے جو اندھیرے کو ختم کرتی ہے اور یہی مطالعے کا حقیقی مقصد ہے۔

#Veer

Loading